چرچل کے مشہور جرنیل منٹگمری نے کہا تھا ”جنگ دو کنفیوژڈ فریقوں کے درمیان لڑائی کا نام ہے‘ جو کم کنفیوژ ہوگا وہ اسے جیت لے گا“۔ سیاست کی مثال بھی کچھ ایسے ہی ہے۔ سیاسی بساط پر اس قدر تیزی سے تبدیلیاں نمودار ہوتی ہیں کہ جواباً ایک لمحے کی سستی کرنیوالا گیم سے آﺅٹ ہوجاتا ہے۔ یہاں کنفیوژن کی قطعاً گنجائش نہیں ہوتی۔ ہر فریق کو پوری طرح مستعد رہتے ہوئے حال اور مستقبل سے امنڈتے ہوئے خطرات پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ یہاں ہمیں افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اس وقت مکمل طور پر کنفیوژ اور داخلی تضادات کا شکار نظر آرہی ہیں۔ ان کی پالیسیاں مکمل طور پر دوعملی پر مبنی ہیں جس کے نتیجے میں وہ نہایت تیزی سے عوامی حمایت سے محروم ہورہی ہیں۔ این آر او پر عدلیہ کے فیصلے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکمران جماعت خوشدلی سے اس پر عملدرآمد کرتی تاکہ اس کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہوسکتی۔ اسکے برعکس پیپلز پارٹی دانستہ طور پر ٹکراﺅ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے تھنک ٹینکس نے جو حکمت عملی تیار کی ہے اس کے مطابق عوامی ریلیاں اور جلسے جلوس نکالنے کے ساتھ ساتھ میڈیا اور سول سوسائٹی میں موجود ان کے حامی عدلیہ کے بارے میں سخت زبان استعمال کرینگے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ عدلیہ مشتعل ہو کر توہین عدالت کی کارروائی کرے تو جواباً یہ سٹریٹ ایجی ٹیشن کرکے ججوں پر دباﺅ بڑھائیں۔ بیگم نصرت بھٹو کا نام ای سی ایل میں دانستہ طور پر شامل کیا گیا تاکہ پروپیگنڈہ کرنا آسان ہوسکے۔ پچھلے کچھ دنوں میں ٹکراﺅ کی اسی پالیسی پر عمل ہوا مگر عدلیہ جواباً بڑے تحمل اور دانشمندی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی نے اس سے عدلیہ کے دب جانے کا تاثر لیا۔ امکان یہی نظر آرہا ہے کہ پیپلز پارٹی اسی ٹکراﺅ کی پالیسی کو آگے بڑھائےگی۔ طارق مسعود کھوسہ کو ڈی جی ایف آئی اے ابھی تک دوبارہ نہیں لگایا گیا۔ اسی طرح اب واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ حکومت سوئس عدالتوں میں کیس ری اوپن کرنے کیلئے درخواست نہیں دیگی۔ پیپلز پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات فوزیہ وہاب نے تو یہ بات کھل کر کہہ دی ہے۔ سندھ کارڈ کو بھی کھل کر استعمال کیا جا رہا ہے۔ سندھ اسمبلی کے حالیہ سیشن میں جو تند و تیز تقریریں ہوئیں‘ وہ آنیوالے گرم دنوں کی خبر دے رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی اس سے بے خبر ہے کہ عدلیہ نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ این آر او عوام کا مطالبہ تھا۔ اسی طرح معاف کئے گئے قرضے واپس لینا بھی پاکستانی عوام کی دیرینہ خواہش ہے۔ عدلیہ نے اپنی جرا¿تمندانہ پالیسی سے عوامی خواہشات کو آواز دی ہے۔ اس کی مخالفت کرنیوالا سیاسی طور پر زیرو ہوجائیگا۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کی پالیسی بھی مکمل طور پر دوعملی پر مبنی ہے۔ میاں نوازشریف ہر اہم موقع پر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ ان کی پارٹی کا کوئی رہنماءاگر غلطی سے سخت بیان بھی دیدے تو فوراً اس کی سرزنش کردی جاتی ہے۔ واضح طور پر محسوس ہورہا ہے کہ میاں صاحب اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کی مکمل ناکامی کے منتظر ہیں یا پھر موجودہ مشکل حالات میں اقتدار سنبھالنے کی آزمائش سے نہیں گزرنا چاہتے۔ حقیقت جو بھی ہے‘ یہ بہرحال طے ہے کہ ان کی مقبولیت کا گراف بڑی حد تک نیچے آیا ہے۔ پاکستانی عوام میں بڑی جوہری نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ عدلیہ کی بحالی کی تحریک کامیاب ہونے سے ملک میں آئیڈیل ازم کی سیاست کی طُرح پڑی ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد سیاستدانوں کی لوٹ کھسوٹ سے عاجز آچکی ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ ملک میں رول آف لاءہو‘ وہ کرپٹ عناصر کا احتساب چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور اسکے قائد اگر ان عوامی مطالبات سے منہ موڑیں گے تو ان کا مستقبل تاریک ہوجائیگا۔ وہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ سیاستدانوں کو سمجھنا چاہئے کہ دوعملی کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے اور اس بار یہ قیمت شاید زیادہ بھاری ہو۔
٭٭٭
٭٭٭