جمیل یوسف.............
اپنی انہی خداداد صلاحیتوں اور خوبیوں کی وجہ سے اور شبانہ روز کی جاں توڑ محبت کے طفیل قائداعظم نے وہ بے مثال کامیابی حاصل کی جو دنیا کے نقشے پر پاکستان اور بنگلہ دیش کی صورت میں قائم و دائم ہے۔ قائداعظم کا کارنامہ کیا تھا ذرا پروفیسر سٹینلے والپرٹ(مصنف جناح آف پاکستان) کے ناقابل فراموش الفاظ میں دیکھئے۔
”بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیتی ہیں ان سے بھی کہیں کم تعداد میں ایسی شخصیات ہونگی جو دنیا کے نقشے کو بدل کر دکھ دیں مگر ایک نئی قوم اور ایک نئے ملک کی تخلیق کا سہرا تو شاید ہی کسی کے سر ہو۔ قائداعظمؒ نے یہ تینوں کارنامے کر دکھائے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کی عظمت کا اندازہ اس اعتراف اور خراج تحسین سے لگائیں جس کا برملا اظہار ان کے سیاسی حریفوں بلکہ دشمنوں نے کیا ان کی رحلت پر روزنامہ”پر بھارت“(دہلی) نے لکھا”متحدہ ہندوستان کی تمام طاقتیں اس ایک شخص سے شکست کھا گئیں“۔
یہ عظیم الشان کارنامہ، یہ بے مثال کامیابی، یہ صداقت یہ راست بازی یہ جرات اور دلیری، اپنے مقصد کی حقانیت پر یہ اعتماد اور اپنی کامیابی کا یہ یقین جو قائداعظم کی سوانح حیات کے ہر صفحے سے مترشح ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے گہرے قلبی تعلق کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور اس کی قدرت کاملہ پر پختہ ایمان اور توکل کا جو عملی مظاہرہ قائداعظمؒ کی زندگی کے واقعات میں ہمیں ملتا ہے۔ اس کا عشر عشیر بھی برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میں کسی عوامی راہنما میں نظر نہیں آتا۔ حضور پرنور کا اسوة حسنہ اور صحابہ کرامؒ خاص کر حضرت عمرؓ کی شخصیت اور ان کی حکمت و تدبر کا نمونہ ہمیشہ قائداعظمؒ کے پیش نظر رہا۔ مولانا ظفر علی خان نے علامہ شبلی نعمانی کی الفاروق کا انگریزی میں جو ترجمہ کیا تھا ان کے مطالعہ کی میز پر ہمیشہ موجود رہتا تھا۔
مشہور شاعر اور دانش ور ڈاکٹر محمد دین تاثیر قائداعظمؒ پر اظہار خیال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں”ایک دن حضور پر نور حضرت محمد سے کسی نے کہا“ آپ کو صدیق اکبرؓ میں کیا ممتاز خصوصیت نظر آتی ہے؟ حضور نے فرمایا” ابوبکر صدیقؓ میں ایک خاص ادا ہے ایک خاص بات ہے“۔ اس کا ذکر رسول مقبول محبوب خداﷺ کے اپنے الفاظ مبارک میں سنیے فرمایا ”شیا وقع فی قلبہ“ ایک شئے ہے جو اس کے دل میں ہے۔ یعنی اس کا تعلق ظاہری اطوار و حالات سے نہ تھا یہ دل کی بات تھی۔ یہی کیفیت محمد علی جناحؒ کی تھی۔
ڈاکٹر تاثیر مزید لکھتے ہیں” ایک شخص کے راستے میں کیسے کیسے پہاڑ تھے مگر اس کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی اس کے خلوص قومی میں فرق نہ آیا۔ اس کا ہر قومی عمل اللہ کے لئے تھا اس لئے اس کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا۔ ہر مجاہد حق کے دست شمشیر زن پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اقبالؒ کا یہ شعر حضرت قائداعظم کی شخصیت و کردار کا اظہار کرتا ہے۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندءمومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشاءکار ساز
قائداعظمؒ کی زندگی میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے گہرے قلبی تعلق اور حضورﷺ سے ان کی محبت اور قرآن حکیم سے ان کی شیفتگی کا ثبوت ملتا ہے۔
اس مضمون میں قائداعظم محمد علی جناح رحمة اللہ علیہ کی شخصیت و کردار کی گونا گوں خوبیوں اور ان کے فکر و عمل کے مختلف پہلوﺅں کی طرف محض اشارہ کرنا ہی ممکن تھا، ان کی شخصیت ہر خوبی اور ہر پہلو پر ایک الگ مضمون لکھنے کی ضرورت ہے۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحربیکراں کے لئے
(ختم شد)
اپنی انہی خداداد صلاحیتوں اور خوبیوں کی وجہ سے اور شبانہ روز کی جاں توڑ محبت کے طفیل قائداعظم نے وہ بے مثال کامیابی حاصل کی جو دنیا کے نقشے پر پاکستان اور بنگلہ دیش کی صورت میں قائم و دائم ہے۔ قائداعظم کا کارنامہ کیا تھا ذرا پروفیسر سٹینلے والپرٹ(مصنف جناح آف پاکستان) کے ناقابل فراموش الفاظ میں دیکھئے۔
”بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیتی ہیں ان سے بھی کہیں کم تعداد میں ایسی شخصیات ہونگی جو دنیا کے نقشے کو بدل کر دکھ دیں مگر ایک نئی قوم اور ایک نئے ملک کی تخلیق کا سہرا تو شاید ہی کسی کے سر ہو۔ قائداعظمؒ نے یہ تینوں کارنامے کر دکھائے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کی عظمت کا اندازہ اس اعتراف اور خراج تحسین سے لگائیں جس کا برملا اظہار ان کے سیاسی حریفوں بلکہ دشمنوں نے کیا ان کی رحلت پر روزنامہ”پر بھارت“(دہلی) نے لکھا”متحدہ ہندوستان کی تمام طاقتیں اس ایک شخص سے شکست کھا گئیں“۔
یہ عظیم الشان کارنامہ، یہ بے مثال کامیابی، یہ صداقت یہ راست بازی یہ جرات اور دلیری، اپنے مقصد کی حقانیت پر یہ اعتماد اور اپنی کامیابی کا یہ یقین جو قائداعظم کی سوانح حیات کے ہر صفحے سے مترشح ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے گہرے قلبی تعلق کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور اس کی قدرت کاملہ پر پختہ ایمان اور توکل کا جو عملی مظاہرہ قائداعظمؒ کی زندگی کے واقعات میں ہمیں ملتا ہے۔ اس کا عشر عشیر بھی برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میں کسی عوامی راہنما میں نظر نہیں آتا۔ حضور پرنور کا اسوة حسنہ اور صحابہ کرامؒ خاص کر حضرت عمرؓ کی شخصیت اور ان کی حکمت و تدبر کا نمونہ ہمیشہ قائداعظمؒ کے پیش نظر رہا۔ مولانا ظفر علی خان نے علامہ شبلی نعمانی کی الفاروق کا انگریزی میں جو ترجمہ کیا تھا ان کے مطالعہ کی میز پر ہمیشہ موجود رہتا تھا۔
مشہور شاعر اور دانش ور ڈاکٹر محمد دین تاثیر قائداعظمؒ پر اظہار خیال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں”ایک دن حضور پر نور حضرت محمد سے کسی نے کہا“ آپ کو صدیق اکبرؓ میں کیا ممتاز خصوصیت نظر آتی ہے؟ حضور نے فرمایا” ابوبکر صدیقؓ میں ایک خاص ادا ہے ایک خاص بات ہے“۔ اس کا ذکر رسول مقبول محبوب خداﷺ کے اپنے الفاظ مبارک میں سنیے فرمایا ”شیا وقع فی قلبہ“ ایک شئے ہے جو اس کے دل میں ہے۔ یعنی اس کا تعلق ظاہری اطوار و حالات سے نہ تھا یہ دل کی بات تھی۔ یہی کیفیت محمد علی جناحؒ کی تھی۔
ڈاکٹر تاثیر مزید لکھتے ہیں” ایک شخص کے راستے میں کیسے کیسے پہاڑ تھے مگر اس کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی اس کے خلوص قومی میں فرق نہ آیا۔ اس کا ہر قومی عمل اللہ کے لئے تھا اس لئے اس کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا۔ ہر مجاہد حق کے دست شمشیر زن پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اقبالؒ کا یہ شعر حضرت قائداعظم کی شخصیت و کردار کا اظہار کرتا ہے۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندءمومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشاءکار ساز
قائداعظمؒ کی زندگی میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے گہرے قلبی تعلق اور حضورﷺ سے ان کی محبت اور قرآن حکیم سے ان کی شیفتگی کا ثبوت ملتا ہے۔
اس مضمون میں قائداعظم محمد علی جناح رحمة اللہ علیہ کی شخصیت و کردار کی گونا گوں خوبیوں اور ان کے فکر و عمل کے مختلف پہلوﺅں کی طرف محض اشارہ کرنا ہی ممکن تھا، ان کی شخصیت ہر خوبی اور ہر پہلو پر ایک الگ مضمون لکھنے کی ضرورت ہے۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحربیکراں کے لئے
(ختم شد)