16 دسمبر 1971 میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد مغربی پاکستان کی سلامتی اور نئے پاکستان کی تعمیر کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کی خدمات تاریخ کے جھروکوں سے ہمیشہ ہی ایک روشن قندیل کی صورت جگمگاتی رہیں گی ۔ تاریخ کے ایک ایسے مشکل دوراہے پر جب حکمرانوں کی بے حکمتی کے باعث، احساس شکست ، مایوسی اور کمزوری کی فضا نے پاکستانی قوم کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا اور جب بھارتی وزیر جنگ جگ جیون رام اور وزیراعظم اندرا گاندھی ، ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک ہزار سا لہ حکمرانی کا بدلہ سقوط ڈھاکہ کی شکل میں لینے کا اعلان کر رہی تھیں اور بھارتی جنرل مانک شاہ، بھارتی وزیراعظم سے مغربی پاکستان پر قبضہ کرنے کی اجازت طلب کرنے میں مصروف تھے ایسے میں مغربی پاکستان کی سرحدوں پر اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرارداد منظور کرانے اور پاکستانی عوام کی آزادی کی امنگوں کو بحال کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو کے مضبوط موقف نے قوم کو نہ صرف ایک نیا ویژن دیا بلکہ محض چند برسوں میں ہی ایک بکھری ہوئی قوم کو یکجہتی کی لڑی میں پرو کر ایک مرتبہ پھر سے ایک متحرک قوم میں تبدیل کر دیا ۔ بھارت کیساتھ شملہ معاہدہ کیا گیا ، نوے ہزار پاکستانی جنگی قیدیوں کے علاوہ ، مغربی پاکستان کا پانچ ہزار مربع میل مقبوضہ علاقہ واپس لیا گیا ، اسلامی ملکوں سے روابط استوار کرنے کیلئے لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ، چین کے تعاون سے شاہراہ ریشم تعمیر کی گئی ، ہیوی مکینیکل پروجیکٹ شروع کئے گئے ، روس کے تعاون سے پاکستان اِسٹیل ملز لگائی گئی ، 1973 کا آئین بنایا ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سربراہی میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی گئی اور عظیم ہمسایہ ملک چین سے تعلقات کی بنیاد رکھی گئی۔ دراصل ، ذوالفقار علی بھٹو کی تاریخ اور بین الاقوامی امور سے آگہی کے باعث پاکستان چین دوستی جو آج بھی مستحکم بنیادوں پر قائم ہے ، بھٹو صاحب کے اہم کارناموں میں ہی شمار ہوتی ہے کیونکہ پاکستان چین سرحدی معاہدے سے شروع ہونے والی دوستی کا یہ سفر شاہراہ ریشم کی تعمیر سے لیکر مکران کوسٹ کے گرم پانیوں میں گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر تک پاکستانیوں کے دلوں میں ایک انمٹ یادگار بن کر ہی رہے گا ۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ ذولفقار علی بھٹو کی سوچ پر مبنی پاکستان کی ایٹمی پالیسی اور چین و اسلامی ملکوں سے قومی دوستی کو معنی خیز بنانے میں پاکستان کی دونوں ہی بڑی جماعتیں، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) سرگرم عمل رہی ہیں اور وقت گذرنے کیساتھ ساتھ پاکستان چین دو طرفہ دوستی کے سفر کو مزید مہمیز دینے کیلئے اہم دوطرفہ معاہدوں پر بھی دستخط کئے گئے ہیںجبکہ چین کے موجودہ صدر ہوجن تائو نے بھی علاقائی اور بین الاقوامی امور کے پس منظر میں خطے کی بہتری کیلئے اپنی پانچ نکاتی تجاویز میں ، دونوں ملکوں کے درمیان حکومتی اور سیاسی بنیادوں پر سٹریٹیجک پارٹنر شپ تعلقات کو مربوط اور مضبوط بنانے کیلئے سیاسی جماعتوں ، ارکان پارلیمنٹ ، مسلح افواج اور حکومتی سطح پر رابطوں کو مزید مستحکم بنانے پر زور دیا ہے اور توقع ظاہر کی کہ مستقبل میں پاکستان چین تعلقات مزید مستحکم ہونگے ۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو نے سرد جنگ کے حوالے سے دو سپر پاورز ، امریکہ اور سوویٹ یونین (روس) کے درمیان جاری چپقلش کے پیش نظر خطے میں پاکستان چین اسٹریٹیجک اہمیت کو سمجھتے ہوئے ایک ایسے دور میں پاکستان چین دوستی کی بنیاد رکھی جب بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کی قیادت میںبھارت ، مصر اور یوگوسلاویہ تیسری دنیا کے سیاسی افق پر چھائے ہوئے تھے ۔
حیرت ہے نائین الیون کے بعد پاکستان کی جانب سے امریکہ کو غیر معمولی مدد فراہم کئے جانے کے باوجود امریکہ خطے میں پاکستان کیساتھ اپنے تعلقات کو اہمہیت دینے کی بجائے اپنے گلوبل مفادات اور مستقبل میں چین کے ممکنہ گلوبل طاقت بن جانے کے پیش نظر بھارت کو ایک مرتبہ پھر سے اپنا دفاعی اتحادی بنا لیا ہے ۔
اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ذولفقار علی بھٹو نے مشکل وقت میں کشمیریوں کے حق خودارادیت پر پاکستان کے موقف کو قائم رکھتے ہوئے بھارت کیساتھ شملہ معاہدہ کیا لیکن جب بھارت نے معاہدے کی پاسداری نہ کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان مسئلہ کشمیر پر فیصلہ کن بات چیت سے گریز کیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے اہم ممالک کی توجہ مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول کرانے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ اِسی طرح اُنہوں نے پاکستان کے جنگی قیدیوں کی رہائی کیلئے بھی بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کی جسکے نتیجے میں بالآخر بھارت کو جنگی قیدی رہا کرنے پڑے ۔ یہ درست ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے صدر پاکستان کی حیثیت سے 31 جنوری سے 2 فروری 1972 تک چین کا یادگار دورہ کیا جس میں چینی لیڈر شپ بشمول چیئرمین ماوزے تنگ ، وزیراعظم چو این لائی نے 1971 کی جنگ میں بھارت سے مغربی پاکستان کے مقبوضہ علاقے خالی کرنے اور جنیوا کنونشن کیمطابق پاکستانی جنگی قیدیوں کو چھوڑنے کا پُرزور مطالبہ کیا ۔ دورے کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ میں خاص طور پر کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت کا اعلان کیاگیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت کیساتھ شملہ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بھی چینی لیڈروں سے خطے میں امن قائم رکھنے کیلئے گفت و شنید کا سلسلہ جاری رکھا اور 1976 میں وزیراعظم کی حیثیت سے 26 تا 30 مئی تک چین کا دورہ کیا اور چینی رہنمائوں کو باور کرایا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کیمطابق کشمیریوں کے حق خور ارادیت کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کا حل کیا جانا جس کو دونوں ملکوں نے تسلیم کیا تھا باقی رہ گیا ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے یہ واحد مسئلہ ہے جسے حل کرنا ضروری ہے لہذا اِس مرتبہ مشترکہ اعلامیہ میں چینی وزیراعظم نے بھی وضاحت سے پاکستان کے موقف کی حمایت کی۔
اندریں حالات ، ماضی میں نئے پاکستان کی تعمیرنو کے حوالے سے ذولفقار علی بھٹو کی بے لوث جدوجہد کے حوالے سے اُنکی جانشین جماعت کی حکمرانی کے موجودہ دور میں صورتحال یکسر مختلف نظر آتی ہے ۔ حکمرانوں کی بد اعمالیوں کے باعث بیرونی قرضوں ، مہنگائی ، بے روزگاری ، مفلسی اور غربت میں پھنسے ہوئے عوام پھر سے پریشانی اور بدحالی کا شکار ہیں۔
پاکستان قوم کی موجودہ سیاسی ، معاشی اور انتظامی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ حکمران ذوالفقار علی بھٹو کے اُن ارشادات کی جانب بھی توجہ دیں جب اُنہوں نے قوم کو حالات کی بہتری کی نوید دیتے ہوئے صدر مملکت کے طور پر اپنے پہلے ہی خطاب میں کہا تھا کہ \\\" ہم اپنی قومی زندگی کے بدترین بحران سے دوچار ہیں ، ہمیں ٹکڑے جمع کرنے ہیں ، بہت چھوٹے ٹکڑے لیکن ہم نیا پاکستان بنائینگے ، ایک خوشحال ترقی پسند استحصال سے آزاد پاکستان، وہ پاکستان جس کیلئے قائداعظم نے کوشش کی تھی ، جس پاکستان کیلئے برّصغیر کے مسلمانوں نے اپنی جانوں اور عزتوں کی قربانی دی تھی ۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ ذولفقار علی بھٹو کی سوچ پر مبنی پاکستان کی ایٹمی پالیسی اور چین و اسلامی ملکوں سے قومی دوستی کو معنی خیز بنانے میں پاکستان کی دونوں ہی بڑی جماعتیں، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) سرگرم عمل رہی ہیں اور وقت گذرنے کیساتھ ساتھ پاکستان چین دو طرفہ دوستی کے سفر کو مزید مہمیز دینے کیلئے اہم دوطرفہ معاہدوں پر بھی دستخط کئے گئے ہیںجبکہ چین کے موجودہ صدر ہوجن تائو نے بھی علاقائی اور بین الاقوامی امور کے پس منظر میں خطے کی بہتری کیلئے اپنی پانچ نکاتی تجاویز میں ، دونوں ملکوں کے درمیان حکومتی اور سیاسی بنیادوں پر سٹریٹیجک پارٹنر شپ تعلقات کو مربوط اور مضبوط بنانے کیلئے سیاسی جماعتوں ، ارکان پارلیمنٹ ، مسلح افواج اور حکومتی سطح پر رابطوں کو مزید مستحکم بنانے پر زور دیا ہے اور توقع ظاہر کی کہ مستقبل میں پاکستان چین تعلقات مزید مستحکم ہونگے ۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو نے سرد جنگ کے حوالے سے دو سپر پاورز ، امریکہ اور سوویٹ یونین (روس) کے درمیان جاری چپقلش کے پیش نظر خطے میں پاکستان چین اسٹریٹیجک اہمیت کو سمجھتے ہوئے ایک ایسے دور میں پاکستان چین دوستی کی بنیاد رکھی جب بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کی قیادت میںبھارت ، مصر اور یوگوسلاویہ تیسری دنیا کے سیاسی افق پر چھائے ہوئے تھے ۔
حیرت ہے نائین الیون کے بعد پاکستان کی جانب سے امریکہ کو غیر معمولی مدد فراہم کئے جانے کے باوجود امریکہ خطے میں پاکستان کیساتھ اپنے تعلقات کو اہمہیت دینے کی بجائے اپنے گلوبل مفادات اور مستقبل میں چین کے ممکنہ گلوبل طاقت بن جانے کے پیش نظر بھارت کو ایک مرتبہ پھر سے اپنا دفاعی اتحادی بنا لیا ہے ۔
اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ذولفقار علی بھٹو نے مشکل وقت میں کشمیریوں کے حق خودارادیت پر پاکستان کے موقف کو قائم رکھتے ہوئے بھارت کیساتھ شملہ معاہدہ کیا لیکن جب بھارت نے معاہدے کی پاسداری نہ کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان مسئلہ کشمیر پر فیصلہ کن بات چیت سے گریز کیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے اہم ممالک کی توجہ مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول کرانے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ اِسی طرح اُنہوں نے پاکستان کے جنگی قیدیوں کی رہائی کیلئے بھی بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کی جسکے نتیجے میں بالآخر بھارت کو جنگی قیدی رہا کرنے پڑے ۔ یہ درست ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے صدر پاکستان کی حیثیت سے 31 جنوری سے 2 فروری 1972 تک چین کا یادگار دورہ کیا جس میں چینی لیڈر شپ بشمول چیئرمین ماوزے تنگ ، وزیراعظم چو این لائی نے 1971 کی جنگ میں بھارت سے مغربی پاکستان کے مقبوضہ علاقے خالی کرنے اور جنیوا کنونشن کیمطابق پاکستانی جنگی قیدیوں کو چھوڑنے کا پُرزور مطالبہ کیا ۔ دورے کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ میں خاص طور پر کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت کا اعلان کیاگیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت کیساتھ شملہ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بھی چینی لیڈروں سے خطے میں امن قائم رکھنے کیلئے گفت و شنید کا سلسلہ جاری رکھا اور 1976 میں وزیراعظم کی حیثیت سے 26 تا 30 مئی تک چین کا دورہ کیا اور چینی رہنمائوں کو باور کرایا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کیمطابق کشمیریوں کے حق خور ارادیت کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کا حل کیا جانا جس کو دونوں ملکوں نے تسلیم کیا تھا باقی رہ گیا ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے یہ واحد مسئلہ ہے جسے حل کرنا ضروری ہے لہذا اِس مرتبہ مشترکہ اعلامیہ میں چینی وزیراعظم نے بھی وضاحت سے پاکستان کے موقف کی حمایت کی۔
اندریں حالات ، ماضی میں نئے پاکستان کی تعمیرنو کے حوالے سے ذولفقار علی بھٹو کی بے لوث جدوجہد کے حوالے سے اُنکی جانشین جماعت کی حکمرانی کے موجودہ دور میں صورتحال یکسر مختلف نظر آتی ہے ۔ حکمرانوں کی بد اعمالیوں کے باعث بیرونی قرضوں ، مہنگائی ، بے روزگاری ، مفلسی اور غربت میں پھنسے ہوئے عوام پھر سے پریشانی اور بدحالی کا شکار ہیں۔
پاکستان قوم کی موجودہ سیاسی ، معاشی اور انتظامی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ حکمران ذوالفقار علی بھٹو کے اُن ارشادات کی جانب بھی توجہ دیں جب اُنہوں نے قوم کو حالات کی بہتری کی نوید دیتے ہوئے صدر مملکت کے طور پر اپنے پہلے ہی خطاب میں کہا تھا کہ \\\" ہم اپنی قومی زندگی کے بدترین بحران سے دوچار ہیں ، ہمیں ٹکڑے جمع کرنے ہیں ، بہت چھوٹے ٹکڑے لیکن ہم نیا پاکستان بنائینگے ، ایک خوشحال ترقی پسند استحصال سے آزاد پاکستان، وہ پاکستان جس کیلئے قائداعظم نے کوشش کی تھی ، جس پاکستان کیلئے برّصغیر کے مسلمانوں نے اپنی جانوں اور عزتوں کی قربانی دی تھی ۔