وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ میثاق جمہوریت پر عمل نہ کرنا حکومت کی سب سے بڑی غلطی ہے‘ اس پر پہلے روز ہی عملدرآمد ہونا چاہئے تھا۔ گزشتہ روز صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یقین دلایا کہ میثاق جمہوریت پر عملدرآمد ہو گا‘ جس پر کام جاری ہے۔ انہوں نے ایک غیرملکی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں کہا کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی انتہائی پیشہ ور سپاہی اور جمہوریت کے مضبوط حامی ہیں‘ جنہوں نے مشرف کے دور میں بھی جمہوریت اور پارلیمانی جمہوریت کی حمایت کی۔ دریں اثناء وزیراعظم نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سے فون پر رابطہ کیا اور دونوں قائدین نے ایک دوسرے کیخلاف الزام تراشی کو روکنے پر اتفاق کیا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے میاں نواز شریف کو 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کا یقین دلایا جبکہ میاں نواز شریف نے اس امر کا اعادہ کیا کہ مسلم لیگ (ن) کسی بھی غیرجمہوری اقدام کی حمایت نہیں کریگی۔ وزیراعظم نے یہ بھی یقین دلایا کہ تیسری بار وزیراعظم بننے پر مشرف دور میں لگائی گئی پابندی ختم کر دی جائیگی۔ جواباً میاں نواز شریف نے وزیراعظم گیلانی کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی تقاریر‘ بیانات اور مختلف مواقع پر انکے خیالات کے اظہار سے اکثر اوقات یہی گمان ہوتا ہے‘ جیسے وہ جمہوری نظام کے استحکام کیلئے فکرمند ہو کر اپنی پارٹی کی حکومتی پالیسی سے الگ مؤقف اختیار کر رہے ہیں۔ انکے اور صدر مملکت کے مابین اختلاف رائے کا تاثر بھی پیدا ہوتا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ وزیراعظم اپنی پارٹی قیادت اور انکے ساتھ تلخ ہوتی ہوئی اپوزیشن کے مابین محض ’’شاک ابزاربر‘‘ کا کام کرتے ہیں اور درحقیقت وہ اپنی پارٹی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے صدر آصف علی زرداری کی پالیسیوں پر ہی عمل پیرا ہیں اور میثاق جمہوریت سے 17ویں آئینی ترمیم کے ایشو تک وہ صدر زرداری کے خیالات ہی کے ساتھ خود کو ہم آہنگ رکھتے ہیں‘ ورنہ حکومت کے انتظامی سربراہ کی حیثیت سے ان کیلئے میثاق جمہوریت کو شروع دن سے ہی روبہ عمل لانا‘ 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کیلئے اسمبلی میں بل پیش کرانا اور معزول ججوں کو رہا کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ انکی 2نومبر 2007ء کی پوزیشن پر بحالی کے احکام جاری کرنا بھی چنداں مشکل نہیں تھا۔
اگر یہ تمام معاملات قومی مینڈیٹ کی روشنی میں حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی طے کرلئے جاتے تو آج سلطانی ٔ جمہور کوجو جھٹکے لگ رہے ہیں اور اپنے روزمرہ کے مسائل حل نہ ہونے کے باعث عوام کا اضطراب غم و غصہ میں تبدیل ہو رہا ہے‘ اسکی نوبت ہی نہ آتی۔ آج استحکامِ جمہوریت کا سفر اتنا زیادہ طے ہو چکا ہوتا کہ جرنیلی آمریت کے دفن ہونے والے مردے میں نئی روح پھونکے جانے کا تصور بھی پیدا نہ ہوتا۔ مشرف خود عبرت کی مثال بن چکے ہوتے اور ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوریت کی بساط الٹانے کے خناس میں مبتلا طالع آزمائوں کی عقل ٹھکانے آچکی ہوتی۔ آج ملک میں سسٹم اور حکومت کے مستقبل کے حوالے سے غیریقینی کی جو فضاء قائم ہو چکی ہے اور غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے شکنجے میں جکڑے عوام کے اقتصادی اور سماجی مسائل میں جس سرعت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے‘ وزیراعظم اسکی ذمہ داری سے کیسے بری الذمہ ہو سکتے ہیں‘ جبکہ تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی ہٹنے سے خود وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہی اسکی زد میں آنے کے خدشے میں مبتلا ہونگے جس کے باعث 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کیلئے پیش رفت سے گریز جہاں صدر زرداری کو سوٹ کرتا ہے‘ وہاں یہ وزیراعظم کی اپنی بھی مجبوری ہو گی۔
اگرچہ وزیر اعظم نے میاں نواز شریف سے ٹیلی فونک رابطے کے دوران انہیں میثاق جمہوریت پر عمل پیرا ہونے اور 17ویں آئینی ترمیم کو ختم کرنے کا یقین دلایا ہے مگر اس معاملہ میں اب تک سوائے زبانی جمع خرچ کے کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔ پارلیمانی آئینی کمیٹی کے چیئرمین رضا ربانی خود متعدد مواقع پر یہ بیان دے چکے ہیں کہ 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کا بل اسمبلی میں لانے کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی جا سکتی‘ جبکہ اس کمیٹی کی سطح پر 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کا کوئی متفقہ بل لانے کا امکان بھی نظر نہیں آرہا چنانچہ اس کمیٹی کی تشکیل کا مقصد معاملہ کو لٹکائے رکھنے کا ہی نظر آتا ہے۔
اگر حکومت پارلیمانی جمہوریت کے استحکام کی خاطر صدر کے جرنیلی آمریت والے صوابدیدی اختیارات ختم کرکے پارلیمنٹ کو خودمختار بنانے میں سنجیدہ ہوتی تو اس کیلئے اسمبلی کے فورم پر 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کے بل کو دوتہائی اکثریت سے منظور کرانا ہرگز مشکل نہیں تھا کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے علاوہ حکومتی حلیف اے این پی اور مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علماء اسلام بھی اس ایشو پر سرکاری بنچوں کے ساتھ ہوتی۔ اب اگر وزیراعظم میثاق جمہوریت پر عملدرآمد نہ کرنے کی غلطی کا احساس کرتے ہوئے 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ اور میثاق جمہوریت کو روبہ عمل لانے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں تو انہیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ اس کیلئے انہوں نے کیا عملی اقدامات کئے ہیں؟ اگر ان کے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ ہے‘ جس کی بدولت وہ رجائیت پسندی کا اظہار کر رہے ہیں تو انہیں اس سے بھی قوم اور قومی سیاسی قائدین کو آگاہ کرنا چاہئے‘ ورنہ حقیقت تو یہی نظر آتی ہے کہ میثاق جمہوریت کی روشنی میں 17ویں آئینی ترمیم کو ختم کرنا‘ صدر اور وزیراعظم دونوں کو سوٹ نہیں کررہا‘ اس لئے جب 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کیلئے اپوزیشن کا دبائو بڑھتا ہے تو محض اسکی اشک شوئی کیلئے وزیراعظم کی جانب سے دل خوش کن بیان جاری کر دیا جاتا ہے مگر انتہائی سنجیدہ معاملات میں جبکہ گڈگورننس بھی مفقود ہو اور مسائل کے بوجھ تلے دبے عوام کی بھی چیخیں نکل رہی ہوں‘ زبانی جمع خرچ والی غیرسنجیدگی اختیار کرکے کیا جمہوریت کے استحکام کی توقع کی جا سکتی ہے؟ عوام تک سلطانی ٔجمہور کے ثمرات پہنچائے جا سکتے ہیں اور موقع کی تاک میں بیٹھے غیرجمہوری عناصر کی سازشوں سے جمہوری نظام کو بچایا جا سکتا ہے؟ حکمرانوں کی جانب سے قوم کے ساتھ مذاق کا یہ سلسلہ اب بہرصورت ختم ہونا چاہئے اور اگر وزیراعظم فی الواقع سمجھتے ہیں کہ میثاق جمہوریت پر عمل نہ کرنا حکومت کی غلطی ہے تو پھر اس غلطی کے ازالہ کیلئے انکے عملی اقدامات قوم کو نظر بھی آنے چاہئیں ورنہ ملک اور قوم کے مصائب اور مشکلات میں اضافہ کا باعث بننے والے اس سسٹم کے استحکام کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
بھارت کو اسی کے لہجہ میں جواب دیا جائے
بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ بھارتی آرمی چیف نے چین اور پاکستان کے حوالے سے جو بیان دیا ہے اس کا مقصد خطے کے ممالک کو بھارت کی فوجی صلاحیت سے متعارف کرانا ہے۔ بھارت کی فوجی صلاحیت اس وقت خطے کے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ بھارت کو اس پر فخر کرنا چاہئے۔
دنیا کے ہر ملک کو دفاعی اقدامات کا حق حاصل ہے لیکن اسکی آڑ میں عالمی امن کو خطرے میں ڈال دینے کا کوئی جواز ہے نہ یہ انسانیت کے زمرے میں آتا ہے۔ آخر خطے میں بھارت کا دشمن کون ہے؟ صرف اور صرف پاکستان جو فوجی استعداد جغرافیائی سائز اور آبادی کے لحاظ سے اس سے کئی گنا چھوٹا ہے۔ صرف اسکے مقابلے کیلئے روایتی اسلحہ کیساتھ ساتھ ایٹمی اسلحہ کے انبار لگائے جا رہے ہیں اور وہ بھی اس صورت میں کہ پاکستان کی طرف سے کبھی جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا گیا۔ چین کیساتھ اس کا کوئی موازنہ ہی نہیں منموہن سنگھ نے نہ جانے کس خوش فہمی میں بھارت کو خطے کی بڑی فوجی صلاحیت قرار دیدیا۔ شاید وہ چین کے ہاتھوں 1962ء کی عبرت ناک شکست کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔
بھارت خطے میں بڑی فوجی طاقت ہونے کا دعویدار ہے اور ساتھ ہی پاکستان کسی ملک سے کوئی دفاعی معاہدہ کرتا ہے تو آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ جہاں بھارت اسلحہ سازی اور اسکی خریداری میں خود کفیل ہے وہیں غربت افلاس اور ننگ بھی اس کا ’’طرہ امتیاز‘‘ ہے وہ اس معاملے میں بھی پاکستان سے کہیں آگے ہے۔ جو وسائل وہ خطے میں خود کو بڑی فوجی صلاحیت منوانے کے خبط میں جھونک رہا ہے‘ غربت کے خاتمے کیلئے استعمال کرے۔ مجبوراً خطے کے دیگر ممالک کو بھی اپنے دفاع کیلئے اسلحہ کی دوڑ میں شامل ہونا پڑتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ایک ہی بڑا تنازعہ مسئلہ کشمیر ہے۔ جو بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث لٹکا چلا آرہا ہے۔ وقت گزاری کیلئے بھارت اس پر 62 سال سے مذاکرات کا ڈول ڈال رہا ہے۔ اب تو ممبئی حملوں کی آڑ میں مذاکرات سے بھاگ گیا اور پورا زور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے پر صرف کر رہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے کبھی مفاہمت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ بھارت کی دھمکیوں اور جارحانہ رویے سے تنگ آکر وزیر دفاع احمد مختار نے کہا ہے کہ بھارت نے رویہ نہ بدلا تو پاکستان مفاہمتی پالیسی پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو جائیگا۔ احمد مختار کا یہ بیان قوم کیلئے حوصلہ فزا ہے۔ اب ایک قدم اور بڑھا کر مفاہمت کی پالیسی کو تج دینا چاہئے۔ بھارت جس لہجے میں بات کرتا ہے اس کو اسی میں جواب دینا چاہئے تاکہ اسے پتہ چل جائے کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔
کالاباغ ڈیم ہی پانی و بجلی کی وافر فراہمی کا منصوبہ ہے
وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ نہروں کی بندش کے باعث بجلی کی پیداوار میں کمی کا سامنا ہے‘ تاہم 30 جنوری کے بعد صورتحال بہتر ہونا شروع ہو جائیگی۔اب لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی تاریخ کا وعدہ نہیں کرتا‘ سستی بجلی کیلئے سات آٹھ سال انتظار کرنا پڑیگا۔
گزشتہ سال کرائے کے بجلی گھر منگوانے کیلئے سب سے بڑا جواز بجلی کی مکمل کمی کو دور کرنا پیش کیا گیا تھا‘ 2 کھرب کرائے کے بجلی گھر کس حالت میں ہیں‘ اس کا کچھ پتہ نہیں تاہم بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کے بجائے اضافہ در اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیر پانی و بجلی‘ بجلی کی کمی کے خاتمے کی ڈیڈ لائنیں دیدے کر اپنی قیادت کے وعدوں اور قسموں کی طرح توڑ رہے ہیں۔ اب نہ جانے کیوں نئی ڈیڈ لائن دینے سے بدک رہے ہیں۔ واپڈا کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی استعداد 17 ہزار میگاواٹ سے زائد جبکہ ضرورت صرف ساڑھے بارہ ہزار میگاواٹ ہے لیکن بجلی پیدا کرنیوالے تمام یونٹ چلائے نہیں جا رہے۔ عدم توجہ کی وجہ سے بند پڑے ہیں اور ان جیسے پرانے کرائے کے بجلی گھر خریدے جا رہے ہیں۔ وزیر پانی و بجلی نے نہروں کی بندش کو بجلی کی پیداوار میں کمی کی وجہ قرار دیا ہے‘ نہریں چند روز قبل بند ہوئیں‘ بجلی کا بحران انکی پارٹی کے حکومت میں آنے کیساتھ شروع ہوا اور گہرے سے گہرا ہوتا چلا گیا۔ بقول انکے 30 جنوری کے بعد صورتحال بہتر ہو جائے تو یہ معجزہ سے کم نہیں۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کی وجہ سے ملکی معیشت زوال کا شکار ہے‘ صنعتیں بند ہونے سے لاکھوں افراد بیروزگار ہو گئے‘ چھوٹے موٹے کاروبار تباہ ہو چکے ہیں‘ وافر پانی اور بجلی کا حصول مشکل نہیں‘ صرف نیت درست کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف ایک کالاباغ ڈیم دونوں ضرورتیں پوری کر سکتا ہے‘ جس کو وزارت سنبھالتے ہی راجہ پرویز اشرف نے شجر ممنوعہ قرار دیدیا تھا۔ این ایف سی پر اتفاق ہو سکتا ہے تو کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر کیوں نہیں؟ یہ قومی مفاد کا عظیم ترین منصوبہ ہے‘ اسے پس پشت ہرگز نہیں ڈالنا چاہئے۔ حکومت بمعہ راجہ پرویز اشرف اس منصوبے کو اسکے مخالفین کے قابل قبول بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ زرداری صاحب نے بھی سندھ میں ایک ننھے ڈیم کا افتتاح کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینکڑوں ایسے ڈیم بنیں گے۔ وہ بھی کالاباغ ڈیم کا نام لیتے ہوئے نہ شرمائیں‘ مرد حر بنیں۔
شوگر مل مالکان قیمت کا تنازعہ طے ہو سکتا ہے!
شوگر مل مالکان نے کسانوں پر دبائو ڈال کر سستا گنا حاصل کرنے کیلئے آپس میں گٹھ جوڑ کر کے پنجاب میں 44 میں سے 38 شوگر ملیں بند کر دی ہیں۔
شوگر ملوں اور گنے کے کاشت کاروں کے درمیان یہ تنازعہ خوفناک صورتحال پیدا کر رہا ہے اور اس بحران میں ملک کے غریب عوام کی ہی شامت آئیگی اور وہ بازاروں میں چینی کی تلاش میں مارے مارے پھریں گے۔ حکومت گنے کے کاشت کاروں اور شوگر مل مالکان کے درمیان موثر ثالث اس لئے نہیں بن سکتی کہ زیادہ تر شوگر مل مالکان کسی نہ کسی حکمران جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ حکومت پر اثرانداز ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں لاہور ہائی کورٹ نے عام صارفین کیلئے چینی کی قیمت چالیس روپے کلو مقرر کر دی تھی اور کہا گیا تھا کہ شوگر مل مالکان منڈی میں 38 روپے کلو شوگر فراہم کریں، جہاں سے عام لوگوں کو 40 روپے کلو مل سکے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اس فیصلہ کی تائید مزید کی مگر شوگر مل مالکان چونکہ طاقتور اور حکومتی گروپس سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس فیصلہ سے خوش نہیں ہیں اور چینی کی قیمت میں ڈیڑھ گنا اضافہ کرکے مزید اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ شوگر مل مالکان کو ان کا جائز حق ضرور ملنا چاہئے مگر مل مالکان کا گروہ اجارہ دار بن کر پوری قوم کو پریشان بھی نہ کرے تو بہتر ہے۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی تقاریر‘ بیانات اور مختلف مواقع پر انکے خیالات کے اظہار سے اکثر اوقات یہی گمان ہوتا ہے‘ جیسے وہ جمہوری نظام کے استحکام کیلئے فکرمند ہو کر اپنی پارٹی کی حکومتی پالیسی سے الگ مؤقف اختیار کر رہے ہیں۔ انکے اور صدر مملکت کے مابین اختلاف رائے کا تاثر بھی پیدا ہوتا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ وزیراعظم اپنی پارٹی قیادت اور انکے ساتھ تلخ ہوتی ہوئی اپوزیشن کے مابین محض ’’شاک ابزاربر‘‘ کا کام کرتے ہیں اور درحقیقت وہ اپنی پارٹی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے صدر آصف علی زرداری کی پالیسیوں پر ہی عمل پیرا ہیں اور میثاق جمہوریت سے 17ویں آئینی ترمیم کے ایشو تک وہ صدر زرداری کے خیالات ہی کے ساتھ خود کو ہم آہنگ رکھتے ہیں‘ ورنہ حکومت کے انتظامی سربراہ کی حیثیت سے ان کیلئے میثاق جمہوریت کو شروع دن سے ہی روبہ عمل لانا‘ 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کیلئے اسمبلی میں بل پیش کرانا اور معزول ججوں کو رہا کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ انکی 2نومبر 2007ء کی پوزیشن پر بحالی کے احکام جاری کرنا بھی چنداں مشکل نہیں تھا۔
اگر یہ تمام معاملات قومی مینڈیٹ کی روشنی میں حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی طے کرلئے جاتے تو آج سلطانی ٔ جمہور کوجو جھٹکے لگ رہے ہیں اور اپنے روزمرہ کے مسائل حل نہ ہونے کے باعث عوام کا اضطراب غم و غصہ میں تبدیل ہو رہا ہے‘ اسکی نوبت ہی نہ آتی۔ آج استحکامِ جمہوریت کا سفر اتنا زیادہ طے ہو چکا ہوتا کہ جرنیلی آمریت کے دفن ہونے والے مردے میں نئی روح پھونکے جانے کا تصور بھی پیدا نہ ہوتا۔ مشرف خود عبرت کی مثال بن چکے ہوتے اور ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوریت کی بساط الٹانے کے خناس میں مبتلا طالع آزمائوں کی عقل ٹھکانے آچکی ہوتی۔ آج ملک میں سسٹم اور حکومت کے مستقبل کے حوالے سے غیریقینی کی جو فضاء قائم ہو چکی ہے اور غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے شکنجے میں جکڑے عوام کے اقتصادی اور سماجی مسائل میں جس سرعت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے‘ وزیراعظم اسکی ذمہ داری سے کیسے بری الذمہ ہو سکتے ہیں‘ جبکہ تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی ہٹنے سے خود وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہی اسکی زد میں آنے کے خدشے میں مبتلا ہونگے جس کے باعث 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کیلئے پیش رفت سے گریز جہاں صدر زرداری کو سوٹ کرتا ہے‘ وہاں یہ وزیراعظم کی اپنی بھی مجبوری ہو گی۔
اگرچہ وزیر اعظم نے میاں نواز شریف سے ٹیلی فونک رابطے کے دوران انہیں میثاق جمہوریت پر عمل پیرا ہونے اور 17ویں آئینی ترمیم کو ختم کرنے کا یقین دلایا ہے مگر اس معاملہ میں اب تک سوائے زبانی جمع خرچ کے کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔ پارلیمانی آئینی کمیٹی کے چیئرمین رضا ربانی خود متعدد مواقع پر یہ بیان دے چکے ہیں کہ 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کا بل اسمبلی میں لانے کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی جا سکتی‘ جبکہ اس کمیٹی کی سطح پر 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کا کوئی متفقہ بل لانے کا امکان بھی نظر نہیں آرہا چنانچہ اس کمیٹی کی تشکیل کا مقصد معاملہ کو لٹکائے رکھنے کا ہی نظر آتا ہے۔
اگر حکومت پارلیمانی جمہوریت کے استحکام کی خاطر صدر کے جرنیلی آمریت والے صوابدیدی اختیارات ختم کرکے پارلیمنٹ کو خودمختار بنانے میں سنجیدہ ہوتی تو اس کیلئے اسمبلی کے فورم پر 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کے بل کو دوتہائی اکثریت سے منظور کرانا ہرگز مشکل نہیں تھا کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے علاوہ حکومتی حلیف اے این پی اور مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علماء اسلام بھی اس ایشو پر سرکاری بنچوں کے ساتھ ہوتی۔ اب اگر وزیراعظم میثاق جمہوریت پر عملدرآمد نہ کرنے کی غلطی کا احساس کرتے ہوئے 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ اور میثاق جمہوریت کو روبہ عمل لانے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں تو انہیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ اس کیلئے انہوں نے کیا عملی اقدامات کئے ہیں؟ اگر ان کے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ ہے‘ جس کی بدولت وہ رجائیت پسندی کا اظہار کر رہے ہیں تو انہیں اس سے بھی قوم اور قومی سیاسی قائدین کو آگاہ کرنا چاہئے‘ ورنہ حقیقت تو یہی نظر آتی ہے کہ میثاق جمہوریت کی روشنی میں 17ویں آئینی ترمیم کو ختم کرنا‘ صدر اور وزیراعظم دونوں کو سوٹ نہیں کررہا‘ اس لئے جب 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کیلئے اپوزیشن کا دبائو بڑھتا ہے تو محض اسکی اشک شوئی کیلئے وزیراعظم کی جانب سے دل خوش کن بیان جاری کر دیا جاتا ہے مگر انتہائی سنجیدہ معاملات میں جبکہ گڈگورننس بھی مفقود ہو اور مسائل کے بوجھ تلے دبے عوام کی بھی چیخیں نکل رہی ہوں‘ زبانی جمع خرچ والی غیرسنجیدگی اختیار کرکے کیا جمہوریت کے استحکام کی توقع کی جا سکتی ہے؟ عوام تک سلطانی ٔجمہور کے ثمرات پہنچائے جا سکتے ہیں اور موقع کی تاک میں بیٹھے غیرجمہوری عناصر کی سازشوں سے جمہوری نظام کو بچایا جا سکتا ہے؟ حکمرانوں کی جانب سے قوم کے ساتھ مذاق کا یہ سلسلہ اب بہرصورت ختم ہونا چاہئے اور اگر وزیراعظم فی الواقع سمجھتے ہیں کہ میثاق جمہوریت پر عمل نہ کرنا حکومت کی غلطی ہے تو پھر اس غلطی کے ازالہ کیلئے انکے عملی اقدامات قوم کو نظر بھی آنے چاہئیں ورنہ ملک اور قوم کے مصائب اور مشکلات میں اضافہ کا باعث بننے والے اس سسٹم کے استحکام کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
بھارت کو اسی کے لہجہ میں جواب دیا جائے
بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ بھارتی آرمی چیف نے چین اور پاکستان کے حوالے سے جو بیان دیا ہے اس کا مقصد خطے کے ممالک کو بھارت کی فوجی صلاحیت سے متعارف کرانا ہے۔ بھارت کی فوجی صلاحیت اس وقت خطے کے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ بھارت کو اس پر فخر کرنا چاہئے۔
دنیا کے ہر ملک کو دفاعی اقدامات کا حق حاصل ہے لیکن اسکی آڑ میں عالمی امن کو خطرے میں ڈال دینے کا کوئی جواز ہے نہ یہ انسانیت کے زمرے میں آتا ہے۔ آخر خطے میں بھارت کا دشمن کون ہے؟ صرف اور صرف پاکستان جو فوجی استعداد جغرافیائی سائز اور آبادی کے لحاظ سے اس سے کئی گنا چھوٹا ہے۔ صرف اسکے مقابلے کیلئے روایتی اسلحہ کیساتھ ساتھ ایٹمی اسلحہ کے انبار لگائے جا رہے ہیں اور وہ بھی اس صورت میں کہ پاکستان کی طرف سے کبھی جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا گیا۔ چین کیساتھ اس کا کوئی موازنہ ہی نہیں منموہن سنگھ نے نہ جانے کس خوش فہمی میں بھارت کو خطے کی بڑی فوجی صلاحیت قرار دیدیا۔ شاید وہ چین کے ہاتھوں 1962ء کی عبرت ناک شکست کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔
بھارت خطے میں بڑی فوجی طاقت ہونے کا دعویدار ہے اور ساتھ ہی پاکستان کسی ملک سے کوئی دفاعی معاہدہ کرتا ہے تو آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ جہاں بھارت اسلحہ سازی اور اسکی خریداری میں خود کفیل ہے وہیں غربت افلاس اور ننگ بھی اس کا ’’طرہ امتیاز‘‘ ہے وہ اس معاملے میں بھی پاکستان سے کہیں آگے ہے۔ جو وسائل وہ خطے میں خود کو بڑی فوجی صلاحیت منوانے کے خبط میں جھونک رہا ہے‘ غربت کے خاتمے کیلئے استعمال کرے۔ مجبوراً خطے کے دیگر ممالک کو بھی اپنے دفاع کیلئے اسلحہ کی دوڑ میں شامل ہونا پڑتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ایک ہی بڑا تنازعہ مسئلہ کشمیر ہے۔ جو بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث لٹکا چلا آرہا ہے۔ وقت گزاری کیلئے بھارت اس پر 62 سال سے مذاکرات کا ڈول ڈال رہا ہے۔ اب تو ممبئی حملوں کی آڑ میں مذاکرات سے بھاگ گیا اور پورا زور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے پر صرف کر رہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے کبھی مفاہمت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ بھارت کی دھمکیوں اور جارحانہ رویے سے تنگ آکر وزیر دفاع احمد مختار نے کہا ہے کہ بھارت نے رویہ نہ بدلا تو پاکستان مفاہمتی پالیسی پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو جائیگا۔ احمد مختار کا یہ بیان قوم کیلئے حوصلہ فزا ہے۔ اب ایک قدم اور بڑھا کر مفاہمت کی پالیسی کو تج دینا چاہئے۔ بھارت جس لہجے میں بات کرتا ہے اس کو اسی میں جواب دینا چاہئے تاکہ اسے پتہ چل جائے کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔
کالاباغ ڈیم ہی پانی و بجلی کی وافر فراہمی کا منصوبہ ہے
وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ نہروں کی بندش کے باعث بجلی کی پیداوار میں کمی کا سامنا ہے‘ تاہم 30 جنوری کے بعد صورتحال بہتر ہونا شروع ہو جائیگی۔اب لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی تاریخ کا وعدہ نہیں کرتا‘ سستی بجلی کیلئے سات آٹھ سال انتظار کرنا پڑیگا۔
گزشتہ سال کرائے کے بجلی گھر منگوانے کیلئے سب سے بڑا جواز بجلی کی مکمل کمی کو دور کرنا پیش کیا گیا تھا‘ 2 کھرب کرائے کے بجلی گھر کس حالت میں ہیں‘ اس کا کچھ پتہ نہیں تاہم بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کے بجائے اضافہ در اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیر پانی و بجلی‘ بجلی کی کمی کے خاتمے کی ڈیڈ لائنیں دیدے کر اپنی قیادت کے وعدوں اور قسموں کی طرح توڑ رہے ہیں۔ اب نہ جانے کیوں نئی ڈیڈ لائن دینے سے بدک رہے ہیں۔ واپڈا کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی استعداد 17 ہزار میگاواٹ سے زائد جبکہ ضرورت صرف ساڑھے بارہ ہزار میگاواٹ ہے لیکن بجلی پیدا کرنیوالے تمام یونٹ چلائے نہیں جا رہے۔ عدم توجہ کی وجہ سے بند پڑے ہیں اور ان جیسے پرانے کرائے کے بجلی گھر خریدے جا رہے ہیں۔ وزیر پانی و بجلی نے نہروں کی بندش کو بجلی کی پیداوار میں کمی کی وجہ قرار دیا ہے‘ نہریں چند روز قبل بند ہوئیں‘ بجلی کا بحران انکی پارٹی کے حکومت میں آنے کیساتھ شروع ہوا اور گہرے سے گہرا ہوتا چلا گیا۔ بقول انکے 30 جنوری کے بعد صورتحال بہتر ہو جائے تو یہ معجزہ سے کم نہیں۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کی وجہ سے ملکی معیشت زوال کا شکار ہے‘ صنعتیں بند ہونے سے لاکھوں افراد بیروزگار ہو گئے‘ چھوٹے موٹے کاروبار تباہ ہو چکے ہیں‘ وافر پانی اور بجلی کا حصول مشکل نہیں‘ صرف نیت درست کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف ایک کالاباغ ڈیم دونوں ضرورتیں پوری کر سکتا ہے‘ جس کو وزارت سنبھالتے ہی راجہ پرویز اشرف نے شجر ممنوعہ قرار دیدیا تھا۔ این ایف سی پر اتفاق ہو سکتا ہے تو کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر کیوں نہیں؟ یہ قومی مفاد کا عظیم ترین منصوبہ ہے‘ اسے پس پشت ہرگز نہیں ڈالنا چاہئے۔ حکومت بمعہ راجہ پرویز اشرف اس منصوبے کو اسکے مخالفین کے قابل قبول بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ زرداری صاحب نے بھی سندھ میں ایک ننھے ڈیم کا افتتاح کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینکڑوں ایسے ڈیم بنیں گے۔ وہ بھی کالاباغ ڈیم کا نام لیتے ہوئے نہ شرمائیں‘ مرد حر بنیں۔
شوگر مل مالکان قیمت کا تنازعہ طے ہو سکتا ہے!
شوگر مل مالکان نے کسانوں پر دبائو ڈال کر سستا گنا حاصل کرنے کیلئے آپس میں گٹھ جوڑ کر کے پنجاب میں 44 میں سے 38 شوگر ملیں بند کر دی ہیں۔
شوگر ملوں اور گنے کے کاشت کاروں کے درمیان یہ تنازعہ خوفناک صورتحال پیدا کر رہا ہے اور اس بحران میں ملک کے غریب عوام کی ہی شامت آئیگی اور وہ بازاروں میں چینی کی تلاش میں مارے مارے پھریں گے۔ حکومت گنے کے کاشت کاروں اور شوگر مل مالکان کے درمیان موثر ثالث اس لئے نہیں بن سکتی کہ زیادہ تر شوگر مل مالکان کسی نہ کسی حکمران جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ حکومت پر اثرانداز ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں لاہور ہائی کورٹ نے عام صارفین کیلئے چینی کی قیمت چالیس روپے کلو مقرر کر دی تھی اور کہا گیا تھا کہ شوگر مل مالکان منڈی میں 38 روپے کلو شوگر فراہم کریں، جہاں سے عام لوگوں کو 40 روپے کلو مل سکے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اس فیصلہ کی تائید مزید کی مگر شوگر مل مالکان چونکہ طاقتور اور حکومتی گروپس سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس فیصلہ سے خوش نہیں ہیں اور چینی کی قیمت میں ڈیڑھ گنا اضافہ کرکے مزید اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ شوگر مل مالکان کو ان کا جائز حق ضرور ملنا چاہئے مگر مل مالکان کا گروہ اجارہ دار بن کر پوری قوم کو پریشان بھی نہ کرے تو بہتر ہے۔