جموں کشمیر، پاکستان ، بھارت اور اقوام متحدہ

مسلمانوں کی آمد سے قبل برصغیر کبھی اکائی کی صورت میں نہیں رہا. شمالی ہندوستان کے دور دراز علاقے ہمیشہ مرکزی حکومت سے کٹے رہے. اشوک، چندر گپت اور ہرش بھی شمالی اور جنوبی ہندوستان کو کبھی مستقل بنیادوں پر ایک لڑی میں نہ پرو سکے. شہنشاہ اکبر  دور میں کشمیر مغلیہ قلمرو میں شامل ہوا. ڈاکٹر سنہا کے بقول "جس وقت اکبر نے کشمیر کا اپنی ریاست سے الحاق کیا، اسی وقت سے اس وادی نے اْس کی اولاد کو مسحور کر دیا تھا". اکبر، جہانگیر، شاہجہان اور اورنگ زیب موسمِ گرما وادیئ￿  کشمیر کی ٹھنڈی چھاؤں اور دلفریب فضاؤں میں گزارتے تھے. شہنشاہ جہانگیر نے اپنی سوانح عمری "تزک جہانگیری" میں کشمیر کو ایک سدا بہار باغ اور ایک پھلواری کا نام دیا یے. کشمیر کی بے پناہ خوبصورتی اور دیدہ زیب حسن دیکھ کر اْس نے وہیں دفن ہونے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی.
اورنگ زیب کے بعد اِس پر افغان قابض ہو گئے اور بعدازاں مہاراجہ رنجیت سنکھ نے 1819 میں کشمیر پر قبضہ کرکے اس کو سکھ ریاست کا حصہ بنا لیا. 20 فروری 1846 کو لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے گلاب سنگھ کے ساتھ 'معاہدہ لاہور' کیا جس کی  رْو سے "سکھ حکومت ڈیڑھ کروڑ روپیہ تاوانِ جنگ ادا کرنے کی پابند قرار دی گئی. اس میں سے ایک کروڑ روپے کے بدلے جموں و کشمیر کے علاقے دیے جانے تھے اور باقی پچاس لاکھ روپیہ نقدی کی صورت میں ادا کرنا تھا. معاہدہ لاہور میں یہ بھی طے پایا تھا کہ جموں و کشمیر کی ریاستیں گلاب سنگھ کے ہاتھ بیچ دی جائیں گی اور وہ ان کے عوض ایک ملین پاؤنڈ ادا کرے گا."
لارڈ مونٹ بیٹن، گورنر جنرل ہندوستان نے اپنے دل میں مسلمانوں کے خلاف بغض تو پال ہی رکھا تھا، قائد اعظم کی طرف سے اْس کو پاکستان کا گورنر جنرل نہ بنائے جانے کے اصولی موقف پر اْس نے 8 اگست سے 12 اگست کے درمیان ایوارڈ میں بہت سی تبدیلیاں کرکے اپنا عناد اور غصہ بھی نکال باہر کیا. تقسیم کے فارمولے کے مطابق واضح مسلم اکثریت پر مشتمل پورا لاہور ڈویژن اور جالندھر ڈویژن پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا مگر کمیشن کی بے اصول نوازشات نے امرتسر تک کا علاقہ ہندوستان کو بخش دیا. گورداس پور اور بٹالہ کی واضح مسلم اکثریت کی تحصیلیں  گورداس پور اور بٹالہ کا الحاق محض اِس بنیاد پر ہندوستان کے ساتھ کر دیا گیا کہ وہاں سے ہندوستانی فوجوں کو کشمیر تک بآسانی رسائی مل سکتی تھی. 27 اکتوبر 1947 کو کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کرتے ہی گورنر جنرل نے اِس پر اپنے دستخط ثبت کر دئیے. نتیجتاً اِس کھلم کھلا ناانصافی پر اہلِ کشمیر نے مہاراجہ کے خلاف وسیع پیمانے پر بغاوت کر دی جس سے نمٹنا اس کے لئے کسی طور پر بھی ممکن نہیں تھا. مجبوراً اسے بھاگ کر ہندوستان میں پناہ لینا پڑی. راہداری کی سہولیات میسر آنے کی وجہ سے ہندوستانی افواج بزورِ شمشیر کشمیر پر اپنا تسلط جمانے میں کامیاب ہو چکی تھی. اِس صورتحال میں قائد اعظم نے پاک فوج کے پہلے انگریز سربراہ جنرل سر ڈگلس گریسی کو پاکستانی فوجیں کشمیر میں بھیجنے کا حکم دیا. جنرل گریسی نے لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے نئی دہلی میں فیلڈ مارشل سر کلاڈ اولنلیک کو خبر کر دی. اْس نے پاکستانی فوج میں انگریز افسروں کو واپس بلانے کی دھمکی دے ڈالی. یوں پاکستان سے جنرل گریسی کی حکم عدولی کی وجہ سے کشمیر آزاد کرانے کا یہ سنہری موقع ضائع ہو گیا. صرف ایک حصہ جس کو اب آزاد کشمیر کہا جاتا ہے، کو پاک، افغان قبائلی جانثاروں نے مقامی رضا کاروں کے دست و بازو بن کر آزاد کروایا.  ہندوستان خود کشمیر کے مسلے کو اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر لے گیا. سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق ہندوستان نے اقوامِ متحدہ کے نمائندے کی زیرِ نگرانی ریفرنڈم کروانے پر رضا مندی بھی ظاہر کی. مگر بعد میں اس نے ٹال مٹول، حیلہ سازی اور ہٹ دھرمی کے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیے. قائد اعظم کی رحلت، لیاقت علی خان کی شہادت اور پاکستانی عمائدین کی اندرونی کشمکش اور کھینچا تانی کے باعث ہندوستان مزید ڈھٹائی پر اتر آیا.
کشمیر کو آزاد کرانے کا ایک اور موقع اْس وقت ضائع ہوا جب چین اور ہندوستان کی 1962 میں سرحدی شدید جھڑپیں ہوئیں. چینیوں نے اشاروں کنائیوں میں پاکستان کو کشمیر پر لشکر کشی کرنے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی مگر جنرل ایوب خان نے دل نہ رکھا. یہ واقعہ قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں بڑی تفصیل سے رقم کیا ہے. شائید جنرل ایوب خان سفارتی ذرائع سے اِس مسئلے کو حل کرنا چاہ رہے تھے. انہوں نے خلوصِ دل سے کوشش بھی کی. عجلت میں ہندوستان کا دورہ بھی کیا مگر پنڈت نہرو، وزیراعظم ہندوستان کی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث بات نہ بن پائی. پنڈت نہرو خود بھی پاکستان آئے. جنرل ایوب خان نے مری جیسے ٹھنڈے اور پر فضا مقام پر پنڈت جواہر لال نہرو سے کشمیر کے مسئلے پر گفت و شنید کی مگر نتیجہ وہی، ڈھاک کے تین پات. شہاب نامہ میں جنرل ایوب خان کی ایک اور کوشش کا بھی ذکر کیا گیا ہے. جولائی 1961 میں دورہئ￿  امریکہ کے دوران صدر ایوب خان نے اچانک کسی قدر جذباتی انداز میں صدر کینیڈی اور مسز کینیڈی کو مخاطب کرکے کہا،" آپ دونوں ایک مثالی جوڑا ہیں. آپ کے حسنِ صورت اور حسنِ سیرت سے کوئی نہیں بچ سکتا. کیا آپ یہ جادو چلا کر پنڈت نہرو کو مسلہ کشمیر حل کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتے؟ اِس سے ہماری بہت سی مشکلات حل ہو جائیں گی." مسٹر کینیڈی زور سے ہنسے اور بولے، " مسٹر پریذیڈنٹ، جواہر لال نہرو دنیا کے ہر موضوع پر نہایت عالمانہ گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن جونہی کشمیر کا ذکر آئے وہ فورا سر جھکا کر اپنی نگاہیں شیروانی کے کاج میں ٹنگے ہوئے پھول پر گاڑ کر چپ سادھ لیتے ہیں، اور یوگیوں کی طرح آسن جما کر کسی گہرے مراقبے میں ڈوب جاتے ہیں."
اقوامِ متحدہ کے اپنے وقت کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے کہا تھا، " کشمیر کے بارے میں قراردادوں پر کافی عرصہ گزر گیا ہے. اِس لئے پاکستان اور بھارت دونوں درخواست کریں تب ہی اقوامِ متحدہ کچھ کر سکتی ہے ورنہ دو طرفہ مذاکرات کی اپیل ہی کر سکتی ہے." دیکھا جائے تو یہ ایک ٹالنے کا ایک عذر ہی لگتا ہے. مشرقی تیمور کی آزادی کی 1975 میں منظور ہونے والی قرارداد 27 سال کے بعد میچور ہوئی کیونکہ امریکہ اور یورپ مشرقی تیمور کو ایک اکثریتی عیسائی آبادی والا علاقہ ہونے کی وجہ سے اسے آزاد مملکت کے روپ میں دیکھنا چاہ رہے  تھے. کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہونے اور تین قراردادیں (13 اگست 1948، 5 جنوری 1951 اور 24 جنوری 1957) منظور ہونے باوجود اقوامِ متحدہ اِس لئے بیبس ٹھہری کیونکہ امریکہ، برطانیہ اور روس بھارت کی حمایت میں ایک پیج پر آ جاتے ہیں. وجہ صرف یہی ہے کہ پاکستان مسلمان ملک ہے. آبادی، رقبے اور وسائل کے لحاظ سے بھارت کا مقابلہ کرنے کی پوریشن میں نہیں ہے. سیاسی، سماجی اور معاشی عدم استحکام علیحدہ سے ایک روگ بن کر چمٹا ہوا ہے. 9 لاکھ بھارتی فوج نے 5 اگست 2019 سے جبر و استبداد، وحشت و بربریت اور ظلم و ستم کا جو نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے 

اور پوری دنیا ہمارے موقف کو پذیرائی بخشنے کی بجائے بھارت کی پشت پر کھڑی ہے. اِس صورتحال میں ہمیں مایوس اور خاموش ہو کر تو نہیں بیٹھ جانا چاہیے. اپنے نہتے اور مظلوم کشمیری بھائیوں کی اخلاقی اور سفارتی کوششوں کے سلسلے تو بروئے کار لانے چاہیں. چونکہ کشمیر پاکستان کی ایسی مقدس شہہ رگ ہے جس کو ناپاک بھارتی ہاتھوں نے پوری گرفت اور مکاری سے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے. اِس تناظر میں ہمارا ہر سال 5 فروری کو منایا جانے والا یومِ یکجہتیئ￿  کشمیر مردہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا ایک بے ضرر اور ادنیٰ سا ہتھیار ہی سہی، مگر بقول فیض احمد فیض
"کچھ حشر تو اِن سے اٹھے گا، کچھ دور تو نالے جائیں گے."
ساتھ ہی ساتھ ہمارے مظلوم کشمیری بھائیوں کی کچھ نہ کچھ تو تالِیفِ قَل?ب کا سامان بھی پیدا ہوتا ہوگا. قانونِ قدرت ہے کہ ظلمت کا دور ہمیشہ کے لئے نہیں پنپ سکتا. آخر کار صبحِ نو طلوع ہو کر ہی رہتی ہے.

ای پیپر دی نیشن