
سیّد روح الامین
بلاشبہ تعلیم کی بنیاد پر ہی قومیں ترقی کرتی ہیں۔ قرآن و احادیث میں تعلیم کے حصول کو جس قدر اہمیت دی گئی ہے اُس کی مثال نہیں ملتی۔ دنیا کا یہ دستور ہے کہ تعلیم اُس علاقے کی اپنی زبان میں ہی دی جاتی ہے۔ صرف وطنِ عزیز پاکستان میں جو کہ 75 سال سے جس طرح آج بھی مالی لحاظ سے دیگر ممالک کا مقروض ہے۔ اپنی زبان سے بھی یہاں کے باسیوں کو سازش کے تحت محروم رکھا گیا ہے۔ ایک غیر ملکی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا گیا تاکہ یہاں بسنے والے ’’اشرافیہ‘‘ کے غلام ہی رہنے پرمجبورہوں۔ آج ہمارے ہاں تعلیمی ادارے بھی بہترین تجارت اور کمائی کا ذریعہ ہیں۔ صنعت کار حضرات نے صنعت سازی کو چھوڑ کر تعلیمی ادارے بنا لیے جن کا تعلیمی معیار زِیرو سے بھی کم ترہے مگر وہ ہر سال ایک ادارے کی آمدن سے دوسرا ضرور ’’تعمیر‘‘ کر لیتے ہیں۔ نجی اسکولز میں تو بچوں کو کتابیں، کاپیاں، نوٹس، یونیفارم وغیرہ سبھی لوازمات اُسی سکولز سے لینا ہوتے ہیں۔ فیسوں کی مَد میں حاصل کی جانے والی رقوم سے زیادہ کمائی کا ذریعہ یہ ہوتا ہے۔ جامعات کا بھی بیڑا غرق کر دیا گیا ہے۔ اہلِ ثروت بڑی آسانی سے ’’جامعات‘‘ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بچوں سے لاکھوں روپیہ فیس لے کر دھڑا دھڑ ڈگریاں بانٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ تحقیقی معیار بخدا تنزلی کا شکارہے۔ اگر آپ چند لاکھ خرچ کرنے کے اہل ہیں تو ایم۔ فِل، پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا کوئی مشکل ہی نہیں۔ جامعات میں پیپر بنانے، جانچنے والے اساتذہ ’’اپنے‘‘ ہی ہوتے ہیں۔ اگر آپ اُستاد کے منظور نظر ہیں تو آپ مطمئن رہیے۔ بس آپ کی فیس وقت پرجمع ہونی چاہیے۔ ایم۔ فل میں ایک مرحلہ تحقیق کا بھی ہے۔ دوسَو نمبر کا تحقیقی مقالہ لکھنا ہوتا ہے۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ بخدا اگر آپ ’’تحقیق‘‘ لفظ کے معنی سے بھی نابلد ہیں پھر بھی آپ دو سَو میں سے باآسانی ایک سو اسّی تک نمبر حاصل کر سکتے ہیں۔ لاہور سے ایک نجی یونیورسٹی کی ایم۔ فل کی طالبہ نے ہمارے نام ایک خط لکھا۔ لکھتی ہیں ’’جناب میں نے ایم۔ فل میں داخلہ لیا۔ یونیورسٹی کے ساتھ ہاسٹل میں رہائش پذیر تھی۔ متوسط گھرانے سے تعلق تھا۔ میرا باپ بڑی مشکل سے میری فیس ادا کرتا۔ پہلے سال میں امتحان میں 70فیصد سے بھی زائد نمبر حاصل کرتی رہی پھر تھیسز لکھنے کا مرحلہ آیا۔ میری نگران میری صدرِ شعبہ تھیں۔ انہوں نے مجھے کہا کہ یونیورسٹی کے ساتھ ہی میرا گھر ہے۔ آپ میرے گھر جا کر میری بیٹیوں کو پڑھا دیا کرو۔ بوجوہ میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ پھر کیا ہوا میری صدرِ شعبہ دشمنی پر اُتر آئیں۔ تھیسز میں نگران نے راہنمائی کرنا ہوتی ہے مگر میری نگران نے اس دوران ایک لفظ بھی مجھے نہ بتایا۔ بہرحال میں نے بڑی مشکل سے مقالہ تو لکھ لیا مگر مجھے سب سے کم نمبر دلائے گئے اور ایک لڑکی جو کہ صدرِ شعبہ کی منظورِ نظر تھی اُن کے گھر کے کام کاج وغیرہ کرتی اُسے کلاس میں سب سے زیادہ نمیر دیئے گئے‘‘۔ یہ ایک واقعہ نہیں ایسے ہزارو ں واقعات ہو رہے ہیں۔ فیصل آباد کے ایک تعلیمی ادارے میں ناچیز کو جانے کا اتفاق ہوا۔ اسی روز ایک طالب علم کا ایم۔ فل کا زبانی امتحان تھا۔ ایک خاتون کسی ادارے سے زبانی امتحان کے لیے تشریف لائیں۔ فرمانے لگیں کہ یہ مقالہ تو اپنے موضوع سے بھی بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔ میں اسے پاس بھی نہیں کر سکتی۔ طالبِ علم کے نگران مقالہ تو غصے میں آ گئے اور کمرے سے باہر نکل گئے اور دھمکی یہ دی کہ میں نے بھی تو ان کے ادارے میں بطور ممتحن امتحان لینے جانا ہی ہے۔ بالآخر خاتون ممتحن کو بادلِ نخواستہ پاس کرنا ہی پڑا۔ بخدا جامعات میں تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب پرائیویٹ اسکولز کی مانند جامعات بھی ہر شہر میں بنائی جا رہی ہیں۔ اب انہوں نے اپنا خرچہ تو پورا کرنا ہے۔ گھر بیٹھے داخلہ مل جاتا ہے۔ بس فیس جمع کرانے کی پابندی کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا۔ باقی تمام مراحل آسانی سے گذر جائیں گے۔ مقالے پیسوں سے لکھوائے جاتے ہیں۔ بخدا جن بچوں کو یہ بھی علم نہیں کہ زیرِ طبع، طباعت کا مطلب کیا ہے وہ ایم۔ فل کی ڈگری حاصل کر کے پی ایچ۔ ڈی کے اہل بھی ہو جاتے ہیں۔ صدرِ شعبہ نے اپنے کسی دوست کو زبانی امتحان کے لیے دعوت دینی ہوتی ہے۔ بس چائے پانی، کھانے کا بہترین انتظام بعض اوقات طالب علموں کے ذِمہ ہوتا ہے۔ بس سب کا اعلیٰ نمبروں کے ساتھ پاس ہونا یقینی ہے۔ اگر صدرِ شعبہ ایماندار ہے۔ طالب علم نے نگران یا صدر شعبہ کے معیار کے مطابق تحقیقی کام نہیں کیا تو پھر بھی آپ کچھ نہیں کر پائیں گے۔
پھر مذکورہ طالب علم اُس نجی یونیورسٹی کے مالک تک رسائی حاصل کرے گا جس کا مقصد صرف مال بنانا ہے۔ وُہ متعلقہ صدرِ شعبہ کو صرف اشارہ کرے گا۔ سب معاملہ حل ہو جائے گا۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ ایم۔ فل اور پی ایچ۔ ڈی کِن حروف کے مخفف ہیں ، جن کو یہ بھی نہیں علم مگر ڈگریاں وہ بھی لے رہے ہیں۔ اب تو ایف ایس سی میں اگر آپ صرف پاس ہیں۔ ستر، اسّی لاکھ خرچ کریں اور ایم ۔ بی۔ بی۔ ایس کی ڈگری لے کر آپ ’’ڈاکٹر بن سکے ہیں۔ جس ملک کے حکمران چور، لٹیرے ہوں وہاں کسی بھی ادارے میں میرٹ، بہتری کب اور کیوں آئے گی؟ اگر سرکاری تعلیمی ادارے اہل ہوتے تو تعلیم کا ستیاناس کبھی نہیں ہوتا۔ بس ؎
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا