مکتوب دوبئی
طاہرمنیر طاہر
شاعرہ و ادیبہ سےدہ کوثر منور سے خصوصی انٹرویو
شاعرہ، جرنلسٹ ، مصنفہ ، مدبر نقاد ، ٹی وی ہوسٹ ، اخبار کی چیف ایڈیٹر ، سوشل ورکر اور ایک کامیاب بزنس وویمن کی تمام خوبیاں اگر ایک شخصیت میں جمع کی جائیں تو جو شخصیت سامنے آئے گی ان کا نام ہے “ سیدہ کوثر منور “
سیدہ کوثر کا بنیادی تعلق ایران اور برصغیر پاک و ہند کے مشترکہ رشتہ کی بدولت ایک متمول سید گھرانے سے ہے جبکہ انکا بچپن لاہور شہر میں گزرا۔ 1995 میں پنجاب یونیورسٹی سے پرائیویٹ ماسٹر کرتے ہی انکی شادی جرمنی میں کر دی گئی۔ پاکستان لاہور میں سیدہ کوثر کا تعلیمی زمانہ بھرپور ادبی اور سوشل سرگرمیوں میں گزرا۔ خاندان بھر کی لاڈلی بیٹی ہونے کے ناطے ان پہ والدین اور گھر والوں کی طرف سے خاص رعائت کا برتاو¿ کیا جاتا رہا ہے جس کا انھوں نے بہت مثبت رنگ میں اور بھرپور فائدہ اٹھایا۔
شعر و شاعری اور ادب سے لگاو¿ خاندانی وراثت کی طرح بچپن سے انہیں ملا ہے آپ نے اپنا پہلا شعر اپنی عمر کے پندرہویں سال میں کہا اور اس کو سات اشعار کی غزل میں پورا کیا سیدہ کوثر کو اپنا پہلا کلام آج بھی حرف بحرف یاد ہے ملاحظہ ہو
تم مشکلوں میں سب کو سہولت دیا کرو
دشواریوں میں نام خدا کا لیا کرو
آنکھیں بنائے جانے سے پہلے کی بات ہے
رب نے مجھے کہا تھا نظارہ کیا کرو
آپ کی شاعری ابتدائی دنوں میں ہی برصغیر پاک و ہند کے متعدد اخبارات و رسائل میں نمایاں طور پہ شائع ہوتی رہی ہے جو قارئین میں بہت پسند کی جاتی تھی۔ سیدہ کوثر اپنے زمانہ طالبعلمی میں اپنے کالج کی تمام تر ادبی تنظیموں سے منسلک رہیں جناح ڈگری کالج وویمن اردو ادب تنظیم کی پریذیڈنٹ کے طور پہ ادبی پروگرامز کی ترتیب و پیشکش میں نمایاں طور پہ متحرک رہیں ہیں انہوں نے مقالہ جات اردو فی البدی? تقاریر اور لاتعداد مشاعرہ منعقد کروائے اور اسٹیج سیکریٹری کے فرائض بھی بخوبی نبھائے اور بڑے بڑے شعرائ کی موجودگی میں خود بھی پڑھا اور داد و تحسین پائی۔
شادی کے بعد کا وقت انکا ادب اور ادبی سرگرمیوں سے مکمل لاتعلقی کا دور رہا وہ اپنی زندگی کو تین ادوار پہ مکمل کرتی ہیں پہلا دور شادی سے قبل جہاں وہ کسی شہزادی کی طرح متمکن رہیں دوسرا دور شادی شدہ ہونے کا۔
اور تیسرا دور جبکہ وہ جرمنی سے انگلینڈ شفٹ ہوئیں اور یوں زندگی ایک مختلف انداز سے دوبارہ اپنی ڈگر پہ چل پڑی
سیدہ کوثر کے شوہر کا چونکہ اپنا گاڑیوں کی خرید و فروخت کا بزنس تھا جس میں سیدہ کوثر نے مکمل اور بھرپور ساتھ دیا اور یوں خود بھی گاڑیوں کی خرید و فروخت کے رموز اور اندرونی و بیرونی ساخت کو سمجھنے لگیں اپنے شوہر کے انتقال کے بعد سیدہ کوثر نے گاڑیوں کے بزنس کے ساتھ ساتھ رئیل اسٹیٹ کا بزنس بھی شروع کیا جو کہ وہ آج بھی جاری رکھے ہوئے ہیں جو ایشین معاشرے کی خاتون ہونے کے ناطےایک بہت بڑی بات ہے
لندن میں ادبی اور سوشل سرگرمیاں اور گھریلو مصروفیات ان سب سے نبٹنے کے کئے وہ واشگاف الفاظ میں سارا کریڈیٹ اپنے تینوں ہونہار بچوں اور اپنے بھائیوں کو دیتی ہیں جنہوں نے لندن شفٹ ہونے کے بعد سیدہ کوثر کو اپنی چھوڑی ہوئی ادبی سرگرمیوں کو پھر سے شروع کرنے کی ہمت بندھائی۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے اب پھر سیدہ کوثر پوری آب و تاب کے ساتھ علمی اور ادبی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ لندن ساو¿تھ اور اس کے مضافات میں متعدد علمی و ادبی ایوینٹس کروانے کا سہرا ان کے سر ہے اور لندن کی اعلی قد آور شخصیات میں انکا ایک باوقار مقام ہےجسے ہر طبقہ فکر وادب کے لوگ انتہائی عزت و احترام سے دیکھتے ہیں وہ رفیوجی اینڈ مائیگرینٹ سینٹر لندن کی فعال ممبر ہیں ان کو سیاست سے بھی لگاو¿ ہے اپنے زون کی وہ لیبر پارٹی کی ایکٹیو ممبر اور مائینوریٹی آفیسر بھی ہیں۔
لندن میں حالیہ قیام کے دوران سیدہ کوثر کی ملاقات نامی گرامی علمی وادبی ہستیوں سے بھی ہے جنہیں وہ اپنی زندگی کا عظیم اور گرانقدر سرمایہ سمجھتی ہیں اپنے دوبارہ ادبی سفر کے دوران انہوں نے متعدد بین الاقوامی پروگرامز اور مشاعروں میں حصہ لیا اور بیشمار انعامات ،سرٹیفیکیٹ اور ٹرافییز اپنے نام کیں متعدد ملکوں کی گورنمنٹ کی طرف سے ان کو اعزازی شیلڈز اور ٹرافئیزسے نوازا گیا۔
سیدہ کوثر علم و ادب کی خدمت کے ساتھ پاکستان میں متعدد سوشل ورک پروگرامز میں بھی حصہ لے رہی ہیں۔دھنک لندن ویلفئیر فاو¿نڈیشن کی چئیر پرسن ہونے کے ناطے انھوں نے خواتین کو ہنر سکھا کر روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا عظم کر رکھا ھے اور خواتین کو با اختیار بنانے جیسے مختلف منصوبوں۔ Women Empowerment , Live your Own
کے لئے کام کر رہی ہیں۔ گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ آجکل۔ COVID-19
کی وجہ سے عملی طور پر مشاعروں اور دیگر ادبی تقریبات کا انعقاد ممکن نہیں رہا لہذا انھوںں نے آن لائن مشاعروں ،اور دیگر علمی و ادبی سرگرمیوں کا اہتمام کر رکھا ھے جس میں دنیا بھر سے اعلی مکتبہ فکر کے لوگ شمولیت اختیار کرتے ہیں دھنک لندن ٹی وی کی باقاعدہ لائیو نشریات کا بھی اہتمام کیا جا رہا ھے اور مختلف النوع موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی جاتی ہے اور لوگوں کی راہنمائی بھی کی جاتی ہے۔
ان ساری مصروفیات کے ساتھ ساتھ آجکل سیدہ کوثر اپنے پہلے شاعری کے مجموعہ کلام “ عشقِ لاہوتی “ پر کام کر رہی ہیں اور اسے جلد از جلد منظر عام پہ لانا چاہتی ہیں۔ ان کے کلام کو پڑھ کر امید کی جاتی ہے کہ ان کی کتاب اردو ادب میں ایک گرانقدر اضافہ ہوگی اور پڑھنے والوں کی تشنگی کو دور کرنے کے سلسلہ میں ممد و معاون ثابت ہوگی سیدہ کوثر کی شاعری میں سے چند اشعار
وہیں تو گندم زخیرہ کرنا دکان داروں کا مشغلہ ہے
جہاں پہ فاقوں سگ مر رہے ہیں کسان فصلیں اگا اگا کر
علیحدگی ، لاتعلقی ، بے نیازی مجھ پر نہ کر مسلط
بدن کی مٹی سے آگ ، پانی ، ہوا کے مادے جدا جدا کر
چرچے ہیں ہر طرف مرے عکسِ جمال کے
چلنا ہے میرے ساتھ تو خود کو سنبھال کے
جس جس کو ہیں پسند ، رہائش پذیر ہوں
کمرے سجا کے رکھتی ہوں ہجر و وصال کے
میں دیکھنے سے جو لگتی ہوں وہ نہیں کوثر
کہا ہے رب نے مودت کا پہلا راز مجھے
روایت سے الجھنا ہے سو یہ دل
جدیدیت میں آکے دیکھتا ہے