رسول ﷺ نے مسلمانوں کوایک جسم سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا’’اگرجسم کے ایک حصے کوتکلیف ہوتوساراجسم تکلیف محسوس کرتاہے۔ایسے ہی اگردنیاکے کسی خطے کے مسلمانوں پرکوئی تکلیف آئے، غیرمسلم۔ مسلمانوں پرظلم کریں تودوسرے مسلمانوں کافرض ہے کہ وہ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی مددکیلئے کمربستہ ہوجائیں۔مظلوم بھائی کامددکرنا، ظالم کاہاتھ روکنااورمظلوم مسلمانوں کوظالموں کے پنجے سے نکالنا ہرمسلمان کافرض ہے۔یہی عمل اظہاریکجہتی کہلاتاہے۔ آج ہم بھی ملک بھرمیں مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کررہے ہیں۔اظہاریکجہتی کشمیرکایہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔اگرچہ اس عمل کی اہمیت سے انکارممکن نہیں لیکن سچی بات ہے کہ ہماراظہاریکجہتی کشمیرکایہ عمل محض اظہارہی ہے۔جب ہم کشمیری مسلمانوں پرہونے والے مظالم دیکھتے ہیں توصاف معلوم ہوتاہے کہ بحیثیت قوم اورخاص کرہمارے حکمران مسلمان ہونے کافرض ادانہیں کررہے۔آج دنیا جدید ترین ٹیکنالوجی اورمواصلاتی رابطوں کے ذریعے گلوبل ویلج بن چکی ہے۔دنیاکے ایک کونے کی خبریں پل بھرمیں دوسرے کونے تک جاپہنچتی ہیں۔ایسی صورت میں ممکن نہیں کہ مقبوضہ جموں کشمیرمیں جوکچھ ہورہاہے اس سے ہم یاہمارے حکمران بے خبرہوں۔مقبوضہ جموں کشمیرقطب شمالی میں نہیں اورنہ ہی مقبوضہ جموں کشمیرکسی دوسرے سیارے کانام ہے بلکہ مقبوضہ جموں کشمیرہمارے پڑوس میں ہے۔وہاں یتیم ہونے والے چیختے،چلاتے،بھوک سے بلکتے اورتڑپتے بچے مددکے لئے ہمیں پکاررہے ہیں۔بیوہ ہونے والی خواتین کی آہیں رب عظیم کے عرش کوہلارہی اوربوڑھوں کی سسکیاں تھمنے کانام نہیں لے رہی رہیں۔کیامعصوم ومظلوم کشمیری بچوں کی فلک شگاف چیخیں ہمیں سنائی نہیں دیتیں اورکیاوہاں سے بلندہوتے شعلے ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔۔۔؟
بھارتی حکمران شائدسمجھتے ہوں گے کہ 1947ء کے موقع پرمظالم کے پہاڑتوڑ کرانہوں نے کوئی معرکہ مارا۔ میں سمجھتاہوں کہ بھارت کے یہ مظالم ریاست جموں کشمیرکا 33958مربع میل خطہ جوآج پاکستان کے زیرانتظام ہے کی آزادی کی بنیادبنے تھے ۔آج بھی اللہ کے فضل سے یہ بات علی وجہ البصیرت کہی جاسکتی ہے کہ بھارت اس وقت جوظلم کررہاہے وہ اب باقیماندہ مقبوضہ جموں کشمیر کی آزادی کاسبب بنیں گے ان شاء اللہ۔یہ میرے اللہ کاوعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر ایفائے عہدکرنے والاکوئی نہیں ہے۔
میں کشمیری قوم کے بچوں،بزرگوں،جوانوں،بہنوں اوراپنی بیٹیوں کوخوشخبری دیناچاہوں گاکہ اللہ کی مددونصرت کانزول شروع ہوچکاہے جس کاثبوت یہ ہے کہ اس وقت بھارت مقبوضہ جموں کشمیرسمیت پورے خطے میں قدم قدم پر رسوا اورپسپاہورہاہے۔کشمیری مسلمان عرصہ درازسے بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریبات کابائیکاٹ کرتے ہی ہیں لیکن امسال پہلی دفعہ بھارت کے اندر سے بھی آسام، میزورام،منی پورہ میں یوم جمہوریہ کی تقریبات کامکمل بائیکاٹ کیا گیا اور سناٹا چھایارہا۔میزورام میں یہ حالت تھی کہ وفاق کانمائندہ گورنریوم جمہوریہ کی تقریب سے خطاب کرنے کیلئے سٹیڈیم میں موجود تھا لیکن ریاست کے لوگ موجودنہ تھے۔مودی سرکارنے امسال یوم جمہوریہ کی تقریبات کیلئے امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کومدعو کر رکھاتھالیکن ٹرمپ نے بغیر وجہ بتائے مودی کی دعوت کو مسترد کردیااورتقریب میں شرکت سے انکارکردیا۔بھارتی میڈیا اور سیاستدانوں کاکہناہے کہ ْٹرمپ نے دعوت مودی کی دعوت مسترد کرکے ہمیںذلیل کردیااور ہمارے منہ پر تھپڑ دے ماراہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ بھارتی دانشوراورسیاستدان منہ چھپائے پھررہے ہیں اب وہ دنیاکویہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں رہے کہ پاکستان مقبوضہ جموں کشمیرمیں دراندازی کررہا ہے۔ ہم توپہلے بھی کہتے تھے یہ تحریک کشمیری مسلمانوں کی اپنی تحریک ہے آج بھی ہماراموقف یہی ہے البتہ فرق یہ ہے کہ اب بھارتی حکام خودبھی اعتراف کرنے پرمجبورہیں۔بھارت کا موقراخبارہندوستان ٹائمزخودکویہ لکھنے پر مجبور پارہا ہے ’’تحریک آزادی کی قیادت پڑھے لکھے،اعلی تعلیم یافتہ اورامیرترین کشمیری گھرانوں کے نوجوانوں کے ہاتھ آچکی ہے جن میں کئی پی ایچ ڈی سکالر،یونیورسٹی کے پروفیسر،فوج اورپولیس کی نوکری کرنیوالے شامل ہیں۔‘‘ ہندوستان ٹائمز کا یہ اعتراف حقیقت بھارت کے ان اداروں کے منہ پر یقینا زناٹے کاتھپڑہے جویہ کہتے نہیں تھکتے کہ وادی میں بے روزگاری نوجوانوں کوعسکریت کی طرف راغب کررہی ہے۔ بھارت کی سرکاری ایجنسیوں کا کہناہے اگرہتھیاردستیاب ہوں تواس سے کہیں بڑی تعدادمیں کشمیری نوجوان جہادی راہوں پرچلنے کیلئے بے تاب اوربے قراربیٹھے ہیں۔
آج ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کے اسلامی اورعملی تقاضے پورے کریں۔ مظلوم مسلمانوں کی مددکیلئے اسلام نے جوذمہ داریاں عائدکی ہیں ان کاادراک اوراحساس کریں۔اس ضمن میں اسوہ رسول ﷺ سے رہنمائی لیں۔راہنمائی کایہ روشن پہلوفتح مکہ کے واقعہ میں بدرجہ اتم موجودہے۔مدینہ سے مکہ کاطویل سفراور پھر فتح مکہ کاپس منظرمظلوم بنی خزاع کی مددتھابنوخزاع اگرچہ مسلمان نہ تھے لیکن مسلمانوں کے حلیف تھے اورمظلوم تھے۔ رسول ﷺ مظلوموں کی مددکیلئے سینکڑوں میل کا سفر کرکے مکہ پہنچے تھے۔اسکے برعکس اہل کشمیر۔۔۔مظلوم بھی ہیں،ہمارے پڑوسی بھی ہیں اورمسلمان بھی ہیں۔سوکشمیری مسلمان اس بات کے زیادہ حقدارہیں کہ ہم ان کی مددکریں۔ یہ ہے اسلام میں اظہاریکجہتی کاعملی تصور۔اگرہمارااظہاریکجہتی کشمیر کا یہ عمل اسلام کے تقاضوں کوپوراکررہاہے توسمجھ لیں ہم عملی اورحقیقی مسلمان ہیں اگرصورت حال اس کے برعکس ہے توپھراصلاح کی ضرورت ہے۔اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024