یوم یکجہتی کشمیر پر قومی اتحاد کی آج کسی بھی دو ر سے زیادہ ضرورت ہے
کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کے 68 سال
کشمیری عوام کے حق خودارادیت کیلئے انکے ساتھ یکجہتی کے اظہار کی خاطر آج 5؍ فروری کو پورے ملک اور آزاد و مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں یوم یکجہتی ٔ کشمیر منایا جارہا ہے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1975ء میں اپنے دور حکومت میں یہ پرعزم دن منانے کا آغاز اس نام نہاد کشمیر اکارڈ کیخلاف ملک گیر ہڑتال کی صورت میں کیا تھا جو اس وقت کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ شیخ عبداللہ نے اندرا گاندھی کے ساتھ ملی بھگت کرکے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں پیش کیا تھا ‘ بعدازاں باضابطہ طور پر یوم یکجہتی ٔ کشمیر منانے کا سلسلہ 5؍ فروری 1990ء سے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد کی اپیل پر شروع ہوا جسے حکومت نے اپنی کشمیر پالیسی کا حصہ بنایا چنانچہ اب حکومت کے زیراہتمام یوم یکجہتی ٔکشمیر منایا جاتا ہے جس میں قومی سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم شریک ہو کر غاصب بھارت کو یہ ٹھوس پیغام دیتی ہے کہ کشمیر پر اس کا تسلط بزور قائم نہیں رہ سکتا اور یواین قراردادوں کی روشنی میں استصواب کے ذریعے کشمیری عوام نے بالآخر خود ہی اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔ آج 5؍ فروری کا آغاز کشمیری شہداء کی یاد میں ملک بھر میں صبح 9 بجے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرکے کیا جائیگا جبکہ وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں اور ملک کے دوسرے شہروں میں انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر بڑی بڑی ریلیوں کے ذریعے کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جائیگا۔یوم یکجہتی ٔ کشمیر کے موقع پر آج پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کے حوالے سے خصوصی اشاعتوں اور خصوصی پروگراموں کا بھی اہتمام کیا ہے جبکہ حکمران مسلم لیگ (ن)‘ جماعت اسلامی‘ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سمیت ملک کی تمام قومی سیاسی جماعتوں نے آج اپنے اپنے پلیٹ فارم پر کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار کیلئے مختلف تقاریب اور ریلیوں کا اہتمام کیا ہے۔
کشمیری عوام نے گزشتہ 68 برس سے غاصب اور ظالم بھارتی فوجوں اور دوسری سیکورٹی فورسز کے جبر و تشدد کو برداشت‘ ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرتے اور متعصب بھارتی لیڈران کے مکر و فریب کا مقابلہ کرتے ہوئے جس صبر و استقامت کے ساتھ اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے‘ اسکی پوری دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں۔ اس خطۂ ارضی پر آزادی کی کوئی تحریک نہ اتنی دیر تک چل پائی ہے‘ نہ آزادی کی کسی تحریک میں کشمیری عوام کی طرح لاکھوں شہادتوں کے نذرانے پیش کئے گئے ہیں اور نہ ہی آزادی کی کسی تحریک میں عفت مآب خواتین کو اتنی بڑی تعداد میں اپنی عصمتوںسے محروم ہونا پڑا۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک انسانی تاریخ کی بے مثال تحریک ہے جس کی پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے مستقبل کی منزل بھی متعین ہے‘ اس تناظر میں کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی درحقیقت پاکستان کی تکمیل اور استحکام کی جدوجہد ہے جس کا دامے‘ درمے‘ قدمے‘ سخنے ہی نہیں‘ عملی ساتھ دینا بھی پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کی بنیادی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا جبکہ بانیٔ پاکستان قائداعظم نے کشمیر کی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور جب اس شہ رگ پر 1948ء میں بھارت نے زبردستی اپنی فوجیں داخل کرکے تسلط جمایا تو قائداعظم نے افواج پاکستان کے اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو دشمن سے شہ رگ کا قبضہ چھڑانے کیلئے کشمیر پر چڑھائی کرنے کا حکم بھی دیا تاہم جنرل گریسی نے اس جواز کے تحت اس حکم کی تعمیل نہ کی کہ وہ برطانوی افواج کے سربراہ کے تابع ہیں اور انکی اجازت کے بغیر کشمیر کی جانب پیش قدمی نہیں کر سکتے۔ اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ کشمیر کا تنازعہ بھارت اور برطانیہ کی ملی بھگت سے پیدا ہوا جو درحقیقت پاکستان کو شروع دن سے ہی کمزور کرکے اسکے آزاد وجود کو ختم کرنے کی سازش تھی۔ بھارت اسی سازش کے تحت کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا مگر جب یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی الگ الگ قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور کشمیر میں استصواب کے اہتمام کا حکم دیا تو بھارت نے اسے تسلیم کیا مگر عمل کرنے سے ہمیشہ انکاری رہا اور پھر کچھ عرصہ بعد اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ اپنی ریاست کا درجہ دے دیا اور کشمیریوں کو جبراً اپنے ساتھ ملائے رکھنے کیلئے ظلم و جبر و بربریت کے پہاڑ توڑنا شروع کردیئے۔ بھارتی جبر کے انہی ہتھکنڈوں نے کشمیر کی تحریک آزادی کو مہمیز دی اور آزادی کیلئے کشمیری عوام کی تڑپ کبھی سرد نہیں ہونے دی۔وہ اپنی آزادی کیلئے جو بھی ہو سکتا ہے‘ کر رہے ہیں اور جانوں تک کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔
آج کشمیری اور پاکستانی عوام یوم یکجہتی ٔکشمیر ان حالات میں منا رہے ہیں جب بھارت مقبوضہ کشمیر ہی نہیں پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر پر بھی نظربد جمائے بیٹھا ہے‘ اس نے پہلے مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ تسلیم کیا پھر اسے اٹوٹ انگ کہا جانے لگا۔ اب آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی اپنا حق جتانے لگا ہے۔ اور ان علاقوں پر شب خون مارنے کیلئے پاکستان کو دہشت گردی کے ذریعے منتشر کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ بھارتی آئین کی دفعہ 370کی روسے بھارتی یونین میں ریاست جموں وکشمیر کی ایک خصوصی حیثیت تسلیم کی گئی تھی اور دفعہ 35-Aکی رو شنی میں مہاراجہ کے سٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کو تحفظ دیا گیا جس کی رو سے غیر ریاستی شہریوں کو قانونی طور پر نہ ریاست کی شہریت دی جا سکتی ہے‘ نہ وہ جائیداد خرید سکتے ہیں اور نہ ہی ووٹر بن سکتے ہیں مگر مودی سرکار نے کشمیر کے اسی تشخص کو ختم کرنے کیلئے بھارتی آئین کی متذکرہ شق میں ترمیم کراکے ہندو پنڈتوں کو مقبوضہ وادی میں متروکہ وقف کی املاک خریدنے اور وہاں مندر تعمیر کرنے کا حق دے دیا جس کا اصل مقصد مقبوضہ وادی کی مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے ۔چنانچہ مودی سرکار کی اس گھنائونی سازش کو ہر صورت ناکام بنانے کی ہمیں ٹھوس حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔
کشمیر پر مستقل تسلط جمانے کی خاطر ہی ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ جماعت بی جے پی کی مودی سرکار نے پاکستان دشمنی کی بنیاد پر اپنی خارجہ پالیسی کا ازسرنو تعین کیا چنانچہ مودی کے اقتدار کا کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی فوجوں نے بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری نہ کی ہو۔گزشتہ دو ہفتوں کے دوران فائرنگ اور گولہ باری سے سکیورٹی اہلکاروں‘ خواتین اور بچوں سمیت پندرہ شہری شہید ہوچکے ہیں جس پر کم از کم چھ مرتبہ بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج اور حالات کی سنگینی سے خبردار کیا گیا۔ بھارت نے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کیلئے اقوام عالم اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی جانب سے بڑھتے ہوئے دبائو کو ٹالنے کیلئے پاکستان کیخلاف جارحانہ کارروائیوں کا سازشی منصوبہ طے کیا ہے جس کی بنیاد پر کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی میں انکی عسکری معاونت کے حوالے سے پاکستان پر دراندازی اور نان سٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے دہشت گردی کے بے سروپا الزامات عائد کرکے مودی سرکار دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔
اپنے اوپرہونیوالے بھارتی فورسز کے مظالم دنیا پر آشکار کرنے کیلئے کشمیری ہر ذریعہ استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان بھی اخلاقی وسیاسی و سفارتی معاونت کررہا ہے۔ ڈیڑھ سال قبل برہان وانی کی شہادت سے جدوجہد آزادی کو نئی مہمیز ملی جس سے بھارتی قیادت بوکھلا اٹھی ہے جس نے کشمیر میں اپنی بربریت میں مزید اضافہ کردیا۔ اجتماعی قبریں پہلے ہی مقبوضہ وادی میں دریافت ہوچکی ہیں‘ اب پیلٹ گنوں کے استعمال سے نئی نسل کو بینائی سے محروم کیا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتوں سے گوشت اور ہڈیاں گلا دینے والا کیمیکل استعمال کرکے بھی انسانیت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ بھارت نے کشمیر کا بدلہ بلوچستان اور آزاد کشمیر و گلگت میں لینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد میں کامیابیوں کے باوجود پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ اس لئے نہیں ہو رہا کہ بھارت دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہا ہے۔ گزشتہ روز سوات میں آرمی یونٹ میں خودکش حملہ میں جوانوں اور افسروں سمیت 24 افراد خون میں نہلا دیئے گئے۔ بھارت کے ایسے ہتھکنڈے پاکستان کو کشمیریوں کی مدد اور معاونت سے نہیں روک سکتے۔
آج کا یوم یکجہتی ٔ کشمیر بھی پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کی بھارتی گھنائونی سازشوں کا ہی جواب ہے اور آج کے دن کی مناسبت سے اس امر کی ضرورت ہے کہ حکمران اور سیاست دان سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر کشمیر کی جدوجہد آزادی کا ساتھ نبھانے کا عہد کریں اور کشمیری عوام کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا جذبہ کبھی سرد نہ ہونے دیں۔ معروضی مخدوش سیاسی حالات اور دہشت گردی کی فضا میں قومی اتحاد مزید ضروری ہوگیا ہے۔ کشمیر کی آزادی ہی ہماری بقاء کی ضمانت ہے اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا ماٹو تکمیل پاکستان کی علامت ہے۔ آج یوم یکجہتی کشمیر اس جذبے کے ساتھ منایا جائے کہ کشمیری عوام کی آزادی کی منزل یقینی ہو جائے۔