سبھی جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں پانچ فروری کو ’’ یوم یکجہتی کشمیر‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس موقع پر پاکستان آزاد کشمیر ، مقبوضہ کشمیر اور دنیا کے سبھی حصوں میں مقیم پاکستانی اس عزم کو دہراتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کی سیاسی اور اخلاقی حمایت مسلسل جاری رکھیں گے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ یاد رہے کہ پہلی بار پانچ فروری 1990 کو جماعت اسلامی پاکستان کے اس وقت کے امیر ’’قاضی حسین احمد‘‘ (مرحوم) کی اپیل پر فیصلہ کیا گیا کہ ’’پانچ فروری‘‘ کو ’’کشمیر ڈے ‘‘ کے طور پر منایا جائے ۔ اسی کے نتیجے میں تب سے اس موقع پر پاکستان اور کشمیر کے عوام ریلیاں،جلوس، جلسے منعقد کر کے ایک دوسرے سے اپنی جذباتی وابستگی اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور اس عہد کا اعادہ کیاجاتا ہے کہ اس دیرینہ تنازعہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے گا اور اس ضمن میں پاک حکومت، عوام اور معاشرے کے سبھی طبقات اپنا اخلاقی، سفارتی فریضہ نبھائیں گے۔
دوسری جانب گذشتہ روز افغانستان کے وزیرداخلہ ’’ویس برمک‘‘ اور افغان خفیہ ایجنسی NDS کے چیف ’’معصوم ستنکزئی‘‘ پاکستان آئے۔ اس معاملے کا جائزہ لیتے ماہرین نے کہا ہے کہ افغانستان پر قابض امریکی افواج نے پچھلے سولہ سال میں افغان عوام اور اس کے سبھی اداروں کا جو حشر کیا ہے وہ افغان تاریخ کا ایسا باب ہے جس پر غالباً وہاں کے عوام و خواص میں شاید ہی کسی کو فخر کا احساس ہوتا ہو۔ اس پر طرہ یہ کہ دہلی کی معاونت سے کابل انتظامیہ نے ماضی قریب میں افغانستان وہ حالت بنا دی کہ وہ ایک لحاظ سے عبرت کا نشاں بن کر رہ گیا ہے مگر بات یہیں تک محدود رہتی تو شاید غنیمت ہوتا مگر بھارتی خفیہ اداروں ’’را‘‘ اور ’’انڈین آئی بی‘‘ کی شازشوں اور NDS کی کارستانیوں کے نتیجے میں یہ خطہ ارض ٹرمپ، مودی اور اشرف غنی کے گٹھ جوڑ کی جولان گاہ بن کر رہ گیا ہے ۔حالانکہ پاکستان نے افغان عوام کی خاطر قربانی اور ایثار کی جو تاریخ رقم کی جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں البتہ اسے افغانستان کی بد قسمتی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کی تمام تر کوششوں کا ثمر اسے یہ دیا جا رہا ہے کہ دہلی کے ایما پر ایک جانب سی پیک کے خلاف سازشوں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف بلوچستان، فاٹا اور کراچی سمیت پاکستان کے کئی علاقوں میں بھارتی دہشتگردی کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے اور وطن عزیز کی بابت ہر قسم کی کہانیاں اور افسانے تراشے جا رہے ہیں۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ افغانستان درج ذیل صوبوں بدخشاں، بدغیث، بغلان، بلخ، بامیان، دیکندی، فارہ،فریاب، غزنی، غور، ہلمند، ہرات، جوزان، کابل، قندھار، قپیسا، خوست، کُنار، قندوز، لغمان، لُگار، میدان ورداک، ننگرہار، نمروز، نورستان، پکتیہ، پاٹیکہ، پنچ شیر، پروان، سمنگن، سرِ پول، تکھر، اُروزگن اور زابل پر مشتمل ہے ۔ یہ امر خصوصی طور پر غور طلب ہے کہ افغانستان جیسے نسبتاً چھوٹے ملک میں کابل میں واقع بھارتی سفارتخانے کے علاوہ چار قونصل خانے موجود ہیں جو کہ قندھار، جلال آباد، مزار شریف اور ہرات میں واقع ہیں۔ مبصرین کے مطابق ان قونصل خانوں کی تعداد سے ہی پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے قیام کا بنیادی مقصد پاکستان میں بدامنی کو ہر ممکن ڈھنگ سے فروغ دینا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ امریکہ جیسے وسیع و عریض ملک میں بھارت کے محض پانچ قونصل خانے ہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں تو پانچ قونصل خانوں کی سمجھ آتی ہے مگر افغانستان جیسے چھوٹے ملک میں جس کے بھارت کے ساتھ نہ کوئی تجارتی روابط اس سطح کے ہیں کہ وہاں چار چار قونصل خانوں کی ضرورت محسوس ہو، تو پھر آخر ان قونصل خانوں کی موجودگی اپنے آپ میں سوالیہ نشان ہے۔ اس معاملے کو قدرے تفصیل سے بیان کرتے سیاسی اور سفارتی حلقوں نے کہا ہے کہ یوں تو اس کھلے راز سے سبھی آگاہ ہیں کہ مودی نے حلف اٹھانے کے محض چوبیس گھنٹوں کے اندر اپنے پہلے حکم میں اجیت ڈڈوال کا نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کے عہدے پر تقرر کیا جو انڈین انٹیلی جنس بیورو کے چیف کے طور پر ریٹائر ہوئے اور فخریہ طور پر پاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری کا اعتراف کرتے ہیں ۔پھر ڈووال نے ’’سید آصف ابراہیم ‘‘کو افغانستان اور ایران کیلئے مودی کا معاون خصوصی بنایا۔ اس سے قبل آصف ابراہیم انڈین آئی بی کے چیف کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور ان کی سپیشلائزیشن افغانستان اور ایران میں اپنے مہرے تلاش کرنا اور انھیں تربیت دے کے ’’بھارتی اثاثوں‘‘ میں تبدیل کرنا ہے۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ بھارتی دہشتگرد کلبھوشن یادو بھی اسی کے ’’ذرخیز ذہن‘‘ کی پیدوار ہے۔ خدا وطن عزیز کو ایسی دہشتگردانہ ذہنیت کے حامل گروہوں اور شخصیات کے شر سے محفوظ رکھے۔ (آمین)