’’ہیلو!ہیلو!!ہیلو!!! اس کا نام سعدیہ شیخ ہے، عمر 18 سال اورتعلق ریاست مہاراشٹر کے شہر پونا سے ہے، یہ تقریب میں حملہ کرنے والی ہے، لہذا دانشمندی کا تقاضا ہے کہ تقریب کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کردیا جائے‘‘یہ کشمیر پولیس کے سربراہ منیر خان کے الفاظ ہیں ، پولیس سربراہ کی جانب سے ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا تھا، یہ وارننگ 26 جنوری کے حوالے سے تھی اوراس دن مودی سرکار نے یوم جمہوریہ منانا تھا، کشمیر میں یہ تقریب ہر سال بخشی سٹیڈیم میں منائی جاتی ہے، اس سال بھی پرگرام یہی تھا لیکن سٹیٹ پولیس کی جانب سے یہ وارننگ جاری کر دی گئی اور اس کے ساتھ ہی تقریب وہاں سے امرسنگھ کلب منتقل ہوگئی۔کشمیر پولیس کے سربراہ منیر خان کے مطابق اِن تقریبات کا انعقاد ایک چیلنج تھا، اس الرٹ کے بعد پورے سرینگر کو ایک دن قبل ہی سیل کر دیا گیا اور امرسنگھ کلب گراؤنڈ کے گرد تین کلو میٹر کے دائرے کی ناکہ بندی کر دی گئی،کشمیر میں فون، انٹرنیٹ اور شاہراہوں سے گزرنے پر پابندی لگا دی گئی،حریت پسند رہنماؤں، سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کو گھروں یا جیلوں میں نظر بند کر دیا گیا تھالیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی ترنگا لہرانا ممکن نہ ہوا۔
جوں جوں یوم یکجہتی آزادی کشمیر کا دن قریب آتا ہے توں توں انڈیا کے ظلم وستم میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے، جوں جوں اس ظلم وستم میں اضافہ ہوتا ہے توں توں کشمیریوں کا جذبہ آزادی فروغ پاتا ہے،کشمیریوں کا لہو رنگ دکھا رہا ہے، اس بار بھی یہ اقدامات اسی آواز کو دبانے کی کوشش میں کئے گئے تھے لیکن بسا آرزوکہ خاک شدہ، دنیا کے تمام دانشوراس بات پر متفق ہیں کہ جیلیں اور نظر بندیاں جسموں کو تو پابند کر سکتی ہیں لیکن سوچ اور نظرئیے کو قید نہیں کیا جا سکتا لیکن بھارت کے بزرجمہر شاید اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا شاید وہ بلی کو سامنے دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھنا چاہتے ہیں، بھارت کے یوم جمہوریہ پر پوری وادی جیل کا منظر ضرور پیش کر رہی تھی لیکن کشمیریوں کی دل کی آواز پوری دنیا میں مظاہروں کی شکل میں گونج رہی تھی، بھارتی سکرینیں تاریک تھیں لیکن غیر ملکی میڈیا ان مظاہروں کو دکھاتا رہا، برطانیہ اٹلی امریکہ، بلجیئم کے شہر برسلز اور کئی دیگر ممالک میں کشمیر کی آزادی کے نعرے لگتے رہے،، لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے مظاہرین نے مقبوضہ کشمیر اور مشرقی پنجاب میں بھارتی مظالم کی مذمت کی اور کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے لگائے، برٹش فرینڈز آف کشمیر کی جانب سے فری کشمیر کی مہم کا آغاز بھی ہواجس کا نعرہ’’ بھارت کشمیر چھوڑ دو‘‘ہے ،پاکستان یورپ دوستی فیڈریشن کے زیر اہتمام بلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں ایک کار ریلی نکالی گئی جو برسلز کی مشہور یادگار آٹومیئم سے شروع ہو کر برسلز اسکوائر پر اختتام پذیر ہوئی جس میں بیرون ملک مقیم کشمیریوں کے علاوہ سکھ، شودر، انسانی حقوق کے کارکنان نے شرکت کی، شرکاء نے اپنی گاڑیوں پرآزاد آسام،آزاد خالصتان، مقبوضہ کشمیر کی آزادی، اقلیتوں پر ظلم و بربریت بند کرو والے پوسٹر اٹھا رکھے تھے، یہ اپنی نوعیت کی پہلی ریلی تھی جس کا مقصد عالمی سطح پر بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کرنا تھا،اٹلی بریشیا میں حسبِ سابق اس سال بھی کشمیری بھایوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے پاکستانی کمیونٹی کی نماندہ تنظیمات نے ایک بہت بڑا احتجاج آرگنائز کیا ہے وہاں فری کشمیر پبلسٹی مہم کا آغاز کیا گیا، جس میں پبلک ٹرانسپورٹ کی مختلف روٹس پر چلنے والی بسوں پر فری کشمیر کے اشتہارات آویزاں کیے گئے، فری کشمیر، فری خالصتان اور فری ناگا لینڈ مہم یورپ کے بعد امریکہ بھی پہنچ گئی، واشنگٹن کی سڑکوں پر فری کشمیر کے نعروں سے سجی گاڑیاں امریکی شہریوں کی توجہ کا مرکز بنی رہیں، واشنگٹن میں ہندوستانی سفارتخانے کے باہر پاکستانی و کشمیری کمیونٹی نے مظاہرہ بھی کیا۔ بھارت توکشمیر میں تحریک کو دبانے کی کوشش کررہاتھالیکن اب اسے ناگا لینڈاورخالصتان کی تحریکوں کا سامنابھی کرنا پڑ رہاہے، بھارت سرکار ابھی تک دنیاکوکشمیر کے معاملے پربھی مطمئن نہ کرپائی تھی کہ اسے دیگرعلیحدگی پسند تحریکوں کا جواب بھی دینا پڑرہاہے، دنیا کا دانشوریہ گتھی سلجھانے میں ناکام ہے کہ خود اقوام متحدہ جاکر استصواب رائے کی درخواست کرنے والا انڈیا کیوں اس معاملے سے بھاگ رہا ہے ؟کشمیر میں اب تک انڈیا کے زیرسایہ 47000 لوگ مارے جاچکے ہیں، اس تعداد میں لاپتا افراد شامل نہیں ہیں، زخمی اور معذور ہونے والوں کی تعداد اس سے سوا ہے ،لاکھوں کی تعداد میں مسلح افواج اور نہتے کشمیری لیکن لوگوں کے دلوں سے آزادی کا ترنگ نکالی جا سکی اورنہ ہی ترنگے کا لہرانا ممکن ہوسکا، انڈیا کوآخر سوچنا پڑے گا کہ اپنی ہی حکومت میں اپنے ہی زیرانتظام علاقے میں اپنی ہی فوج کی سیکیورٹی میں اپنی ہی ایک تقریب کو بخشی سٹیڈیم سے کیوں منتقل کرنا پڑا؟کشمیر میں تو مظاہروں کی پاکستان کے کھاتے ڈال کر عوام کو لولی پاپ سنایا جاتا تھا لیکن ناگا لینڈ،آسام ، بنگال اورخالصتان کی تحریکوں کو کس کے کھاتے ڈالا جائے گا؟ وہاں کے مظاہرین کو کیونکر پاکستانی درانداز ظاہرکیا جائے گا؟ بسا اوقات لوگوں کو دکھ درد بھی ایک صفحے پر لے آتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت میں آزادی کی دیگر تحریکوں اور مظلوموں نے اپنا وزن کشمیر یوں کے پلڑے میں ڈال دیا ہے ،کشمیر یوں کے مظاہروں کو اسلامی دہشت گردی کا نام دینے والا انڈیا اپنے عوام کے مظاہروں کو کیا نام دے گا؟
جوں جوں یوم اظہاریکجہتی قریب آتا ہے سرحد پار سے گولہ باری کا طوفان زور پکڑ لیتا ہے ،6 روز قبل بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس اور پاک رینجرز کے درمیان فلیگ میٹنگ میں یہ طے پایا تھا کہ ایل او سی پر کوئی اشتعال انگیزی یا جارحیت نہیں کی جائیگی تاہم یقین دہانی کے باوجود بھارتی فوج فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلسل شہری آبادی کو نشانہ بنا رہی ہے تاکہ یوم اظہار یکجہتی سے دنیا کی توجہ ہٹائی جاکسے لیکن بھارت سرکارسن لے ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا‘‘۔