ہائیکورٹ: 2 مجرموں کی 7,7 بار سزائے موت برقرار‘ 4 کی پھانسی کالعدم
لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائی کورٹ نے 7 افراد کو قتل کرنیوالے 2 مجرموں کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزائے موت کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو بحال رکھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے گزشتہ روز کیس کی سماعت کی۔ سزائے موت کے دو مجرموں ذوالفقار اور فدا کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ استغاثہ کی کمزور شہادتوں اور ناکافی ثبوتوں کے باوجود انسداد دہشت گردی عدالت نے اپیل کنندگان کو سزائے موت سنائی۔کمزور شہادتوں کے باوجود سزائے موت دینا انصاف کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ دونوں افراد کے خلاف ٹھوس شواہد اور گواہ موجود ہیں۔انسداد دہشتگردی عدالت نے قانون کے مطابق فیصلہ دیا لہٰذا فاضل عدالت اپیل کو خارج کرے۔ فاضل عدالت نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اپیل مسترد کر دی۔ استغاثہ کے مطابق ذوالفقار اور فدا اور عباد علی نے 2009 میں شیخوپورہ سے گوجرانوالہ زیورات لے جانے والے آٹھ افراد پر فائرنگ کرکے یعقوب، اصغر، محمد رفیع اور امجد وغیرہ سمیت سات افراد کو قتل کر دیا تھا جس پر انسداد دہشت گردی عدالت نے 2010 میں تینوں مجرموں کو سات سات بار پھانسی کی سزا سنائی۔ مقدمے کا ایک ملزم عباد علی پہلے ہی جیل میں انتقال کر چکا ہے۔ مزید برآں ملتان سے سپیشل رپورٹر کے مطابق لاہور ہائیکورٹ ملتان کے ڈویژنل بنچ نے اغوا برائے تاوان اور قتل کے مقدمہ میں خصوصی عدالت سے 3,3 مرتبہ سزائے موت پانے والے چار ملزموں کی اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے ان کی سزائوں کو کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت عالیہ نے پھانسی کے فیصلہ کو ختم کرتے ہوئے چاروں کو بری کر دیا۔ ملزموں نے مدعی مقدمہ غلام مصطفیٰ کے 21 سالہ بیٹے عاطف مصطفیٰ کو اغوا کر لیا اور تاوان کے لئے دس لاکھ روپے طلب کئے اس دوران 7 لاکھ روپے وصول کر لئے مگر اس کے باوجود ملزموں نے عاطف کو قتل کر دیا انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر 2 ملتان نے ملزموں نوید پرویز ذیشان علی‘ حامد مسیح اور عابد طاہر کے خلاف جرم ثابت ہونے پر سزا سنائی تھی عدالت نے 21 مارچ 2009ء کو چاروں ملزموں کو 3,3 مرتبہ سزائے موت اور 13,13 سال کی قید اور چار لاکھ 60 ہزار روپے فی کس معاوضہ کی ادائیگی کا حکم سنایا ملزموں نے اپنی سزاؤں کے خلاف اپیلیں کی ان اپیلوں کو گزشتہ روز منظور کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے ملزموں کو بری کر دیا۔