سلمان تاثیر قتل کیس: مرتد ہونے کا تعین ایک سپاہی کیسے کرسکتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ توہین رسالت کے قانون کی موجودگی میں کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت دی جاسکتی ہے نہ گستاخ رسول کو قتل کرنے کا جواز پیش کیا جاسکتا ہے۔ خواجہ محمد شریف نے کہا ہے کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کیخلاف فرانس میں کارروائی کرنیوالے انکے ہیرو ہیں۔ جسٹس نور الحق قریشی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سلمان تاثیر قتل کیس میں ممتاز قادری کی سزائے موت کیخلاف اپیل کی سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے خواجہ شریف ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ ممتاز قادری نے پولیس کے دباﺅ میں آکر مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا کہ اس نے محرر کو کہہ کر خود سلمان تاثیر کے ساتھ سکیورٹی سکواڈ میں ڈیوٹی لگوائی کیونکہ وہ گورنر پنجاب کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا۔ ممتاز قادری نے جرح میں کہا تھا کہ اسکی ڈیوٹی معمول کے مطابق لگائی گئی تھی۔ ٹرائل کے دوران عدالت میں ایسی کوئی دستاویز پیش نہیں کی گئی جس سے ثابت ہو کہ ڈیوٹی روسٹر میں تبدیلی ہوئی تھی۔ خواجہ شریف نے کہا کہ ممتاز قادری کی سلمان تاثیر کے ساتھ کوئی رنجش، دشمنی یا چپقلش نہیں تھی۔ اس نے توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون کہنے اور شعائر اسلامی کا مذاق اڑانے والے مرتد کو مشتعل ہو کر قتل کیا کیونکہ گستاخ رسول کی سزا موت ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ ایک سپاہی اس بات کا کیسے تعین کرسکتا ہے کہ کون مرتد ہے، اسے کس نے یہ اتھارٹی دی؟ ملک کا ایک قانون ہے جسے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ درخواست گزار کے ایک اور وکیل میاں نذیر اختر نے دلائل میں کہا کہ ممتاز قادری نے اپنے جرم کا نہیں صرف اس عمل کا اعتراف کیا جو اس نے کیا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ کسی کو مارنے کا عمل اعتراف جرم نہیں تو اور کیا ہے؟ جسٹس نور الحق قریشی نے کہا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کے بجائے اس پر چلنا پڑتا ہے ۔ اگر آپکی بات مان لی جائے تو پھر ہر کسی کو مارنے کا لائسنس مل جائیگا۔ کوئی شخص دوسرے کو مار کر کہے گا کہ اس نے حضور اکرم کی شان میں گستاخی کی تھی، ہر آدمی اس بات کو بطور ہتھیار استعمال کریگا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا یہاں تو مذہب کے نام پر فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں، کل صلوٰة و سلام نہ پڑھنے یا سبز پگڑی نہ پہننے والے کو مار دیا جائیگا۔ اگرممتاز قادری کسی کو گستاخ رسول سمجھتا تھا توکیا اسے قانون کے کٹہرے میں لانے کیلئے کوئی درخواست دی؟ انسانی جان کی حرمت کو کعبہ کی حرمت سے زیادہ بیان کیا گیا ہے۔ جسٹس نورالحق قریشی نے کہا کہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ رمشا مسیح کیس میں بھی اس قانون کے غلط استعمال کی کوشش کی گئی تھی۔ کیس کی مزید سماعت 6 فروری کو ہوگی۔ اس موقع پر عدالت کے باہر سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔
سلمان تاثیر کیس