آج 5؍ فروری کو آزاد اور مقبوضہ کشمیر اور پاکستان بھر بشمول گلگت‘ بلتستان میں یوم یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں یہ دن سرکاری طور پر پورے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے چنانچہ آج ملک بھر میں عام تعطیل ہو گی اور کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار کیلئے مختلف سیاسی‘ دینی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے ریلیوں‘ مظاہروں‘ سیمینارز اور دوسری مختلف تقاریب کا اہتمام کیا جائیگا جبکہ قومی اخبارات آج یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے خصوصی ایڈیشن شائع کر رہے ہیں اور سرکاری و نجی الیکٹرانک میڈیا پر خصوصی پروگرام نشر اور ٹیلی کاسٹ ہونگے۔ دریں اثناء کشمیری شہداء کی یاد میں صبح 9 بجے ملک بھر میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائیگی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے کوہالہ کے مقام پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی جائیگی اور اسی طرح وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں بھی بڑی بڑی ریلیوں کے ساتھ انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔
یوم کشمیر کا پس منظر بھی قوم کے پیش منظر رہنا چاہیے۔ 1974ء میں کشمیر کی آزادی کے علمبردار شیخ عبداللہ دہلی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ وزیراعظم اندراگاندھی انکی تیمارداری کو گئیں‘ جہاں پہلے گلے شکوے ہوئے‘ بعد میں رازنیاز کی باتیں ہوئیں۔ شیخ عبداللہ صحت مند ہو کر کشمیر لوٹے تو آزادی کشمیر کے حوالے سے انکے اصولی اور سخت مؤقف پر اوس پڑ چکی تھی۔ طے شدہ منصوبے کے تحت مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں کشمیر اکارڈ پیش کیا گیا‘ اس سے قبل کانگرس کی ریاستی پارلیمانی پارٹی نے شیخ عبداللہ کو پارلیمانی لیڈر چن لیا تھا۔ اکارڈ پر دستخط ہونے کے بعد بھارت کی طرف سے دنیا میں یہ تاثر پھیلایا گیا کہ کشمیری برضا و رغبت بھارت کے ساتھ مل گئے ہیں۔ ایسی کوئی صورتحال کشمیریوں اور پاکستان کیلئے قابل قبول نہیں تھی۔ اس پر وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے دونوں اطراف کے کشمیریوں سے 28 فروری 1975ء کو ہڑتال کی اپیل کی جو پرامن منظم اور انتہائی کامیاب رہی۔ بعدازاں جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے گویا ذوالفقار علی بھٹو کی 1975ء کی ہڑتال کا احیاء کرتے ہوئے 5 فروری 1990ء کو یوم یکجہتی ٔکشمیر منانے کا سلسلہ شروع کیا جو آج تک قائم ہے اور کشمیر کی آزادی تک جاری رہنے کی امید ہے۔
کشمیری عوام نے گزشتہ 65 برس سے غاصب اور ظالم بھارتی فوجوں اور دوسری سیکورٹی فورسز کے جبر و تشدد کو برداشت کرتے‘ ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرتے اور متعصب بھارتی لیڈران کے مکر و فریب کا مقابلہ کرتے ہوئے جس صبر و استقامت کے ساتھ اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے‘ اسکی پوری دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں۔ اس خطۂ ارضی پر آزادی کی کوئی تحریک نہ اتنی دیر تک چل پائی ہے‘ نہ آزادی کی کسی تحریک میں کشمیری عوام کی طرح لاکھوں شہادتوں کے نذرانے پیش کئے گئے ہیں اور نہ ہی آزادی کی کسی تحریک میں عفت مآب خواتین نے اپنی عصمتوں کی اتنی قربانیاں دی ہیں‘ جتنی کشمیری خواتین اب تک ظالم بھارتی فورسز کے ہاتھوں لٹتے برباد ہوتے اپنی عصمتوں کی قربانیاں دے چکی ہیں۔
کشمیر کی آزادی کی تحریک انسانی تاریخ کی بے مثال تحریک ہے جس کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں مستقبل کی منزل بھی متعین ہے‘ اس تناظر میں کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی درحقیقت پاکستان کی تکمیل اور استحکام کی جدوجہد ہے جس کا دامے‘ درمے‘ قدمے‘ سخنے ہی نہیں‘ عملی ساتھ دینا بھی پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کی بنیادی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا جبکہ بانیٔ پاکستان قائداعظم نے کشمیر کی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور جب اس شہ رگ پر 1948ء میں بھارت نے زبردستی اپنی فوجیں داخل کرکے تسلط جمایا تو قائداعظم نے افواج پاکستان کے اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو دشمن سے شہ رگ کا قبضہ چھڑانے کیلئے کشمیر پر چڑھائی کرنے کا حکم بھی دیا جس کی جنرل گریسی نے اس جواز کے تحت تعمیل نہ کی کہ وہ برطانوی افواج کے سربراہ کے تابع ہیں اور انکی اجازت کے بغیر کشمیر کی جانب پیش قدمی نہیں کر سکتے۔ اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ کشمیر کا تنازعہ بھارت اور برطانیہ کی ملی بھگت سے پیدا ہوا جو درحقیقت پاکستان کو شروع دن سے ہی کمزور کرکے اسکے آزاد وجود کو ختم کرنے کی سازش تھی۔ بھارت اسی سازش کے تحت کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا مگر جب یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی الگ الگ قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور کشمیر میں استصواب کے اہتمام کا حکم دیا تو بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔ بھارتی جبر کے انہی ہتھکنڈوں نے کشمیر کی تحریک آزادی کو مہمیز دی اور آزادی کیلئے کشمیری عوام کی تڑپ کبھی سرد نہیں ہونے دی۔وہ اپنی آزادی کیلئے جو بھی ہو سکتا ہے‘ کر رہے ہیں۔ جانوں تک کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ دوسری طرف ہماری آج کی اور اسکی پیشرو پیپلزپارٹی کی حکومت کا رویہ افسوسناک رہا ہے۔ آمرانہ ادوار میں بھی مسئلہ کشمیر پر جرأت مندانہ اقدامات اور پالیسی سامنے نہیں آئی۔ جنرل پرویز مشرف طاقت کے زعم میں خود کو عقل کل بھی سمجھتے رہے۔ اسی گھمنڈ میں انہوں نے کئی لایعنی اور بے معنی حل پیش کئے۔
مشرف کے بعد پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کیلئے سرگرم رہیں اور دونوں پارٹیوں نے کشمیر کمیٹی کو ایک رشوت بنا دیا۔ پیپلزپارٹی کی طرح مسلم لیگ (ن) نے بھی ایک پارٹی کو ساتھ ملانے کیلئے کشمیر کمیٹی کی سربراہی اس پارٹی کے قائد کے نام کر رکھی ہے۔ حکومتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کیا جا رہا ہے‘ جبکہ بھارت مقبوضہ وادی پر اپنا قبضہ مزید مضبوط بناتا جا رہا ہے۔ آج کشمیری اور پاکستانی یوم کشمیر ان حالات میں منا رہے ہیں جب بھارت وادی کی خصوصی حیثیت بھی تبدیل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ بھارتی آئین کی دفعہ 370کی روسے بھارتی یونین میں ریاست جموں وکشمیر کی ایک خصوصی حیثیت تسلیم کی گئی ہے۔ 370اور دفعہ 35-Aکی رو شنی میں مہاراجہ کے سٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کو تحفظ دیا گیا ہے جس کی رو سے غیر ریاستی شہریوں کو قانونی طور پر نہ ریاست کی شہریت دی جا سکتی ہے اور نہ وہ جائیداد خرید سکتے ہیں اور نہ ہی ووٹر بن سکتے ہیں ۔ نریندر مودی کشمیر کے اسی تشخص کو ختم کرنے کے درپے ہیں‘ انہوںنے انتخابی منشور میں کشمیر کے حوالے سے دفعہ 370کو ختم کرکے اسکے بھارتی یونین میں مکمل ادغام کا اظہار کیااور ان مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے مقبوضہ ریاست کے حالیہ انتخابات میں جارحانہ انتخابی مہم لانچ کی۔مغربی پاکستان سے 1947ء میں منتقل ہونیوالی آٹھ لاکھ غیر مسلم کمیونٹی کے ساتھ ساتھ 90ء کی دہائی میں جگموہن کی تحریک پر تین لاکھ بے گھر پنڈت کمیونٹی جو جموں اور دہلی کی مختلف کالونیوں میں ہے‘ اسکی آبادکاری کیلئے ہندوستان کی وزارت داخلہ نے سفارشات مرتب کیں جنہیں حکومت قانون کی شکل میںنافذ کرنا چاہتی ہے۔ جس کی رو سے ایک طرف تو وادی میں پنڈتوں کی محفوظ بستیاںقائم کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے اور اسکے ساتھ ہی یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ خاص طو رپر جموں میں آٹھ لاکھ ہندوئوں اور سکھوں کو سٹیٹ سبجیکٹ تسلیم کیا جائے نیز ان کیلئے اسمبلی کی آٹھ نشستیں بھی وقف کرنے کا مطالبہ کیاگیا ہے ۔یہ مودی انتظامیہ کی کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کی ابتداء ہے جسے پاکستان کو ہر صورت ناکام بنانے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے۔ ایسے موقع پر کشمیر کمیٹی کے فعال کردار اور حکومت کے مسئلہ کشمیر پر سرگرم ہونے کی ضرورت ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آج یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر حکمران باضابطہ طور پر کشمیر کی جدوجہد آزادی کا ساتھ نبھانے کا عہد کریں اور کشمیری عوام کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا جذبہ کبھی سرد نہ ہونے دیں۔ کشمیر کی آزادی ہی ہماری بقاء کی ضمانت ہے اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا ماٹو تکمیل پاکستان کی علامت ہے۔ آج یوم یکجہتی کشمیر اس جذبے کے ساتھ منایا جائے کہ کشمیری عوام کی آزادی کی منزل یقینی ہو جائے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024