کل رات بابا ٹلّ میرے خواب میں آئے تو انہوں نے اپنے گلے میں لٹکا ہُوا ٹلّ تِین بار بجایا۔ لیکن وہ میرے ڈرائنگ روم میں اپنے لئے مخصوص صوفے پر بیٹھنے کے بجائے کھڑے رہے اور بولے ’’باہر آئیں۔ میرے ساتھ میرے ایک دوست بھی ہیں۔ آپ اُ ن کا استقبال کریں!‘‘
مَیں:۔ کون سے دوست ؟
بابا ٹَلّ:۔ ’’آپ پہلے اُن سے مِل چُکے ہیں۔ میری طرح وہ بھی آپ کے خواب میں آئے تھے۔ اُن کا نام ہے ’’علی بابا‘‘ بُغداد کے علی بابا ٗ جنہوں نے 40 چوروں کا خزانہ چوری کر کے اُس سے غریبوں کے لئے لنگر جاری کر دِیا تھا۔ وہی علی بابا جِن کی بہادری کی کہانیاں مشہور ہیں اور اُن کے کارناموں پر کئی فِلمیں بھی بن چُکی ہیں۔ یاد آیا؟‘‘
مَیں:۔ جی ہاں! مجھے یاد آ گیا۔ علی بابا ایک بار میرے خواب میں آئے تھے اور 5 ستمبر 2012ء کو ’’علی بابا سے گپ شَپ‘‘ کے عُنوان سے ’’نوائے وقت‘‘ میں میرا کالم بھی شائع ہُوا تھا۔ آئیں اُن کا استقبال کرتے ہیں۔ پھر باہر آ کر مَیں نے اور بابا ٹَلّ نے اُن کا استقبال کِیا۔ بغل گِیر ہُوئے۔ علی بابا اپنا روایتی ’’Costume‘‘ پہنے ہُوئے تھے (وہی جو فِلموں میں دِکھایا جاتا ہے)۔ اُن کے قریب ایک گدھا بھی کھڑا تھا۔ مَیں نے علی بابا سے پُوچھا کہ آپ یہ گدھا بھی اپنے ساتھ لائے ہیں؟
علی بابا:۔ اثر چوہان صاحب! یہ گدھا نہیں گدھوں کا سردار ہے۔ 39 گدھوں کا سردار میرا پُرانا ساتھی اور میرا دِلبر جانی۔ آپ نے میری کہانی میں پڑھا ہو گا کہ جب مَیں نے بُغداد شہر سے باہر 40 چوروں کا خزانہ چوری کِیا تھا تو میرے ’’دِلبر جانی‘‘ کی قیادت میں ہی اِس کے 39 ساتھی گدھوں نے وہ خزانہ میری حویلی میں پہنچایا تھا۔‘‘
مَیں:۔ آپ کے دِلبر جانی کے 39 ساتھ کہاں ہیں؟
علی بابا:۔ ’’آپ کی حکومت نے میری درخواست پر اُن کے لئے ’’Fool Proof‘‘ سکیورٹی کا بندوبست کر دِیا ہے۔ اِس لئے کہ آپ کے مُلک میں گدھے چوری کر کے اُن کی کھالیں اُتار لی جاتی ہیں اور گدھوں کا گوشت گائے اور بھینس کے گوشت میں مِلا کر فروخت کر دِیا جاتا ہے۔ مَیں نہیں چاہتا کہ ’’چوروں کے لئے مور‘‘ ثابت ہونے والے میرے دِلبر جانی اور اِس کے 39 ساتھیوں کو چوری کر کے اِن کی کھال اُتار لی جائے اور اُن کا گوشت قصابوں کی دکانوں پر فروخت ہو۔ آپ میرے دِلبر جانی کو اپنے گیراج میں بندھوا دیں اور اِس کی خاطر تواضع کا بھی بندوبست کر دیں۔‘‘ مَیں نے دِلبر جانی کو گیراج میں بندھوا کر اُس کی خاطر تواضع کا بندوبست کر دِیا۔ اُس کے بعد میرے ڈرائنگ رُوم میں بابا ٹَلّ اور علی بابا سے ہونے والی بات چِیت کُچھ یُوں تھی۔
مَیں:۔ علی بابا جی! آپ کی تشریف آوری کا مقصد؟
بابا ٹَلّ:۔’’اثر چوہان صاحب! مَیں آپ کو بتاتا ہُوں ایک تو علی بابا جی آپ کا شُکریہ ادا کرنے آئے ہیں کہ 11 مئی کے عام انتخابات سے قبل خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف (اُن دِنوں صدرِ پاکستان) جناب آصف زرداری کا نام لئے بغیر کہا کرتے تھے کہ ’’مَیں علی بابا اور 40 چوروں سے قوم کی لُوٹی ہُوئی دولت وصُول کرنے کے لئے انہیں سڑکوں پر گھسِیٹوں گا‘‘ لیکن جب آپ نے اپنے کالم میں لِکھّا کہ ’’علی بابا ‘‘ نے تو 40 چوروں کی دولت چوری کر کے غریبوں کے لئے لنگر کھول دِیا تھا تو خادمِ اعلیٰ نے کہنا شروع کر دِیا تھا کہ ’’مَیں ’’زَر بابا‘‘ اور40 چوروں سے لُوٹی ہُوئی دولت وصُول کرنے کے لئے انہیں سڑکوں پر گھسِیٹوں گا۔‘‘ علی بابا جی نے خادمِ اعلیٰ کا بیان آنے پر بذریعہ ایس ایم ایس اُن کا شکریہ بھی ادا کر دِیا تھا۔‘‘
علی بابا:۔ ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ خادمِ اعلیٰ نے ’’زَر بابا اور 40 چوروںکو سڑکوں پر کیوں نہیں گھسیٹا؟ اِس لئے کہ وہ میٹرو بس، پُلوں اور دوسرے رفاہِ عامہ کے منصوبوں کی تکمِیل میں مصرُوف ہیں۔ مَیں تو یہ عاجزانہ پیشکش لے کر آیا ہُوں کہ برادر مُلک پاکستان میں جہاں جہاں قومی دولت لُوٹنے والے 40 چور موجود ہیں، وزیرِاعظم اُن کا خزانہ چوری کرنے کا ’’Task‘‘ مجھے دے دیں۔ مَیں وہ خزانہ پاکستان کے قومی خزانے میں جمع کرا دُوں گا لیکن میری دو شرطیں ہیں!‘‘
مَیں:۔ دو شرطیں؟ وہ کیا؟
علی بابا:۔’’ایک تو یہ کہ حکومتِ پاکستان میرے دِلبر جانی اور اُس کے 39 ساتھیوں کی جان کی حفاظت کی گارنٹی دے اور دوسری یہ کہ میرے عزیز دوست بابا ٹَلّ کو پنجاب کا گورنر بنا دِیا جائے۔ بابا ٹَلّ کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اِن کے پاس اپنے لڑکپن کے دوست طاہر اُلقادری کی طرح کینیڈین اور القادری صاحب کے مُنہ بولے بھائی جناب الطاف حسین کی طرح برطانوی شہریت نہیں ہے۔‘‘
مَیں:۔لیکن میرا تو حکومت میں کوئی عمل دَخل ہی نہیں۔ مَیں تو کچھ بھی نہیں کر سکتا۔
علی بابا :۔ ’’کیوں نہیں کر سکتے؟ آپ اپنے کالم میں بابا ٹَلّ جی کی خُوبیاں بیان کریں۔ جنابِ وزیرِ اعظم کی کِچن کیبنٹ کا کوئی نہ کوئی رُکن آپ کے کالم کو پڑھ کر جناب وزیرِاعظم سے بابا ٹَلّ کی سفارش کر سکتا ہے۔ مَیں آپ کو یقین دِلاتا ہُوں کہ بابا ٹَلّ جی آئینی حدُود میں رہیں گے ٗ خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور اُن کے صاحبزادے جناب حمزہ شہباز کے حُکم کے مطابق چلیں گے اور تنخواہ بھی نہیں لیں گے۔‘‘
مَیں:۔ اور آپ کے دِلبر جانی اور اُس کے 39 گدھوں کی سکیورٹی کا معاملہ؟
بابا ٹَلّ:۔ ’’جب وزیرِاعظم مجھے گورنر پنجاب بنا دیں گے تو مَیں اُن سے بات کر کے علی بابا جی کے دِلبر جانی اور اُس کے 39 ساتھیوں کی سکیورٹی کا بندوبست کروا لُوں گا۔‘‘
مَیں:۔ بابا ٹَلّ جی! آپ کو گورنر پنجاب بننے کا خیال کیسے سُوجھا؟
بابا ٹَلّ:۔ ’’اثر چوہان صاحب! آپ سے کیا پردہ؟ پنجاب کے سابق گورنر میاں محمد اظہر میرے دوست ہیں۔ انہوں نے ہی مجھے یہ مشورہ دِیا تھا کہ ’’آپ گورنر پنجاب بن کر قوم کی خِدمت کریں۔‘‘
مَیں:۔ میاں محمد اظہر؟ لیکن اُن سے آپ کی دوستی کیسے ہو گئی؟
بابا ٹَلّ:۔ ’’میرا سَنت نگر لاہور میں کھوکھا تھا جہاں میں اُبلے ہُوئے دیسی انڈے فروخت کِیا کرتا تھا۔ علّامہ طاہر اُلقادری نے میاں محمد اظہر سے میرا تعارف کرایا تھا۔ میاں صاحب گورنر پنجاب کی حیثیت سے رات کے اندھیرے میں سَنت نگر آ کر مجھ سے انڈے خریدا کرتے تھے۔ مَیں اُنہیں 50 فی صد ڈِسکائونٹ بھی دے دِیا کرتا تھا۔‘‘
مَیں:۔ بابا ٹَلّ جی! فرض کِیا کہ جناب ِوزیرِاعظم آپ کو گورنر پنجاب بنا دیں تو آپ گورنر کی حیثیت سے اپنے گلے میں ٹَلّ تو نہیں لٹکا سکیں گے اور نہ ہی اُسے بجا سکیں گے۔ پھر آپ کو لوگ بابا ٹَلّ بھی نہیں کہیں گے۔ آپ کی تو شناخت ہی ختم ہو جائے گی؟
بابا ٹَلّ:۔ ’’میری شناخت میرے پیارے پاکستان سے ہے۔ مَیں اپنا ٹَلّ اور ٹَلّ بجانے والی لکڑی کی ہتھوڑی اپنے دوست نامور گلوکار ابراراُلحق کو تُحفے کے میں دے دُوں گا۔ محترم عمران خان جب بھی محترمہ ریحام خان کو اپنے ساتھ لے کر بنی گالہ میں اپنے گھر سے اپنی گاڑی میں باہر نکلیں گے تو بھائی ابراراُلحق جنابِ عمران خان کی گاڑی کے آگے اپنی گاڑی میں کھڑے ہو کر اور اپنے گلے میں لٹکا ٹَلّ بجا بجا کر ’’آجا ٗ آ بہہ جا گڈّی تے آ جا آ بہہ جا گڈّی تے!‘‘ کا گِیت گائیں گے تو راہ گِیر یہ سمجھ کر کہ کوئی ایمبولینس آرہی ہے ٗ عمران خان اور اُن کی بیگم کی گاڑی کے لئے راستہ چھوڑ دیں گے۔‘‘
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38