لاکھوں کشمیریوں کی زندگی اجیرن بن چُکی ہے۔ اپنے گھر میں یہ بے گھری کی زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ یہ تو تاریخی سچائی ہے کہ پاکستان بننے کے وقت اہل کشمیر کا سیاسی میلان کچھ اور تھا ۔ اُس وقت کی کانگرسی قیادت کشمیریوں کی خواہشات کو جبر، دھونس، دھاندلی، مکرو ترغیب کے ہر انداز سے کُچلنے اور اغوا کرنے کا فیصلہ کرچکی تھی۔ فرنگی ہاتھ ہنود کے سر پر تھا۔ بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہوئیں۔ قبائل آزاد کشمیر کی جانب پیش قدمی کرتے چلے گئے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ جنگ ہوئی۔ اُس وقت پاکستان کی عمر صرف ڈیڑھ سال تھی۔ کیا مُلکوں کی تاریخ میں کسی نوزائیدہ ملک کے ساتھ ایسا ہوا ہے؟ پھر یہ تماشہ بھی ہوا کہ بھارت خود بھاگا بھاگا اقوام متحدہ گیا۔ وزیر اعظم نہرو نے یہ وعدہ کیا کہ وہ کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دیں گے۔ اقوام مُتحدہ نے جنوری 1949 ء میں متفقہ قرار داد منظور کی جس میں پاکستان اور بھارت کی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا گیا کہ کشمیری عوام کی رائے معلوم کرنے کے لئے بین الاقوامی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے گی۔
بھارت کی طرف سے شیخ عبداللہ اور آزاد کشمیر کی جانب سے سردار ابراہیم پیش ہوئے تھے اقوام متحدہ کی تاریخ مین اتنا مضبوط مقدمہ اتنی بڑی اخلاقی برتری کے ساتھ کسی اور قوم کے پاس ہے؟ اس متفقہ قرار داد پر عمل کرانے کے لئے خون کا اتنا بڑا نذرانہ کہ کشمیر دھرتی لہو رنگ ہو گئی ہے۔ یہ قراردادیں کشمیریوں کی زندگی کا محور ہیں۔ اور ان کی حمائت کرنا ہر پاکستانی کا ایمان اور عقیدہ ہے۔ 5۔فروری ہمارا ایک ایسا قومی دن ہے کہ جب ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کیا گیا عہد دہراتے ہیں تاکہ ہم اپنے نوجوانوں اور جوان ہونے والی نسل کو ذہن نشیں کرا سکیں کہ وہ کس عقیدے کے وارث ہیں۔ اور یہ بھی سمجھا دیں کہ ہم بھارت کے وجود کو مانتے ہیں لیکن اس کے مزاج، ذہنیت اور منفی روّیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ کیونکہ جب تک بھارت اور بھارتی قیادت کی سوچ و فکر اور عمل میں تبدیلی نہیں آئے گی تب تک اس خطے میں دیر پا اور پائیدار امن قائم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آج کے دن دنیا پر یہ بھی واضح کردیں کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کوئی فرمائشی شو نہیں ہے جو کسی کی امداد یا این جی او کے ڈالروں پر چل رہا ہو۔ اور نہ ہی یہ ایسی تحریک ہے کہ جو کسی کے اشارے پر تھم جائے گی۔ تحریکوں میں وقت کے ساتھ ساتھ اُتارچڑھائو آتا رہتا ہے۔ لیکن آخر کار فتح حق کی ہی ہوتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں واقع میلوں لمبے شہدا کے قبرستان اس تحریک کے مالک ہیں شہدا کی مائیں۔ بہنیں، بیٹیاں، بے گناہ خواتین کی عصمتیں، بچیوں کی عزتیں، بزرگوں کے زندہ لاشے، نوجوانوں کے اپاہج بدن اس تحریک کے مدعی ہیں۔ یہ مقدمہ نسل درنسل منتقل ہو رہا ہے۔ ان کا واحد قصور یہ نعرہ قلندرانہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کرایا جائے۔
بھارتی سورما ان کے ملزم و مجرم ہیں کشمیری اپنے خون میںنہا کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ یہ آگ کے دریا میں تیر رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ کسی قوم کے حق میں فیصلہ ہو چکا ہو لیکن پچھلے 65 سال سے اس فیصلہ پر عمل ندارد ۔
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ قوموں پر اچھے بُرے وقت آتے رہتے ہیں۔ ہمیں قطعاً گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ نے بھارت کے سرپر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ کیا امن کی قیمت یہ چکائی جائے کہ ہم کشمیر سے منہ موڑ لیں۔چین کو الگ و محصور کردیں اور جنوبی ایشیا میں بھارت کی بالادستی کو تسلیم کر لیا جائے؟ ہم بھی مانتے ہیں کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تین بار ہم ایک دوسرے سے دست گریبان ہو چکے ہیں۔ ہمارا ایک بازو یہ مروڑ چکا ہے۔ تو یہ اب کب چاہے گا کہ پاکستان اس کی برابری کرے۔ بات چھوٹے اور بڑے ملک کی نہیں بات اپنی انا، غیرت روایات، تاریخ خودداری اور خود کو پہچاننے کی ہے۔
سادہ اور سیدھی بات یہ ہے کہ اگر ہم کو فلسفہ شہادت سے عشق نہ ہوتا اور ہمیں ایٹمی طاقت ہونے کی نعمت خداوندی حاصل نہ ہوتی تو ہم کب کے دشمنوں کی چالاکی کا شکار ہو چکے ہوتے۔ یہ ہمارے کہوٹا کے درد میں مبتلا ہیں ان کو نہ دن کا چین نصیب ہے اور نہ رات کی نیند۔
30 ستمبر 2014 کو اوباما مودی ملاقات کے بعد ہی بھارت نے ہمارے خلاف اشتعال انگیز کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا جو آج دن تک وقفے وقفے سے جاری ہے۔ اسکے باوجود کہ اب پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی بقا کی جنگ قرار دے چکا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز آپریشن کیا جارہا ہے۔ لیکن سکولوں میں ہمارے بچے مارے جارہے ہیں عبادت گاہوں میں ہمارے نمازی حالت نماز میں لہو لہان ہو رہے ہیں، بلوچستان میں معصوم جانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ ہماری قوم صبر کے ساتھ اپنوں کے جنازے اٹھا رہی ہے۔ ہماری فوج کے افسروں اور جوانوں نے اپنی جوانیوں کی قربانی دے کر عالمی سطح پر واضح پیغام دیا ہے کہ ہم دنیا کے ساتھ رہنا، چلنا اور بسنا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی صف میں نمایاں کھڑے ہیں لیکن پھر بھی پاکستان کو مختلف انداز کے الزامات کا سامنا ہے۔
ہمارے امیج کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ بھارت میں اس وقت 33 سے زائد دہشت گرد تنظیمیں سرکار کی نگرانی میں مسلمانوں اور دوسری تمام اقلیتوں کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ روز اول سے ہی ہمارا وجود شہتیر بن کر بھارت کی آنکھ میں چبھ رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس کا انتخابی ڈھونگ بھارت کے منہ پر گرد ڈال گیا ہے۔ یہ کشمیر میں خاک چاٹ رہے ہیں۔ کشمیری شہداء کا خون تو مسلمانوں پر قرض ہے۔ انشاء اللہ وہ دن کشمیری بھی دیکھیں گے اور پوری دنیا کے مسلمان یہ قرض ادا کرکے اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہونگے۔
دنیا جان لے اور ہم مان لیں کہ پاکستان اوربالخصوص اس کی مسلح افواج کیلئے زیادہ خطرناک وقت گزر گیا ہے۔ پاکستان کے بدخواہ اور دشمن جو بھی ہیں وہ نامراد رہیں گے۔ بدنامی اور بے توقیری ان کا مقدر ہے۔
ہم کشمیری بھائیوں کے ساتھ تھے، ہیں اور رہیں گے۔ مسئلہ کشمیر کا حل وہ نہیں ہوگا جو بھارت پسند کریگا اور نہ پاکستان اپنا کوئی فارمولا تھوپنا چاہتا ہے۔ اس مسئلے کا حل وہی ہے جو اقوام متحدہ کی قراردوں میں موجود ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024