26 واں یوم یکجہتی کشمیر
سلطان سکندر
’’ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے‘‘ مصداق کشمیری نژاد وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے تیسرے دور وزارت عظمی میں آج جمعرات 5 فروری کو 26 واں یوم یکجہتی کشمیر دوسری بار ایسے حالات میں منایا جا رہا ہے جب امریکی صدر اوباما کے دورہ بھارت کے دوران بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے، سویلین نیوکلیئر شعبے اور دہشت گردی کے خاتمے میں تعاون کے اعلانات کی سیاہی خشک نہیں ہوئی جس پر بھارتی ’’وزیر اعظم نریندر مودی پھولے نہیں سمارہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے مظالم میں اضافہ ہو گیا ہے اور بھارتی وزیر اعظم کے دوروں کے دوران وہاں کے عوام اور آزادی پسند قیادت نے کھل کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے ۔ 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے وقت دو مرحوم قومی شخصیات کا ذکر بے محل نہ ہو گا۔ اس دن کے بانی، جہاد کشمیر کے پشتان اور جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد اور پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے یوم یکجہتی کشمیر کو چار چاند لگانے، کشمیر کاز کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کاسا بلانکا میں اوآئی سی میں کشمیر رابطہ گروپ کے قیام اور اس میں آر پار کی کشمیری قیادت کو True Representative of jamu kashmir کی حیثیت سے کشمیر رابطہ گروپ میں مبصر کا درجہ دلانے میں گرانقدر خدمات انجام دینے والے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان، اور وہی دل ہے مگر آواز مدھم ہوتی جاتی ہے۔ کے مصداق ملکی اور بین الاقوامی حالات میں نشیب و فراز کے باعث لوگ یوم یکجہتی کشمیر کے پس منظر کو بھولتے جا رہے ہیں راقم سے گزشتہ سال ایک صحافی دوست نے اس بارے میں لاعلمی کے انداز میں استفسار کیا تھا جب مقبوضہ کشمیر میں جھرلو الیکشن کے ذریعے انتخابی نتائج تبدیل کئے گئے تو کشمیری نوجوانوں نے سیاسی اور انتخابی عمل سے مایوس ہو کر بندوق اٹھالی۔ سری نگر سے بسوں پر مظفر آباد کے بورڈ لگا کر نوجوانوں نے جوق در جوق تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ کا رخ کیا تو امان اللہ خان، ڈاکٹر فاروق حیدر، سردار رشید کی قیادت میں جموں کشمیر فرنٹ اور قاضی حسین احمد، کرنل (ر) محمد رشید عباسی اور عبدالرشید ترابی کی قیادت میںجماعت اسلامی نے اپنے تمام وسائل جہاد کشمیر کیلئے وقف کرائے ان دنوں فرزند کشمیر شیخ رشید احمد کی لال حویلی اور فتخ جنگ روڈ پر زرعی فارم فریڈم ہائوس کشمیری مجاہدین کی آما جگاہ بن چکا تھا جب مقبوضہ کشمیر سے آنے والے کشمیری نوجوانوں کی میزبانی کے لئے جماعت اسلامی پاکستان کے بھاری بھرکم وسائل کم پڑنے لگے تو 1989ء میں قاضی حسین احمد نے ملتان میں پریس کانفرنس کے دوران مجاہدین اور مہاجرین کی آمد کا انکشاف کر کے قوم سے تعاون کی اپیل کی اور اس کے بعد ان کی اپیل پر لاہور میں منعقد ہونے والے جماعت اسلامی کے کل پاکستان اجتماع عام کے شرکا نے اپنے تمام سامان، خواتین نے زیورات تک جہاں فنڈ میں پیش کر دیئے 5 فروری 1990ء کو پہلی بار قاضی حسین احمد کی کال پر یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا جس کی اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف ، آئی جے آئی کے صدر کی حیثیت سے تائید و حمایت کی تھی ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں یوم یکجہتی کشمیر کی حمایت کرتی رہیں اور اس موقع پر تاریخی ہڑتالیں بھی ہوتی رہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں بزرگ سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان کی پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے کشمیر کاز اور یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے گرانقدر خدمات ہماری قومی تاریخ کا روشن باب ہے نوابزادہ صاحب پیرانہ سالی کے باوجود چاروں صوبائی دارالحکومت کے دورے کر کے صوبائی حکومتوں اور سیاسی حلقوں کو اسی دن کے لئے متحرک کرنے اور یوں دنیا بھر میں سفارتخانوں میںیوم یکجہتی کشمیر پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا رہا۔ نوابزادہ مرحوم کے بعد مولانا فضل الرحمن جیسی ہیوی ریٹ قومی شخصیت کی کشمیر کمیٹی کی سربراہی غنیمت ہے لیکن وہ پاکستانی سیاست میں اپنی مصروفیات کے باعث یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے کشمیر کمیٹی کے ایک رسمی اجلاس کے سوا بھرپور ملک گیر مہم نہیںچلا سکے۔ اور یوں حکومت پاکستان کی بل کھاتی کشمیر پالیسی نے کشمیری قیادت اور عوام کے لئے مایوس کن صورت پیدا کر رکھی ہے۔ نریندر مودی کی روز اول دورہ پاکستان کی دعوت دینے والے کشمیری نژاد وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے ابھی تک حریت پاکستان کو دورہ پاکستان کی دعوت نہیں دی گئی اور نہ پارٹی کشمیری قیادت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال پر مشاورت کے لئے کوئی میکانزم قائم کیا جا سکا ہے۔ 5 فروری کو آزاد کشمیر نے دارالحکومت مظفر آباد میں آزاد جموں کشمیر کونسل اور قانون ساز اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کے لئے وزیر اعظم نواز شریف کو دعوت دی گئی ہے امیر جماعت اسلامی سراج الحق اس موقع پر مظفر آباد میں یکجہتی کشمیر ریلی سے خطاب کریں گے اس موقع پر کشمیری عوام یکجہتی کشمیر کے عملی تقاضوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی ترک کر کے ٹھوس اقدامات کے منتظر ہیں۔