اسلام آباد سے، نمائندہ نوائے وقت نے، خبر دی ہے کہ۔ ”سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی اپنی نااہلی کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کے لئے، جب سُپریم کورٹ پہنچے تو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے گیلانی صاحب سے شِکوہ کِیا کہ ۔” آپ نے بتایا ہی نہیں اور سُپریم کورٹ آگئے“۔ اُس کے بعد کائرہ صاحب نے، جنابِ گیلانی کی ڈرائیونگ سِیٹ سنبھال لی “۔ خبر میں یہ نہیں بتایا کہ قمر زمان کائرہ ،یوسف رضا گیلانی کی گاڑ ی ڈرائیو کرتے ہوئے ،انہیں کہاں لے گئے؟۔ ایوانِ صدر؟۔ وزیراعظم ہاﺅس؟ یا۔کہیں اور؟
جنابِ یوسف رضا گیلانی نے سُپریم کورٹ جانے سے دو روز قبل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اعلان کر دیا تھا کہ وہ آئندہ انتخابات میں 5سال کے لئے اپنی نا اہلی ختم کرا نے کے لئے سُپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دیں گے ، لیکن کائرہ صاحب نے شاید یہ خبر پڑھی یا سُنی نہیں تھی اِسی لئے انہوں نے جنابِ گیلانی سے شِکوہ کِیا ۔ در اصل گیلانی صاحب اِس بار وزیراعظم کی حیثیت سے نہیں ،بلکہ عام آدمی کی حیثیت سے سُپریم کورٹ آئے۔ اُن کے ساتھ محافظ دستے اور پروٹوکول کی گاڑیاں نہیں تھیںکیوں کہ وہ تو آج کل وزیراعظم راجا پرویز اشرف کے ساتھ ہوتی ہیں ۔گیلانی صاحب اکیلے سُپریم کورٹ آئے ، کوئی وکیل بھی ساتھ نہیں لائے ۔ جب وزیراعظم تھے تو ،بیرسٹر اعتزاز احسن ، گیلانی صاحب کے وکیل تھے اور انہوں نے فیس بھی علامتی طور پر ، صِرف ایک سو روپے وصولی تھی ۔ اب جنابِ گیلانی اِس پوزیشن میں ہیں کہ ۔۔۔
” کون کرتا ہے وکالت میری؟“
یوسف رضا گیلانی ایم ۔اے جرنلزم ہیں۔ علّامہ طاہرالقادری کی طرح ، لاگریجویٹ نہیں ہیں۔ علّامہ صاحب نے اعلان کیا ہے کہ۔ ”مَیں الیکشن کمِشن کو تحلیل کرانے کے لئے ، سُپریم کورٹ میں پیش ہو کر ، خو دلائل دوں گا “۔ لیکن سُپریم کورٹ کے رُوبُرو علّامہ صاحب کو اپنی ۔” شیخی اُلاِسلامی“۔کو الگ رکھ کر، اپنے غُصّے کو کنٹرول میں رکھنا ہو گا ،کہ فاضل جج صاحبان انہیںدلائل دیتے وقت حکمرانوں کو ۔” بے حیا، بے شرم، اور یزیدیو!“ کہنے کی اجازت ہر گزنہیں دیں گے ۔
یوسف رضا گیلانی با اخلاق شخص ہیں۔ شاید جدّی پُشتی گدّی نشِین ہو نے کی وجہ سے۔ علّامہ صاحب جدّی پُشتی گدّی نشِین نہیں ہیں، البتہ موصوف جہاں بھی جاتے ہیں، ایک مخصوص گدّی اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور اُسی پر تشریف رکھتے ہیں۔ اگست2001ءمیں، علّامہ صاحب جب اسلام آباد، میرے گھر تشریف لائے تھے ، تو اپنے ساتھ وہی مخصوص گدّی بھی ساتھ لائے تھے ،جِس کوموصوف نے صوفہ پر رکھا اور اُس پر تشریف رکھی تھی ۔ صبا لکھنوی نے کہا تھا۔۔۔
”دیکھئے آج وہ تشرِیف کہاں فرمائیں
ہم سے وعدہ ہے جُدا‘ غیر سے اِقرار جُدا“
جناب یوسف رضا گیلانی نے، علّامہ طاہر القادری کی طرح غریبوںکے حق میں۔ ”انقلاب“۔ لانے کا وعدہ یا اقرا ر نہیں کِیا تھا اور نہ ہی لانگ مارچ کر کے، اُس کے شُرکاءسے، اُن کے سکوٹر /موٹر سائیکل ، کاریں مکان بِکوائے اور نہ ہی عورتوں سے اُن کے زیورات ، اسی لئے وہ ( گیلانی صاحب) بغیر پروٹوکول کے اور اپنی گاڑی، خُود ڈرائیو کرتے ہوئے بلا خوف و خطر ، گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں اور وزیرِ اطلاعات جناب قمر زمان کائرہ کو اطلاع دئیے بغیر اسلام آبا دآجاتے ہیں اور سُپریم کورٹ میں بھی ۔حضرت آتش کہتے ہیں ۔۔۔
طریقِ عِشق میں‘ دیوانہ وار پھرتا ہُوں
خبر گڑھے کی نہیں ہے‘ کنواں نہیں معلوم“
لیکن گیلانی صاحب قَیدکے کنویں (چاہ) میں رہے ہیں اور چاہ میںرہ کر ہی ،انہوں نے اپنی خُود نوِشت۔ ”چاہ ِ یوسف سے صدا“۔ لِکھی۔ فرق ہے کہ یوسفِ کنعانؑ تا حیات مِصر کے ” عزیز“ ( وزیراعظم) رہے اور یوسف ِمُلتان کو، سُپریم کورٹ نے صادق اور امین نہ رہنے پر، وزارتِ عُظمیٰ اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے محروم کر کے ، آئندہ پانچ سال کےلئے انتخاب لڑنے کے لئے نا اہل قرار دے دِیا اور اب موصوف عملی طور پر ۔ ”یوسفِ بے کاررواں “ ۔ہیں ۔ یہاں تک کہ اب مِیر کارواں ، صدر زرداری بھی اُن کی خبر نہیں لیتے۔ مرزا داغ دہلوی کہتے ہیں ۔۔۔
” لُٹ گئے خُود ، آئینہ مدِّ مقابل کیا ہُوا؟
آپ تو‘ اپنی خبر لیں‘ آپ کا دِل کیا ہُوا؟“
گیلانی صاحب کے تینوں بیٹے، ماشاءاللہ سیاست میں ہیں اور اپنے نامور والد کی طرح ۔” عبادت“۔ سمجھ کر سیاست کرتے ہیں ، مناسب تو یہی تھا کہ آئندہ پانچ سال کے لئے نا اہل ہو نے کے بعد موصوف ، مُلتان میں اپنی گدّی سنبھالتے اور اپنے بیٹوں کو سیاسی ، سماجی اور معاشی طور پر پھلتا پھولتا ہُوا دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے ،یہ فلمی گِیت گنگناتے۔۔۔
”آسمانوں کو تُم دیکھو
اور میں تمہیں‘ دیکھتے ہوئے دیکھوں!“
ہر باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کا بیٹا اُس سے زیادہ نام اور بہت کچھ کمائے اِسی طرح کی خواہش صدر زرداری کے لئے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کے دِل میں بھی بدرجہءاُتّم موجود ہے اور علّامہ طاہر اُلقادری کے دِل میں بھی۔ اپنے دونوں پی ایچ ڈی بیٹوں کے لئے، جو ہر تقریب میں اپنے والد محترم کے دائیں بائیں بیٹھ کر، اُن کی تقریرِ دِل پذیر سُنتے اور سر دھنتے ہیں۔
جناب یوسف رضا گیلانی نے سُپریم کورٹ کو اپنی درخواست بذریعہ ڈاک بھجوائی تھی، جسے رجسٹرار آفس نے مسترد کر دیا تھا، اِس لئے انہیں خود حاضر ہونا پڑا ۔ پِیرانِ پِیر حضرت غوثِ اعظم کے فرزند کو یہ دِن بھی دیکھنا تھا ۔ سُپریم کورٹ کے نام اپنی درخواست میں جناب یوسف رضا گیلانی نے لِکھا ہے کہ ۔” ماضی میں مجھے یا میرے خاندان کو توہینِ عدالت کا نوٹس نہیں مِلا ۔ میں اور میرا خاندان، کبھی توہینِ عدالت کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔میری نااہلی برقرار رہی تو میرے سیاسی کیریئر کو نقصان پہنچ سکتا ہے“۔ جہاں تک گیلانی صاحب کے بزرگوں کا تعلق ہے ، اُن میں سے کوئی بھی وزیراعظم نہیں رہا۔ گیلانی صاحب۔ وزیراعظم بن کر ہی توہینِ عدالت کے مجرم ٹھہرے ۔ سُپریم کورٹ کے اندر اور باہر انہوں نے جو کچھ کہا۔ سکرپٹ کے مطابق تھا ۔ وزیراعظم راجا پرویز اشرف کو جو سکرپٹ دیا گیا تھا ، انہوں نے اُسی کے مطابق مکالمے بولے اور جنابِ گیلانی سے جنابِ کائرہ کا شِکوہ بھی اِسی سِلسلے کی ایک کڑی ہے ۔یوسف رضا گیلانی کہہ سکتے ہیں کہ۔۔۔
”چاکِ جگر و دِل کا‘ جب شِکوہ بجا ہوتا
یوسف کا زلیخا نے‘ دامن تو سِیا ہوتا“
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024