یوم یکجہتی کشمیر‘ کشمیری عوام کی حصولِ منزل کی لگن اور ہمارے حکمرانوں کا طرز عمل.... کشمیر کی آزادی ہی ہماری بقاءکی ضمانت ہے
آزاد کشمیر سمیت ملک بھر میں آج بروز منگل یوم یکجہتی کشمیر جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کیلئے ملک بھر میں عام تعطیل ہو گی اور اس دن کی مناسبت سے مختلف سیاسی‘ دینی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے ریلیوں‘ مظاہروں‘ سیمینارز اور مختلف تقاریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے جبکہ کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ہاتھوں کی زنجیر بھی بنائی جائیگی۔ گزشتہ روز نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں یوم یکجہتی کشمیر کے سلسلہ میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں جماعت الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید اور دیگر مقررین نے کشمیر کی آزادی کو استحکام پاکستان کی ضمانت قرار دیتے ہوئے باور کرایا کہ یو این قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کا حق خودارادیت تسلیم کئے بغیر مسئلہ کشمیر کا کوئی حل قابل عمل اور پائیدار نہیں ہو سکتا۔ مقررین نے بھارت کو پسندیدہ ترین قرار دینے کی حکومتی پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس امر پر زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک ہمیں بھارت کے ساتھ تجارت اور دوستی سمیت کسی قسم کا تعلق استوار نہیں کرنا چاہیے۔
آج آزاد کشمیر میں ایک بڑے اجتماع کا اہتمام کیا جا رہا ہے‘ جبکہ لاہور میں بھی نیلا گنبد سے مسجد شہداءتک ریلی نکالی جائیگی۔ آج دن کا آغاز مساجد میں مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی خصوصی دعاﺅں سے کیا جائیگا جبکہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف آج کشمیری قیادت کے اعزاز میں وزیراعظم ہاﺅس اسلام آباد میں عشائیہ کا اہتمام کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز جماعت اسلامی کی جانب سے مظفرآباد سے چکوٹھی لائن آف کنٹرول تک موٹر سائیکل ریلی نکالی گئی اور ریلی کے شرکاءنے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر کشمیری بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر سکیورٹی کے بھی انتہائی سخت اقدامات کئے گئے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے پوری قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ کشمیر سے بھارتی غاصبانہ قبضہ کو چھڑانے کیلئے آج سڑکوں پر آکر کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرے۔
کشمیری عوام نے گزشتہ 64 برس سے غاصب اور ظالم بھارتی فوجوں اور دوسری سیکورٹی فورسز کے جبر و تشدد کو برداشت کرتے‘ ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرتے اور متعصب بھارتی لیڈران کے مکروہ فریب کا مقابلہ کرتے ہوئے جس صبر و استقامت کے ساتھ اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے‘ اسکی پوری دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں۔ اس خطہ¿ ارضی پر آزادی کی کوئی تحریک نہ اتنی دیر تک چل پائی ہے‘ نہ آزادی کی کسی تحریک میں کشمیری عوام کی طرح لاکھوں شہادتوں کے نذرانے پیش کئے گئے ہیں اور نہ ہی آزادی کی کسی تحریک میں عفت مآب خواتین نے اپنی عصمتوں کی اتنی قربانیاں دی ہیں‘ جتنی کشمیری خواتین اب تک ظالم بھارتی فورسز کے ہاتھوں لٹتے برباد ہوتے اپنی عصمتوں کی قربانیاں دے چکی ہیں۔ اس طرح کشمیر کی آزادی کی تحریک انسانی تاریخ کی بے مثال تحریک ہے جس کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں مستقبل کی منزل بھی متعین ہے‘ اس تناظر میں کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی درحقیقت پاکستان کی تکمیل اور استحکام کی جدوجہد ہے جس کا دامے‘ درمے‘ سخنے ہی نہیں‘ عملی ساتھ دینا بھی پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کی بنیادی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا جبکہ بانی¿ پاکستان قائداعظم نے کشمیر کی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور جب اس شہ رگ پر 1948ءمیں بھارت نے زبردستی اپنی فوجیں داخل کرکے تسلط جمایا تو قائداعظم نے افواج پاکستان کے اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو دشمن سے شہ رگ کا قبضہ چھڑانے کیلئے کشمیر پر چڑھائی کرنے کا حکم بھی دیا جس کی جنرل گریسی نے اس جواز کے تحت تعمیل نہ کی کہ وہ برطانوی افواج کے سربراہ کے تابع ہیں اور انکی اجازت کے بغیر کشمیر کی جانب پیش قدمی نہیں کر سکتے۔ اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ کشمیر کا تنازعہ بھارت اور برطانیہ کی ملی بھگت سے پیدا ہوا جو درحقیقت پاکستان کو شروع دن سے ہی کمزور کرکے اسکے آزاد وجود کو ختم کرنے کی سازش تھی۔ بھارت اسی سازش کے تحت کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا مگر جب یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی الگ الگ قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور کشمیر میں استصواب کے اہتمام کا حکم دیا تو بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔ بھارتی جبر کے انہی ہتھکنڈوں نے کشمیر کی تحریک آزادی کو مہمیز دی اور آزادی کیلئے کشمیری عوام کی تڑپ کبھی سرد نہیں ہونے دی۔ اسکے برعکس بھارتی فوجیں کشمیری عوام پر مظالم توڑتے توڑتے اب عاجز آچکی ہیں اور اس قضیے سے اپنی گلوخلاصی چاہتی ہیں جس کیلئے سابق بھارتی آرمی چیف اپنی حکومت کو مشورہ بھی دے چکے ہیں کہ کشمیر کے مسئلہ کا طاقت کے استعمال کے بجائے کوئی سیاسی حل تلاش کیا جائے مگر وہ بھارتی لیڈران جو کشمیر پر قبضہ برقرار رکھ کر پاکستان کو کمزور کرنے کے متمنی ہیں‘ کشمیری عوام کا حق خودارادیت تسلیم کرنے پر قطعاً آمادہ نہیں اور وہ جہاد کشمیر کو عالمی فورموں پر دہشت گردی تسلیم کراکے اس مبینہ دہشت گردی کا پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کی سازشی کوششوں میں مگن ہیں۔ اس بھارتی سوچ کے نتیجہ میں ہی آج تک کشمیر پر پاکستان بھارت مذاکرات کا کوئی ایک مرحلہ بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکا اور مذاکرات کی ہر میز کشمیر کا تذکرہ آتے ہی بھارت خود رعونت کے ساتھ الٹاتا اور مذاکرات کے دروازے بند کرتا رہا ہے۔ ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے نئی دہلی میں جاری پاکستان بھارت وزرائے خارجہ کے مذاکرات یکایک ختم کرکے پاکستان پر دراندازی کے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں اعلان کیا تھا کہ اب پاکستان کشمیر کو بھول جائے مگر ہمارے منتخب جمہوری حکمرانوں نے جرنیلی آمر سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور اسے گلے لگانے کی پالیسی کو فروغ دیا اور اس وقت بھی وہ بھارت کو پسندیدہ ترین قرار دینے کی ٹھانے بیٹھے ہیں۔ اگر گزشتہ ماہ بھارت کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کی چیک پوسٹ پر بار بار یکطرفہ فائرنگ کے ذریعے سرحدی کشیدگی کی فضا پیدا نہ کرتا تو ہمارے حکمران سال نو پر پاکستان بھارت دوستی کا جشن منانے کی تیاریاں کئے بیٹھے تھے۔ ہمارے حکمرانوں کی ان پالیسیوں سے ملک کی سالمیت کیلئے ہی سنگین خطرات پیدا نہیں ہوئے‘ پاکستان سے الحاق کی تمنا رکھنے والے کشمیری عوام میں بھی بددلی اور مایوسی کی فضا پیدا ہوئی ہے جس کا بزرگ کشمیری لیڈر سید علی گیلانی ہمارے حکمرانوں کو متعدد بار احساس بھی دلا چکے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بھارت کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے اور پاکستان کو سقوط ڈھاکہ کی شکل میں دو لخت کرنے کے بعد اب باقیماندہ پاکستان کی سالمیت کے بھی اعلانیہ درپے ہے اور گزشتہ ماہ وہ کنٹرول لائن پر سرحدی کشیدگی پیدا کرکے پاکستان کو جنگ کی دھمکی بھی دے چکا ہے تو کیا اسے دوست سمجھ کر اسکے ساتھ اقتصادی تجارتی روابط قائم کرنا اور اسے موسٹ فیورٹ قرار دیکر یورپی منڈیوں تک بھی اسے رسائی کے آسان مواقع فراہم کرنا ہمارے مفاد میں ہے یا ملکی سالمیت کو خود ہی خطرات میں ڈالنے اور اپنی معیشت کو اسکے ہاتھوں تباہ کرانے کے مترادف ہے؟ یہ پالیسی تو طویل اور صبر آزما جدوجہد آزادی میں مصروف کشمیری عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے بھی مترادف ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آج یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر پاکستان کے صرف عوام ہی نہیں‘ حکمران بھی کشمیر کی جدوجہد آزادی کا ساتھ نبھانے کا عہد کریں اور کشمیری عوام کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا جذبہ کبھی سرد نہ ہونے دیں۔ کشمیر کی آزادی ہی ہماری بقاءکی ضمانت ہے اور ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کا ماٹو تکمیل پاکستان کی علامت ہے۔ عوام کے دل تو ہمیشہ سے کشمیری بھائیوں کے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ حکمرانوں کو بھی کشمیری عوام کا دل سے ساتھ دینا چاہیے اور ان کا آزادی کا سفر کھوٹا کرنے کی کسی حماقت سے گریز کرنا چاہیے۔ آج یوم یکجہتی کشمیر اس جذبے کے ساتھ منایا جائے کہ کشمیری عوام کی آزادی کی منزل یقینی ہو جائے۔ یہی آج کے دن کا تقاضا ہے۔