بھارت کا جنگی جنون بڑھتا چلا جا رہا ہے مگر امریکہ سمیت عالم امن کے تمام ٹھیکیدار خاموش ہیں۔ اگر یہی جنون کسی مسلمان ملک کی طرف سے ظاہر کیا جا رہا ہوتا یا پھر پاکستان کسی ایسے جنون میں مبتلا ہوتا تو امریکہ اور یورپی ممالک نے اب تک اُدھم مچا دیا ہونا تھا۔ بھارت نے پہلے روس کے ساتھ ایٹمی آبدوز کا معاہدہ کیا جس سے بھارتی بحریہ کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس ایٹمی آبدوز کے حصول کے بعد بھارت ایٹمی آبدوز رکھنے والا دنیا کا چھٹا ملک بن گیا ہے اور اس ایٹمی آبدوز کی مدد سے بھارت ایٹمی بم کو استعمال کر سکے گا۔ روس سے ایٹمی آبدوز کے حصول کے بعد بھارت نے فرانس کی ڈیسالٹ نامی کمپنی سے 12 ارب روپے کا تاریخی معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت بھارت فرانس سے 126 لڑاکا طیارے خریدے گا۔ فرانسیسی وزیر برائے تجارت نے اس معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیسالٹ کمپنی 10 سال میں بھارت کو جدید ترین ریفیل طیارے دے گی۔ امریکہ بھارت کو جنوبی ایشیا کا ٹھیکیدار بنانا چاہتا ہے۔ اس لئے
امریکہ کو چین کی ترقی کھٹکتی ہے اور اس نے بھارت کے ساتھ ایٹمی معاہدے کر رکھے ہیں۔ بھارت روز اول سے پاکستان کا دشمن ہے۔ اس نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا اور ہر موقع پر پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بھارت کے مدمقابل ہم بھی اپنے عسکری اداروں کو جدید ترین ہتھیاروں اور سازوسامان سے لیس رکھیں۔ بھارت اگر ایٹمی قوت کے طور پر ابھر رہا تھا تو اللہ کے فضل و کرم سے ہم بھی ایٹمی طاقت کا رتبہ حاصل کر چکے ہیں مگر ان دنوں جبکہ بھارت کا جنگی جنون جاری ہے تو حالات کا تقاضا ہے کہ ہم بھی اپنی بحریہ اور فضائیہ کو جدید ترین سازوسامان سے لیس کریں۔ گذشتہ برس کراچی میں پاک بحریہ کے نیول بیس پر حملہ کے نتیجہ میں ہماری بحریہ کی صلاحیت صرف 20 فیصد باقی رہ گئی تھی جبکہ دوسری طرف بھارت نے روس سے لیز پر ایٹمی آبدوز حاصل کر لی ہے۔ کیا ضروری نہیں کہ ہمارے حکمران اور عسکری قیادت خصوصی توجہ دیتے ہوئے اپنی بحریہ کی صلاحیت کو 100فیصد پر برقرار رکھنے کی خاطر اور ایٹمی آبدوز حاصل کرنے کی جستجو میں اقدامات اٹھائیں۔ اسی طرح پاک فضائیہ کو وافر تعداد میں مزید جدید ترین جنگی جہازوں سے لیس کیا جائے۔ چین کے ساتھ ہمارے جے ایف۔ 7 تھنڈر طیاروں کا جو معاہدہ جاری ہے اس کو مزید وسعت دی جانی ضروری ہے۔ اس ضمن میں قطعی طور پر امریکہ کا کوئی دباﺅ برداشت نہ کیا جائے۔ امریکہ پاکستان کے حوالہ سے کوئی عملی بات نہیں کر رہا۔ وہ بھارت کا جنوبی ایشیا میں تسلط بھی قائم کروانا چاہتا ہے اور پاکستان کو اس کے بنیادی مفادات کے لئے کاوشیں بھی بروئے کار لانے نہیں دے رہا۔ پاک بھارت دشمنی کبھی بھی دوستی میں تبدیل نہیں ہو سکتی۔ خصوصاً جب تک مسئلہ کشمیر جاری ہے دونوں ممالک دوست ممالک میں تبدیل نہیں ہو سکتے۔ دراصل امریکہ ہمیں کمزور کرتے ہوئے بھارت کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ مگر یہاں سوال جنم لیتا ہے کہ اقوام متحدہ سمیت اس کے تمام ذیلی ادارے اور امریکہ جو ایٹمی عدم پھیلاﺅ کا نعرہ لگا کر گاہے بگاہے پاکستان پر دباﺅ بڑھاتا رہتا ہے اور ایران کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں وہ بھارت کے ایشو پر دوہرے معیار کا ثبوت کیوں فراہم کر رہے ہیں اور اگر کر رہے ہیں تو اسلامی ممالک کے حکمران خصوصاً پاکستان خاموش تماشائی کا کردار کیوں ادا کر رہا ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ کبھی دیرینہ دشمن بھی گیتوں اور سُروں کے راگ پر دوست بنے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ دوستی ہمیشہ برابری کی بنیاد پر ہوا کرتی ہے۔ بھارت ایک طرف پاکستان کے ساتھ دوستی کا دعویدار ہو رہا ہے اور دوسری طرف اپنا امتیازی سلوک بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسے حالات میں ہمارے عسکری اداروں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے اصولی موقف کو اپنائیں اور امریکہ کے ساتھ عسکری اداروں اور ان کے سربراہان کے براہ راست تعلقات پر باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے مستقل پابندی عائد کر دی جائے۔ ان دنوں مہمند ایجنسی پر نیٹو امریکی فورسز کے حملے کے بعد پاک فوج کا امریکہ کے خلاف واضح سٹینڈ ہے۔ ہمارے عسکری اداروں کے سربراہان اپنی بنیاد اور قیام کے اصل محرک جہاد فی سبیل اللہ پر مضبوطی سے قائم ہو جائیں تو حکمرانوں کے لئے بھارت کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنا آسان عمل نہیں ہو سکتا چاہے اس کی ڈکٹیشن امریکہ ہی کیوں نہ دے۔ ان دنوں ہمارے عسکری اداروں اور خفیہ ایجنسیوں پر تنقید کے تابڑ توڑ حملے بھی فیشن کا درجہ حاصل کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ بھی امریکی ایما پر شاید لاپتہ افراد کے کیسز وغیرہ ہیں لہٰذا ضروری ہو چکا ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ اتحاد کے باب کو بند کرتے ہوئے چین کے ساتھ اپنی دوستی کو مزید وسعت دیں۔ اس حوالہ سے امریکی دھمکیوں کی پرواہ نہ کی جائے۔ امریکی صدر اوباما نے درست نہیں کہا ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خائف ہو کر جنوبی ایشیائی ممالک امریکہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ کا اصل ہدف ہمارے ایٹمی اثاثہ جات ہیں اور وہ بھارت کو جنوبی ایشیا کا ٹھیکیدار یعنی اس خطے میں اپنا بدمعاش بٹھانا چاہتا ہے اس لئے ہمیں فوری طور پر روس، چین اور ایران کے ساتھ مضبوط بلاک تشکیل دینے کی جدوجہد شروع کرکے اپنے عسکری اداروں کی قوت اور اسے جدید ترین مشینری اور سازوسامان سے لیس رکھنے کے لئے اقدامات اٹھاتے رہنا چاہئے۔
امریکہ کو چین کی ترقی کھٹکتی ہے اور اس نے بھارت کے ساتھ ایٹمی معاہدے کر رکھے ہیں۔ بھارت روز اول سے پاکستان کا دشمن ہے۔ اس نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا اور ہر موقع پر پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بھارت کے مدمقابل ہم بھی اپنے عسکری اداروں کو جدید ترین ہتھیاروں اور سازوسامان سے لیس رکھیں۔ بھارت اگر ایٹمی قوت کے طور پر ابھر رہا تھا تو اللہ کے فضل و کرم سے ہم بھی ایٹمی طاقت کا رتبہ حاصل کر چکے ہیں مگر ان دنوں جبکہ بھارت کا جنگی جنون جاری ہے تو حالات کا تقاضا ہے کہ ہم بھی اپنی بحریہ اور فضائیہ کو جدید ترین سازوسامان سے لیس کریں۔ گذشتہ برس کراچی میں پاک بحریہ کے نیول بیس پر حملہ کے نتیجہ میں ہماری بحریہ کی صلاحیت صرف 20 فیصد باقی رہ گئی تھی جبکہ دوسری طرف بھارت نے روس سے لیز پر ایٹمی آبدوز حاصل کر لی ہے۔ کیا ضروری نہیں کہ ہمارے حکمران اور عسکری قیادت خصوصی توجہ دیتے ہوئے اپنی بحریہ کی صلاحیت کو 100فیصد پر برقرار رکھنے کی خاطر اور ایٹمی آبدوز حاصل کرنے کی جستجو میں اقدامات اٹھائیں۔ اسی طرح پاک فضائیہ کو وافر تعداد میں مزید جدید ترین جنگی جہازوں سے لیس کیا جائے۔ چین کے ساتھ ہمارے جے ایف۔ 7 تھنڈر طیاروں کا جو معاہدہ جاری ہے اس کو مزید وسعت دی جانی ضروری ہے۔ اس ضمن میں قطعی طور پر امریکہ کا کوئی دباﺅ برداشت نہ کیا جائے۔ امریکہ پاکستان کے حوالہ سے کوئی عملی بات نہیں کر رہا۔ وہ بھارت کا جنوبی ایشیا میں تسلط بھی قائم کروانا چاہتا ہے اور پاکستان کو اس کے بنیادی مفادات کے لئے کاوشیں بھی بروئے کار لانے نہیں دے رہا۔ پاک بھارت دشمنی کبھی بھی دوستی میں تبدیل نہیں ہو سکتی۔ خصوصاً جب تک مسئلہ کشمیر جاری ہے دونوں ممالک دوست ممالک میں تبدیل نہیں ہو سکتے۔ دراصل امریکہ ہمیں کمزور کرتے ہوئے بھارت کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ مگر یہاں سوال جنم لیتا ہے کہ اقوام متحدہ سمیت اس کے تمام ذیلی ادارے اور امریکہ جو ایٹمی عدم پھیلاﺅ کا نعرہ لگا کر گاہے بگاہے پاکستان پر دباﺅ بڑھاتا رہتا ہے اور ایران کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں وہ بھارت کے ایشو پر دوہرے معیار کا ثبوت کیوں فراہم کر رہے ہیں اور اگر کر رہے ہیں تو اسلامی ممالک کے حکمران خصوصاً پاکستان خاموش تماشائی کا کردار کیوں ادا کر رہا ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ کبھی دیرینہ دشمن بھی گیتوں اور سُروں کے راگ پر دوست بنے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ دوستی ہمیشہ برابری کی بنیاد پر ہوا کرتی ہے۔ بھارت ایک طرف پاکستان کے ساتھ دوستی کا دعویدار ہو رہا ہے اور دوسری طرف اپنا امتیازی سلوک بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسے حالات میں ہمارے عسکری اداروں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے اصولی موقف کو اپنائیں اور امریکہ کے ساتھ عسکری اداروں اور ان کے سربراہان کے براہ راست تعلقات پر باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے مستقل پابندی عائد کر دی جائے۔ ان دنوں مہمند ایجنسی پر نیٹو امریکی فورسز کے حملے کے بعد پاک فوج کا امریکہ کے خلاف واضح سٹینڈ ہے۔ ہمارے عسکری اداروں کے سربراہان اپنی بنیاد اور قیام کے اصل محرک جہاد فی سبیل اللہ پر مضبوطی سے قائم ہو جائیں تو حکمرانوں کے لئے بھارت کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنا آسان عمل نہیں ہو سکتا چاہے اس کی ڈکٹیشن امریکہ ہی کیوں نہ دے۔ ان دنوں ہمارے عسکری اداروں اور خفیہ ایجنسیوں پر تنقید کے تابڑ توڑ حملے بھی فیشن کا درجہ حاصل کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ بھی امریکی ایما پر شاید لاپتہ افراد کے کیسز وغیرہ ہیں لہٰذا ضروری ہو چکا ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ اتحاد کے باب کو بند کرتے ہوئے چین کے ساتھ اپنی دوستی کو مزید وسعت دیں۔ اس حوالہ سے امریکی دھمکیوں کی پرواہ نہ کی جائے۔ امریکی صدر اوباما نے درست نہیں کہا ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خائف ہو کر جنوبی ایشیائی ممالک امریکہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ کا اصل ہدف ہمارے ایٹمی اثاثہ جات ہیں اور وہ بھارت کو جنوبی ایشیا کا ٹھیکیدار یعنی اس خطے میں اپنا بدمعاش بٹھانا چاہتا ہے اس لئے ہمیں فوری طور پر روس، چین اور ایران کے ساتھ مضبوط بلاک تشکیل دینے کی جدوجہد شروع کرکے اپنے عسکری اداروں کی قوت اور اسے جدید ترین مشینری اور سازوسامان سے لیس رکھنے کے لئے اقدامات اٹھاتے رہنا چاہئے۔