عبدالرشید ترابی
آج یوم یکجہتی کشمیر ایسے عالم میں منایا جارہا ہے جب بھارتی مظالم اور ریاستی دہشت گردی کا بازار بدستورگرم ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کے ”یو ٹرن “کے بعد تحریکِ آزادی کے لئے لا تعداد مسائل پیدا ہو ئے ۔اس وقت یہ لولی پاپ دیا گیاتھا کہ نام نہاد اعتماد سازی کے اقدامات کے بعد مسئلہ کشمیر پر بات ہوگی ، لیکن نو برس گزرنے کے باوجود نہ صر ف بھارت اس مسئلہ پر بات چیت کے لئے تیار ہوابلکہ وہ بدستور اٹوٹ انگ کی رٹ جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارتی حکومت کے مذاکرات کار جنہوں نے کشمیر کے متعدد دورے کرنے کے بعد سفارشات پیش کیں کہ کشمیر میں مظالم بند کرنے کے لئے فوج کے خصوصی اختیارات ختم کئے جائیں کٹھ پتلی وزیر اعلی عمر عبداللہ نے بھی اسی بات کوانتخابات کا سلوگن بنایا تھا لیکن بھارتی فوج نے ان تمام سفارشات کو یہ کہہ کر سبوتاژ کر دیا کہ اگر ایسا کیا گیا تو مجاہدین فی الفور کشمیر پر قبضہ کر لیںگے ۔یوں گویا بھارتی ریاستی مشینری اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کشمیریوں کو کم از کم رعایت دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہے ،جس پر مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں بھارتی نواز سیاسی جماعتوں کے ممبران نے بھی سخت احتجاج کیا اور بھارتی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا کہ وہ مسئلہ کا کوئی پر امن حل نہیں چاہتی اور بالجبر ریاست پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
ایمنٹسٹی انٹر نیشنل ،ایشیاواچ جیسی انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے لے کربھارت کے اندر انسانی حقوق کی تنظیموں نے جامع رپورٹ مرتب کی اور دنیا کو باور کرایا کہ بھارتی مظالم اور ریاستی دہشت گردی کا نوٹس لیا جائے،یورپی یونین میں بھارتی مظالم کی سزائے باز گشت گونجی اور سفارش کی گئی کہ انسانی حقوق کا ریکارڈ بہتر کئے بغیر بھارت سے تجارتی تعلقات محدود رکھے جائیں ، اسی طرح برطانوی پارلیمنٹ میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث رہا اور کشمیر یوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی گئی ،سیکر ٹری جنرل O.I.C نے بھی صدائے احتجاج بلند کی ۔ سب سے مو¿ ثر آواز بھارت کی شہرت یافتہ دانشور ارون دتی رائے کی طرف سے بلند ہوئی ،جس نے بھارتی ایوانوں کومتزلزل کر دیا اور دنیا میں بھارت کی رسوائی ہوئی ۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی تھی کہ اس بین الاقوامی سازگار فضاسے حکومت پاکستان استفادہ کرتی اور بھارت کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر نے کے لئے ایک جامع حکمت عملی ترتیب دی جاتی ، الٹا کشمیریوں کے قاتل اور پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا فیصلہ کر کے کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی اور پاکستان کی سلامتی پر وار کیا گیا ۔
’Institute for Research on India and International studies “کی جانب سے کرائے گئے سروے کے مطابق 54% نوجوان بھارت سے مکمل آزادی کے حق میں ہیں اگرچہ غیر جانبدارانہ سروے ہو تو اصل شرح اس سے کئی زیادہ بتاتے ہیں پھر 95 فیصد نوجوان بھارت نواز سیاسی جماعتوں سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھتے ، سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کشمیر میں نوجوانوں میں اسلام کے ساتھ وابستگی میں اضافہ ہورہاہے اور نوجوان دینی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان مشکل حالات میں وہاں دینی جماعتوں کو مزید پذیرائی مل رہی ہے ۔
رسمی یکجہتی سے آگے بڑھ کر اقدامات کئے جائیں جو ذیل ہو سکتے ہیں۔ ٭بھارت کو MNF درجہ دینے کا فیصلہ فوری واپس لیا جائے۔
٭اعتماد سازی کے حال سے نکلتے ہوئے از سر نو بین الاقوامی اداروں سے رجوع کیاجائے اور انہیں باور کرایاجائے کہ آٹھ سالہ اعتماد سازی کے اقدامات کے باوجود بھارت مسئلہ کشمیرپر بات چیت کے لئے تیار نہیںہے اس لئے عالمی برادری اس میں کشمیریوں کی گلو خلاصی کا کردار ادا کرے ۔ اس سلسلہ میں O.I.C کا خصوصی سربراہی اجلاس یا وزارتِ خارجہ کا اجلاس بلایا جائے اور ایک مرتبہ پھرمو¿قف کی تجدید کی جائے۔
٭O.I.C کے زیر اہتمام کشمیر ریلیف فنڈ کو متحرک کیا جائے۔
٭پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھارتی مظالم کی مذمت کی جائے اور قومی مو¿قف کا احیاءکیاجائے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حق خود ارادیت کے حصول کی جدو جہد میں کشمیریوں کی ہر محاذ پر معاونت کی جائے۔
٭ریاست کے آزادحصّوں یعنی آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو تحریکِ آزادی¿ کشمیر کاحقیقی بیس کیمپ بنایا جائے ، اس سلسلہ میں ان دونوں خطوں کو مشترکہ کشمیر کونسل کے ذریعہ مربوط کیا جائے۔
٭اس سلسلہ میں ایکٹ۔ 74 میں ضروری ترامیم کا اہتمام کیاجائے اور آزاد حکومت کو سفارتی محاذ پر متحرک کردار اداکرنے کا اختیاردیاجائے۔
٭پاکستان کی ہر اچھی یا بری خبر مقبوضہ کشمیر میں اپنے اثرات مرتب کرتی ہے اس لئے علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ جھگڑوں کا قلع قمع کیاجائے،بالخصوص دہشت گردی کے نام پر ملک میں خانہ جنگی کی جو کیفیت پیدا ہو چکی ہے اس سے نکلاجائے یہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے کہ اس جنگ سے علیحدگی اختیار کی جائے
٭قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کی روشنی میں پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی اور فلاحی ریاست بنایا جائے کہ ایک مستحکم اسلامی جمہوری پاکستان ہی تحریکِ آزادی¿ کشمیر کا حقیقی ضامن ثابت ہو سکتا ہے۔
آج یوم یکجہتی کشمیر ایسے عالم میں منایا جارہا ہے جب بھارتی مظالم اور ریاستی دہشت گردی کا بازار بدستورگرم ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کے ”یو ٹرن “کے بعد تحریکِ آزادی کے لئے لا تعداد مسائل پیدا ہو ئے ۔اس وقت یہ لولی پاپ دیا گیاتھا کہ نام نہاد اعتماد سازی کے اقدامات کے بعد مسئلہ کشمیر پر بات ہوگی ، لیکن نو برس گزرنے کے باوجود نہ صر ف بھارت اس مسئلہ پر بات چیت کے لئے تیار ہوابلکہ وہ بدستور اٹوٹ انگ کی رٹ جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارتی حکومت کے مذاکرات کار جنہوں نے کشمیر کے متعدد دورے کرنے کے بعد سفارشات پیش کیں کہ کشمیر میں مظالم بند کرنے کے لئے فوج کے خصوصی اختیارات ختم کئے جائیں کٹھ پتلی وزیر اعلی عمر عبداللہ نے بھی اسی بات کوانتخابات کا سلوگن بنایا تھا لیکن بھارتی فوج نے ان تمام سفارشات کو یہ کہہ کر سبوتاژ کر دیا کہ اگر ایسا کیا گیا تو مجاہدین فی الفور کشمیر پر قبضہ کر لیںگے ۔یوں گویا بھارتی ریاستی مشینری اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کشمیریوں کو کم از کم رعایت دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہے ،جس پر مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں بھارتی نواز سیاسی جماعتوں کے ممبران نے بھی سخت احتجاج کیا اور بھارتی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا کہ وہ مسئلہ کا کوئی پر امن حل نہیں چاہتی اور بالجبر ریاست پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
ایمنٹسٹی انٹر نیشنل ،ایشیاواچ جیسی انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے لے کربھارت کے اندر انسانی حقوق کی تنظیموں نے جامع رپورٹ مرتب کی اور دنیا کو باور کرایا کہ بھارتی مظالم اور ریاستی دہشت گردی کا نوٹس لیا جائے،یورپی یونین میں بھارتی مظالم کی سزائے باز گشت گونجی اور سفارش کی گئی کہ انسانی حقوق کا ریکارڈ بہتر کئے بغیر بھارت سے تجارتی تعلقات محدود رکھے جائیں ، اسی طرح برطانوی پارلیمنٹ میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث رہا اور کشمیر یوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی گئی ،سیکر ٹری جنرل O.I.C نے بھی صدائے احتجاج بلند کی ۔ سب سے مو¿ ثر آواز بھارت کی شہرت یافتہ دانشور ارون دتی رائے کی طرف سے بلند ہوئی ،جس نے بھارتی ایوانوں کومتزلزل کر دیا اور دنیا میں بھارت کی رسوائی ہوئی ۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی تھی کہ اس بین الاقوامی سازگار فضاسے حکومت پاکستان استفادہ کرتی اور بھارت کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر نے کے لئے ایک جامع حکمت عملی ترتیب دی جاتی ، الٹا کشمیریوں کے قاتل اور پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا فیصلہ کر کے کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی اور پاکستان کی سلامتی پر وار کیا گیا ۔
’Institute for Research on India and International studies “کی جانب سے کرائے گئے سروے کے مطابق 54% نوجوان بھارت سے مکمل آزادی کے حق میں ہیں اگرچہ غیر جانبدارانہ سروے ہو تو اصل شرح اس سے کئی زیادہ بتاتے ہیں پھر 95 فیصد نوجوان بھارت نواز سیاسی جماعتوں سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھتے ، سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کشمیر میں نوجوانوں میں اسلام کے ساتھ وابستگی میں اضافہ ہورہاہے اور نوجوان دینی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان مشکل حالات میں وہاں دینی جماعتوں کو مزید پذیرائی مل رہی ہے ۔
رسمی یکجہتی سے آگے بڑھ کر اقدامات کئے جائیں جو ذیل ہو سکتے ہیں۔ ٭بھارت کو MNF درجہ دینے کا فیصلہ فوری واپس لیا جائے۔
٭اعتماد سازی کے حال سے نکلتے ہوئے از سر نو بین الاقوامی اداروں سے رجوع کیاجائے اور انہیں باور کرایاجائے کہ آٹھ سالہ اعتماد سازی کے اقدامات کے باوجود بھارت مسئلہ کشمیرپر بات چیت کے لئے تیار نہیںہے اس لئے عالمی برادری اس میں کشمیریوں کی گلو خلاصی کا کردار ادا کرے ۔ اس سلسلہ میں O.I.C کا خصوصی سربراہی اجلاس یا وزارتِ خارجہ کا اجلاس بلایا جائے اور ایک مرتبہ پھرمو¿قف کی تجدید کی جائے۔
٭O.I.C کے زیر اہتمام کشمیر ریلیف فنڈ کو متحرک کیا جائے۔
٭پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھارتی مظالم کی مذمت کی جائے اور قومی مو¿قف کا احیاءکیاجائے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حق خود ارادیت کے حصول کی جدو جہد میں کشمیریوں کی ہر محاذ پر معاونت کی جائے۔
٭ریاست کے آزادحصّوں یعنی آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو تحریکِ آزادی¿ کشمیر کاحقیقی بیس کیمپ بنایا جائے ، اس سلسلہ میں ان دونوں خطوں کو مشترکہ کشمیر کونسل کے ذریعہ مربوط کیا جائے۔
٭اس سلسلہ میں ایکٹ۔ 74 میں ضروری ترامیم کا اہتمام کیاجائے اور آزاد حکومت کو سفارتی محاذ پر متحرک کردار اداکرنے کا اختیاردیاجائے۔
٭پاکستان کی ہر اچھی یا بری خبر مقبوضہ کشمیر میں اپنے اثرات مرتب کرتی ہے اس لئے علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ جھگڑوں کا قلع قمع کیاجائے،بالخصوص دہشت گردی کے نام پر ملک میں خانہ جنگی کی جو کیفیت پیدا ہو چکی ہے اس سے نکلاجائے یہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے کہ اس جنگ سے علیحدگی اختیار کی جائے
٭قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کی روشنی میں پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی اور فلاحی ریاست بنایا جائے کہ ایک مستحکم اسلامی جمہوری پاکستان ہی تحریکِ آزادی¿ کشمیر کا حقیقی ضامن ثابت ہو سکتا ہے۔