70ءکی دہائی میں امریکی دانشور برززنسکی نے سویٹ یونین کے ٹوٹ جانے کی پیشگوئی کی تھی اور کہا تھا کہ عنقریب امریکہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور بن جائےگاجس کی حکمت عملی یہ ہونی چاہئے کہ : ” امریکہ یوریشیا کے خطے میںبرتری قائم کرنے کیلئے پیش رفت کرے کیونکہ یوریشیا دنیا کا سب سے بڑا براعظم ہونے کےساتھ ساتھ سیاسی اہمیت کا بھی حامل ہے۔ جو طاقت یوریشیا میں برتری قائم کرےگی اسے افریقہ کو زیر کرنا ہر گز مشکل نہ ہوگا۔ اس طرح کرہ ارض کی نصف سرزمین اور سمندروں پر مغرب کی برتری قائم ہو جائے گی جو کہ سیاسی اعتبار سے دنیا کے وسیع حصے کو زیر نگیں لانے کے مترادف ہوگا۔یوریشیا پر برتری اور عالمی سطح پر امریکہ کی حاکمیت برقرار رکھنے کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ وہ کتنے عرصے تک اس خطے میں موثرطریقے سے اپنی اہمیت برقرار رکھ سکے گا۔“ اس حکمت عملی کو یقینی بنانے کیلئے برززنسکی نے یوریشیا کے خطے میں عسکری طاقت استعمال کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا تھا کہ روس کی طاقت کو محدود کرنے کیلئے ایک طرف یورپ کا ”مغربی محاذ“ اور ایشیا میں ”ایشیائی محاذ“ قائم کرنا ضروری ہے ۔ اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے مشرقی یورپی ممالک کو یورپی یونین میں ضم کر کے ”مغربی محاذ“ قائم کر دیا گیا۔اگرچہ نیٹو کی ضرورت باقی نہ رہی تھی لیکن مغربی محاذ کی سالمیت قائم رکھنے اورایشیائی محاذ کے قیام کی خاطر نیٹو کو بھی برقرار رکھا گیا جو افغانستان کی جنگ میں برابر کا شریک رہا۔
2001ءکے سانحہ 9\\\\11 کے پس پردہ افغانستان پر حملے اور پھر قبضے کی راہ ہموار کی گئی جسکے بعد 2003ءمیں عراق کو تاراج کیا گیا۔ نیٹو اور بھارت اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر ایشیائی محاذ کے پس پشت عالمی بالادستی کے عظیم کھیل میں شامل ہو گئے۔اس محاذ کو مستحکم کرنے کی خاطر عالمی امن کو تباہ کرنے کی پالیسی اپنائی گئی لیکن یہ پالیسی عراق سے پسپائی کی صورت میں الٹی ہو چکی ہے۔ اس طرح افغانستان میں امریکہ بری طرح پھنس چکا ہے اور وہاں سے پر امن انخلاءکا راستہ ڈھونڈھنے میں ناکام ہو کر اب طالبان سے مدد کا طلبگار ہے۔ ایشیائی محاذ بری طرح ناکام ہو چکا ہے جبکہ امریکہ کی اقتصادی حالت بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے کیونکہ اسے 16 ٹریلین ڈالر خسارے کا سامنا ہے اور 14 ٹریلین ڈالر گھریلو صارفین کی دولت بربادہو چکی ہے۔ امریکہ میں بیروزگاری عروج پر ہے جس سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا اظہار جرائم کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں سے ہوتا ہے۔ عالمی بالادستی کا نشہ ٹوٹ چکا ہے جس سے امریکی استعمار کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔ بقول کرک پاٹرک سول ”شہنشاہ اوررعایا دونوں بے لباس ہو چکے ہیں۔“
ایشیائی محاذ کی ناکامی کے بعد امریکہ نے اب اپنی تمام تر توجہ کا مرکزبحر اوقیانوس کے علاقے کو بنا لیاہے جہاں نیا محاذ قائم کرنے کا ہنری کسنجرنے مشورہ دیا تھاکہ: ”عالمی بساط پر رونماہونے والی انقلابی تبدیلیاں ہمارے دور کا خاصہ ہیں۔ دنیا کی توجہ کا مرکز اب ایشیائی بحرالکاہل کی جانب تبدیل ہو رہا ہے جہاں عالمی بساط کے تمام اہم مہرے اپنے لئے نئے کرداروں کا تعین کر رہے ہیں۔ یہ نہ صرف نظریات پر اثر انداز ہوگا بلکہ اس سے عالمی طاقت کا تواز ن بھی تبدیل ہو گا ۔“ اس تبدیلی کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے صدر اوبامہ نے اپنے حالیہDefense Strategic Guidance میں واضح کیا ہے کہ اب ” ایشیا اور بحراکاہل کے خطے میں تذویراتی مرکز (Strategic Pivot)قائم کرنا ضروری ہے کیونکہ امریکی اقتصادیات اورسلامتی کے مفادات علاقہ بحرالکاہل ا ورمشرقی ایشیا سے لے کر بحر ہند کے سمندری خطے اور جنوبی ایشیا پر مشتمل حدود سے وابستہ ہیں جو کہ چیلنجوں اور مواقع سے بھر پور خطے ہیں۔“۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا ہر گزمشکل نہیں ہے کہ امریکی افواج ان خطوں میںاب سمندری جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ امریکہ سمندروں میں اپنی بحری قوت کو مضبوط بنانے اور طویل المعیاد منصوبے کے تحت 346 بحری بیڑوں کی تعداد یقینی بنارہا ہے جو کہ بجٹ میں خسارے کی وجہ سے گھٹاکر 250 کی جا رہی تھی۔ اسکے ساتھ ساتھ آئندہ دہائی میں پرانے بحری جہازوں کو بھی تبدیل کیا جائےگا تاکہ چین کے خلاف بااعتماد عسکری صلاحیت قائم ہو اور دیگر ممالک کےساتھ ملکر مضبوط سفارتی و اقتصادی روابط قائم کرنے میںکارآمد ہوں۔ ہیلری کلنٹن نے اس امریکی سفارتی حکمت عملی کو فتح سے موسوم کرتے ہوئے بحرالکاہل میںامریکی کامیابی کانام دیاہے اور” بحرالکاہل کے خطے میں امریکہ کی کامیابیوں کی نوید“ کہا ہے کیونکہ ”دو اعصاب شکن ’ تھکا دینے والی اور مہنگی ترین زمینی جنگوں سے ہاتھ اٹھا لینے کے بعد یہ بہترین حکمت عملی ہے جس کی تکمیل کیلئے صدر اوبامہ بھارت ’جاپان’ جنوبی کوریا اور آسٹریلیا جیسے ممالک پرمشتمل ایک اتحاد قائم کرنے میں مصروف ہیں تاکہ چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کےخلاف بند باندھا جا سکے۔
اوبامہ کے دفاعی تذویراتی منصوبے (Defense Strategic Guidance) میں دفائی بجٹ میںتقریبÉ 15 فیصد کٹوتی کی نشاندہی کی گئی ہے اور فوجی طاقت کو بڑھانے میں دو رخی حکمت عملی کا عندیہ دیا گیا ہے۔ پہلی تبدیلی یہ ہے کہ اب امریکہ‘ عراق و افغانستان کی طرح کسی ملک میں بلاواسطہ مداخلت نہیں کرےگا بلکہ اتحادی ممالک ہی ضروری کاروائی کرینگے جیسا کہ صومالیہ ‘ لیبیا‘ بحرین اور شام میں کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اسرائیل اور بھارت جیسی طفیلی ریاستیں امریکی طاقت اور مفادات کو آگے بڑھانے میں مدد دیں گی۔ دوسری حکمت عملی کے تحت دنیا بھر میں متعدد لڑاکا گروپ (Combat Groups) تشکیل دئیے جائینگے جو کہ مئی 2001ءمیں ایبٹ آباد میں کئے جانےوالے سرجیکل آپریشن کی طرح کاروائیاں کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوں گے ۔ مطلوبہ اہداف اور انٹیلی جنس معلومات کے حصول کیلئے ڈرونز کا استعمال بھی جاری رہے گا۔امریکہ کایوریشیا سے تذویراتی مرکز (Strategic Pivot)کا رخ ایشیائی بحرالکاہل کی جانب موڑنا پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کیلئے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔
افغانستان کواس تبدیلی سے زیادہ فائدہ ہوگاکیونکہ وہاں سے بیرونی جارحیت کا خاتمہ ہو جائےگا جو کہ ”تمام برائیوں کی جڑ“ ہے۔ اب امریکہ کو افغانستان سے پرامن انخلا ءکیلئے طالبان سے مدد مانگنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں جوکہ اوبامہ کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ تجزیہ نگار بھدرا کمار کے مطابق ”افغان عوام کو کم از کم عرب انقلاب جیسی مراعات دینا پڑیں گی جس سے اسلام اورجمہوریت میں ہم آہنگی پیدا ہو سکے۔ اہم بات یہ ہے کہ کیاامریکہ تاریخ کے رخ کے مطابق عمل کرےگا۔ ہر سمت اسلامی رحجان فتح سے ہمکنار ہو رہا ہے کیونکہ یہ واحد نظریہ حیات ہے جو دلوں کی تسکین کیلئے وسیع تر اور گہرے اثرات کا ذریعہ ہے۔“ دنیا کو اب افغانستان میںطالبان کی حکمرانی تسلیم کرنا پڑےگی کیونکہ وہ ایک وسیع البنیاد حکومت ہوگی جو امن اوراستحکام کی ضامن ہوگی۔
ایران 1979ءسے لےکر اب تک امریکی سازشوں سے نبرد آزما ہے اور تذویراتی مدافعت (Strategic Defiance) کی علامت بنا رہا ہے جس سے ایرانی قوم میں نئی جنگی صلاحیتیں اور نیا عزم و استقلال پیدا ہوا ہے۔ حال ہی میں ایران پرتیل کی ترسیلات کو محدود کرنے کی جوپابندیاں عائد کی گئی ہیں وہ الٹی ہو کریورپی درآمد کنندگان کے چہروں پر جا پڑی ہیں۔چین‘ بھارت اور پاکستان کو ایران کے ساتھ تیل کی تجارت سے فائدہ ہو گا جبکہ سعودی عرب اور روس یورپی خریداروں کو 130 تا 150 ڈالر فی بیرل کے حساب سے تیل فروخت کرینگے جس سے یورپ کی لڑکھڑاتی معیشت پر دباﺅ پڑےگا۔ ایران ایک طاقت بن چکا ہے کہ جس کےخلاف امریکہ اور ا سرائیل میں اب جنگ کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایران کی جغرافیائی و تذویراتی اہمیت بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے جوکہ ” میسو پوٹامیا‘ اناتولیا‘ کاکیشیا‘ بحیرہ کیسپئن‘ وسطی و جنوبی ایشیا‘ خلیج فارس اور بحیرہ عرب کے درمیان واقع ہے جو اہم تجارتی راستہ ہے اور ایران کے بغیر خطے میں تجارتی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہوں گی۔ایران میں صلاحیت ہے کہ وہ افغانستان کے تذویراتی مستقبل کو نئی جہت دے سکتا ہے اس لئے ایران کو شامل کئے بغیر جنوبی اور وسطی ایشیا میں کسی طرح کے اقتصادی ڈھانچے کی تکمیل ممکن نہیں۔“ ایران کی مدافعتی قوت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ کسی قسم کی پابندیوں کا اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
پاکستان نے 1979ءسے جاری بیرونی مداخلت اورافغانستان پر قبضے کے سبب بڑے مصائب برداشت کئے ہیں لیکن اب جارح قوتوں کے انخلاءسے یہ برے اثرات و مصائب بتدریج کم ہوتے جائینگے۔ جغرافیائی ‘ تذویراتی اورسیاسی اعتبار سے پاکستان کی اہمیت اگر ایران سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے کیونکہ جنوبی اور سطی ایشیا‘ مشرقی و مغربی ایشیا کے مابین تجارتی سرگرمیوں کےلئے پاکستان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔بلاشبہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے جس سے خطے کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے لیکن پاکستان اس وقت ’امریکی دباﺅ میں ہے جو کہ افغانستان سے نکلنے کے بعد یہاں قدم جمانا چاہتا ہے۔ ضرورت ا س امر کی ہے کہ پاکستان ایک مضبوط حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے امریکی غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکے جو اس کی قومی سلامتی کے مفادات کیلئے انتہائی ضروری ہے۔
امریکہ کایوریشیا سے ایشیائی بحرلکاہل کی جانب تذویراتی مرکز(Strategic Pivot) کے جھکاﺅسے خطے میں ابھرنے والی تین بڑی طاقتوں کاکردار بڑا اہم ہے۔ پہلی طاقت چین ‘ روس ‘ پاکستان اور ایران ہے ‘ دوسری طاقت ایران‘ پاکستان اور افغانستان پر مشتمل تکون ہے جو مسلم دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت ہے جوکہ خطے کی سلامتی کیلئے تذویراتی گہرائی Stratetic Depth مہیا کرے گا۔تیسری طاقت بھارت‘ جاپان ‘ کوریا اور آسٹریلیاہے جو ایشیائی بحرلکاہل کے علاقے میں امریکہ کے تعاون سے طاقت کے توازن کو قائم کرنے میں اہم ہیں۔ اس الجھے ہوئے سیاسی کھیل میں پاکستان کیلئے اپنا صحیح مقام حاصل کرنا ایک اہم تذویراتی و سفارتی ضرورت ہے۔ امریکہ کا کردار بھی اہم ہے کیونکہ بحیثیت ایک بڑی طاقت وہ اپنے مفادات کو خطے میں موجود ان تین طاقتوں کےساتھ تعاون سے مشروط رکھ کرپورے ایشیا میں تعمیرو ترقی کا نیا دور شروع کر سکتا ہے۔
یوریشیا سے بحرالکاہل کی جانب سیاسی و تذویراتی مرکز کی تبدیلی کا دور پاکستان کےلئے خاصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ ابھرتی ہوئی طاقتوں کے مابین طاقت کا توازن قائم کرنے میں سرگرم کردار ادا کر سکتا ہے اور چین کے سنہری اصولوں مثلاً ’امن‘ تعاون اور رابطے (Peace, Cooperation and Engagement)‘ سے راہنمائی حاصل کرتے ہوئے علاقائی تعاون پر مشتمل تعلقات کو فروغ دے سکتا ہے۔
2001ءکے سانحہ 9\\\\11 کے پس پردہ افغانستان پر حملے اور پھر قبضے کی راہ ہموار کی گئی جسکے بعد 2003ءمیں عراق کو تاراج کیا گیا۔ نیٹو اور بھارت اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر ایشیائی محاذ کے پس پشت عالمی بالادستی کے عظیم کھیل میں شامل ہو گئے۔اس محاذ کو مستحکم کرنے کی خاطر عالمی امن کو تباہ کرنے کی پالیسی اپنائی گئی لیکن یہ پالیسی عراق سے پسپائی کی صورت میں الٹی ہو چکی ہے۔ اس طرح افغانستان میں امریکہ بری طرح پھنس چکا ہے اور وہاں سے پر امن انخلاءکا راستہ ڈھونڈھنے میں ناکام ہو کر اب طالبان سے مدد کا طلبگار ہے۔ ایشیائی محاذ بری طرح ناکام ہو چکا ہے جبکہ امریکہ کی اقتصادی حالت بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے کیونکہ اسے 16 ٹریلین ڈالر خسارے کا سامنا ہے اور 14 ٹریلین ڈالر گھریلو صارفین کی دولت بربادہو چکی ہے۔ امریکہ میں بیروزگاری عروج پر ہے جس سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا اظہار جرائم کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں سے ہوتا ہے۔ عالمی بالادستی کا نشہ ٹوٹ چکا ہے جس سے امریکی استعمار کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔ بقول کرک پاٹرک سول ”شہنشاہ اوررعایا دونوں بے لباس ہو چکے ہیں۔“
ایشیائی محاذ کی ناکامی کے بعد امریکہ نے اب اپنی تمام تر توجہ کا مرکزبحر اوقیانوس کے علاقے کو بنا لیاہے جہاں نیا محاذ قائم کرنے کا ہنری کسنجرنے مشورہ دیا تھاکہ: ”عالمی بساط پر رونماہونے والی انقلابی تبدیلیاں ہمارے دور کا خاصہ ہیں۔ دنیا کی توجہ کا مرکز اب ایشیائی بحرالکاہل کی جانب تبدیل ہو رہا ہے جہاں عالمی بساط کے تمام اہم مہرے اپنے لئے نئے کرداروں کا تعین کر رہے ہیں۔ یہ نہ صرف نظریات پر اثر انداز ہوگا بلکہ اس سے عالمی طاقت کا تواز ن بھی تبدیل ہو گا ۔“ اس تبدیلی کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے صدر اوبامہ نے اپنے حالیہDefense Strategic Guidance میں واضح کیا ہے کہ اب ” ایشیا اور بحراکاہل کے خطے میں تذویراتی مرکز (Strategic Pivot)قائم کرنا ضروری ہے کیونکہ امریکی اقتصادیات اورسلامتی کے مفادات علاقہ بحرالکاہل ا ورمشرقی ایشیا سے لے کر بحر ہند کے سمندری خطے اور جنوبی ایشیا پر مشتمل حدود سے وابستہ ہیں جو کہ چیلنجوں اور مواقع سے بھر پور خطے ہیں۔“۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا ہر گزمشکل نہیں ہے کہ امریکی افواج ان خطوں میںاب سمندری جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ امریکہ سمندروں میں اپنی بحری قوت کو مضبوط بنانے اور طویل المعیاد منصوبے کے تحت 346 بحری بیڑوں کی تعداد یقینی بنارہا ہے جو کہ بجٹ میں خسارے کی وجہ سے گھٹاکر 250 کی جا رہی تھی۔ اسکے ساتھ ساتھ آئندہ دہائی میں پرانے بحری جہازوں کو بھی تبدیل کیا جائےگا تاکہ چین کے خلاف بااعتماد عسکری صلاحیت قائم ہو اور دیگر ممالک کےساتھ ملکر مضبوط سفارتی و اقتصادی روابط قائم کرنے میںکارآمد ہوں۔ ہیلری کلنٹن نے اس امریکی سفارتی حکمت عملی کو فتح سے موسوم کرتے ہوئے بحرالکاہل میںامریکی کامیابی کانام دیاہے اور” بحرالکاہل کے خطے میں امریکہ کی کامیابیوں کی نوید“ کہا ہے کیونکہ ”دو اعصاب شکن ’ تھکا دینے والی اور مہنگی ترین زمینی جنگوں سے ہاتھ اٹھا لینے کے بعد یہ بہترین حکمت عملی ہے جس کی تکمیل کیلئے صدر اوبامہ بھارت ’جاپان’ جنوبی کوریا اور آسٹریلیا جیسے ممالک پرمشتمل ایک اتحاد قائم کرنے میں مصروف ہیں تاکہ چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کےخلاف بند باندھا جا سکے۔
اوبامہ کے دفاعی تذویراتی منصوبے (Defense Strategic Guidance) میں دفائی بجٹ میںتقریبÉ 15 فیصد کٹوتی کی نشاندہی کی گئی ہے اور فوجی طاقت کو بڑھانے میں دو رخی حکمت عملی کا عندیہ دیا گیا ہے۔ پہلی تبدیلی یہ ہے کہ اب امریکہ‘ عراق و افغانستان کی طرح کسی ملک میں بلاواسطہ مداخلت نہیں کرےگا بلکہ اتحادی ممالک ہی ضروری کاروائی کرینگے جیسا کہ صومالیہ ‘ لیبیا‘ بحرین اور شام میں کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اسرائیل اور بھارت جیسی طفیلی ریاستیں امریکی طاقت اور مفادات کو آگے بڑھانے میں مدد دیں گی۔ دوسری حکمت عملی کے تحت دنیا بھر میں متعدد لڑاکا گروپ (Combat Groups) تشکیل دئیے جائینگے جو کہ مئی 2001ءمیں ایبٹ آباد میں کئے جانےوالے سرجیکل آپریشن کی طرح کاروائیاں کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوں گے ۔ مطلوبہ اہداف اور انٹیلی جنس معلومات کے حصول کیلئے ڈرونز کا استعمال بھی جاری رہے گا۔امریکہ کایوریشیا سے تذویراتی مرکز (Strategic Pivot)کا رخ ایشیائی بحرالکاہل کی جانب موڑنا پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کیلئے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔
افغانستان کواس تبدیلی سے زیادہ فائدہ ہوگاکیونکہ وہاں سے بیرونی جارحیت کا خاتمہ ہو جائےگا جو کہ ”تمام برائیوں کی جڑ“ ہے۔ اب امریکہ کو افغانستان سے پرامن انخلا ءکیلئے طالبان سے مدد مانگنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں جوکہ اوبامہ کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ تجزیہ نگار بھدرا کمار کے مطابق ”افغان عوام کو کم از کم عرب انقلاب جیسی مراعات دینا پڑیں گی جس سے اسلام اورجمہوریت میں ہم آہنگی پیدا ہو سکے۔ اہم بات یہ ہے کہ کیاامریکہ تاریخ کے رخ کے مطابق عمل کرےگا۔ ہر سمت اسلامی رحجان فتح سے ہمکنار ہو رہا ہے کیونکہ یہ واحد نظریہ حیات ہے جو دلوں کی تسکین کیلئے وسیع تر اور گہرے اثرات کا ذریعہ ہے۔“ دنیا کو اب افغانستان میںطالبان کی حکمرانی تسلیم کرنا پڑےگی کیونکہ وہ ایک وسیع البنیاد حکومت ہوگی جو امن اوراستحکام کی ضامن ہوگی۔
ایران 1979ءسے لےکر اب تک امریکی سازشوں سے نبرد آزما ہے اور تذویراتی مدافعت (Strategic Defiance) کی علامت بنا رہا ہے جس سے ایرانی قوم میں نئی جنگی صلاحیتیں اور نیا عزم و استقلال پیدا ہوا ہے۔ حال ہی میں ایران پرتیل کی ترسیلات کو محدود کرنے کی جوپابندیاں عائد کی گئی ہیں وہ الٹی ہو کریورپی درآمد کنندگان کے چہروں پر جا پڑی ہیں۔چین‘ بھارت اور پاکستان کو ایران کے ساتھ تیل کی تجارت سے فائدہ ہو گا جبکہ سعودی عرب اور روس یورپی خریداروں کو 130 تا 150 ڈالر فی بیرل کے حساب سے تیل فروخت کرینگے جس سے یورپ کی لڑکھڑاتی معیشت پر دباﺅ پڑےگا۔ ایران ایک طاقت بن چکا ہے کہ جس کےخلاف امریکہ اور ا سرائیل میں اب جنگ کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایران کی جغرافیائی و تذویراتی اہمیت بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے جوکہ ” میسو پوٹامیا‘ اناتولیا‘ کاکیشیا‘ بحیرہ کیسپئن‘ وسطی و جنوبی ایشیا‘ خلیج فارس اور بحیرہ عرب کے درمیان واقع ہے جو اہم تجارتی راستہ ہے اور ایران کے بغیر خطے میں تجارتی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہوں گی۔ایران میں صلاحیت ہے کہ وہ افغانستان کے تذویراتی مستقبل کو نئی جہت دے سکتا ہے اس لئے ایران کو شامل کئے بغیر جنوبی اور وسطی ایشیا میں کسی طرح کے اقتصادی ڈھانچے کی تکمیل ممکن نہیں۔“ ایران کی مدافعتی قوت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ کسی قسم کی پابندیوں کا اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
پاکستان نے 1979ءسے جاری بیرونی مداخلت اورافغانستان پر قبضے کے سبب بڑے مصائب برداشت کئے ہیں لیکن اب جارح قوتوں کے انخلاءسے یہ برے اثرات و مصائب بتدریج کم ہوتے جائینگے۔ جغرافیائی ‘ تذویراتی اورسیاسی اعتبار سے پاکستان کی اہمیت اگر ایران سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے کیونکہ جنوبی اور سطی ایشیا‘ مشرقی و مغربی ایشیا کے مابین تجارتی سرگرمیوں کےلئے پاکستان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔بلاشبہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے جس سے خطے کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے لیکن پاکستان اس وقت ’امریکی دباﺅ میں ہے جو کہ افغانستان سے نکلنے کے بعد یہاں قدم جمانا چاہتا ہے۔ ضرورت ا س امر کی ہے کہ پاکستان ایک مضبوط حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے امریکی غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکے جو اس کی قومی سلامتی کے مفادات کیلئے انتہائی ضروری ہے۔
امریکہ کایوریشیا سے ایشیائی بحرلکاہل کی جانب تذویراتی مرکز(Strategic Pivot) کے جھکاﺅسے خطے میں ابھرنے والی تین بڑی طاقتوں کاکردار بڑا اہم ہے۔ پہلی طاقت چین ‘ روس ‘ پاکستان اور ایران ہے ‘ دوسری طاقت ایران‘ پاکستان اور افغانستان پر مشتمل تکون ہے جو مسلم دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت ہے جوکہ خطے کی سلامتی کیلئے تذویراتی گہرائی Stratetic Depth مہیا کرے گا۔تیسری طاقت بھارت‘ جاپان ‘ کوریا اور آسٹریلیاہے جو ایشیائی بحرلکاہل کے علاقے میں امریکہ کے تعاون سے طاقت کے توازن کو قائم کرنے میں اہم ہیں۔ اس الجھے ہوئے سیاسی کھیل میں پاکستان کیلئے اپنا صحیح مقام حاصل کرنا ایک اہم تذویراتی و سفارتی ضرورت ہے۔ امریکہ کا کردار بھی اہم ہے کیونکہ بحیثیت ایک بڑی طاقت وہ اپنے مفادات کو خطے میں موجود ان تین طاقتوں کےساتھ تعاون سے مشروط رکھ کرپورے ایشیا میں تعمیرو ترقی کا نیا دور شروع کر سکتا ہے۔
یوریشیا سے بحرالکاہل کی جانب سیاسی و تذویراتی مرکز کی تبدیلی کا دور پاکستان کےلئے خاصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ ابھرتی ہوئی طاقتوں کے مابین طاقت کا توازن قائم کرنے میں سرگرم کردار ادا کر سکتا ہے اور چین کے سنہری اصولوں مثلاً ’امن‘ تعاون اور رابطے (Peace, Cooperation and Engagement)‘ سے راہنمائی حاصل کرتے ہوئے علاقائی تعاون پر مشتمل تعلقات کو فروغ دے سکتا ہے۔