چند روز پہلے حکومت کی طرف سے اخبارات میں خبر چھپوائی گئی تھی کہ امریکہ کے کہنے پر دہشت گردی کی جنگ میں 31 دسمبر 2008ء تک پاکستان کو 2080 بلین روپے کا نقصان ہوا اور صرف ایک سال یعنی 2007-08ء میں 6 کھرب 77 ارب 79 کروڑ 30 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ ڈالر کو اسی روپے کا تصور کرتے ہوئے اگر حساب لگائیں تو کل نقصان 26 بلین ڈالرز اور صرف 2007-08ء کا نقصان قریباً 8½ بلین ڈالرز بنتا ہے۔ اس حساب سے تو یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے اگر لوگز بائیڈن بل ایوانِ نمائندگان سے منظور ہوگیا تو پاکستان کو پانچ سال میں 7.5 ارب ڈالرز حاصل ہونگے اور اس کا نقصان قریباً 40 ارب ڈالرز کا ہوگا۔ اس حساب کتاب کو ایک طرف رکھتے ہوئے میں مستقبل قریب کے سیناریو پر کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں جو میرے نزدیک انتہائی بھیانک ہے وہ اس طرح کہ امریکہ عراق کو چھوڑ کر تیس ہزار فوج افغانستان لا رہا ہے۔ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ افغانستان میں جنگ طول پکڑے گی اور پاکستان کو پل صراط سے گزرنے کیلئے بڑی واضح سوچ‘ انتہائی تدبر اور شفاف انٹرنل و ایکسٹرنل پالیسیاں تشکیل دینی ہونگی جس کیلئے سلجھی ہوئی سنجیدہ اور مدبر قسم کی قیادت کی ضرورت ہے۔ میرا کسی سیاسی جماعت یا گروہ سے کوئی تعلق نہیں۔ میری دیانتدارانہ رائے یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی منظرنامہ میں اس خوبی کا فقدان ہے۔ بالخصوص موجودہ مقتدر حضرات سے تو کسی خیر کی توقع ہی نہیں جن کی سوچ ملتان اور لاڑکانہ سے آگے ہی نہیں جاتی۔ قارئین خود ہی اندازہ لگا لیں کہ مسٹر بارک حسین اوباما اور جناب آصف علی زرداری کا کوئی تقابل جچتا ہے؟ بارک حسین اوبامہ کی الیکشن مہم پر نظر ڈالیں۔ ہلیری کلنٹن کی شکست کے اسباب کو ذہن میں رکھیں اور صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد ان کی شکاگو والی تقریب کے خطاب کو بار بار سنیں تو آپ کو اندازہ ہوجائیگا کہ بارک حسین اوباما عام انسان نہیں اور وہ دنیا بھر کے سیاستدانوں پر بھاری ہے۔ امریکہ کیلئے وہ ایک خوشگوار انعام اور ہمارے لئے ایک کڑا امتحان ہے۔
آج کے معروضی حالات کا تقاضا یہ تھا کہ قومی یکجہتی کی طرف پیش قدمی کی جاتی لیکن معاملات تلخیوں سے آگے نکل کر دشمنی اور محاذ آرائی کی طرف جارہے ہیں۔ پچھلے دنوں دہشت گردی کے موضوع پر جو کل جماعتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اسے سردخانہ میں ڈال دیا گیا ہے۔ پنجاب میں اکھاڑ پچھاڑ کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ شریف برادران کی نااہلی کا کیس غلط وقت پر اٹھا دیا گیا ہے۔ عام آدمی بھی سمجھتا ہے کہ یہ بلیک میلنگ اور گھٹیا قسم کی سیاست ہے۔ 24 جنوری کا لاہور میں وکلاء کا کنونشن بلاشبہ ایک پرامن جوڈیشل انقلاب کی نوید ہے۔ پیپلزپارٹی کے عاقبت نااندیش حضرات کی طرف سے مذاق اڑانا مناسب نہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مقتدر صاحبان اپنی انا کے خول سے باہر نکلیں۔ احساس کمتری کو ترک کریں۔ اپنی صفوں سے موقع پرست اور آستین کے سانپوں کو خارج کریں۔ ملک میں گڈگورننس کو نافذ کر کے پاکستان کو بحران سے نکالنے کی جدوجہد کریں سب سے پہلے جوڈیشری کی آزادی اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کا اعلان کریں۔ زمینی حقائق بہت تلخ ہیں۔ پاکستان کی بجائے اپنی سیاسی جماعت کے مفاد کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں۔ قدم قدم پر جھوٹ بولا جارہا ہے۔ غلط بیانی کی جارہی ہے۔ منافقت کا چلن عام ہے۔ ایک ایک فٹ کی زبان نکال کر دشنام طرازی کی جارہی ہے۔ عوام کو مہنگائی کا شکار کر دیا گیا ہے۔ افغانستان میں امریکی افواج کی بلڈاپ طالبان کے خلاف تو ہے لیکن ان کا اصل نشانہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہیں۔ افراتفری پیدا کرنا ہے‘ ہلچل پیدا کر کے پاکستان کو غیرمستحکم کرنا ہے۔ پاکستان کو سینڈوچ بنایا جارہا ہے۔ سات ہزار بھارتی افواج افغانستان پہنچا دی گئی ہیں۔ مزید دس ہزار بھجوائی جارہی ہیں۔ بھارتی ’’را‘‘ اپنے سفارتخانہ اور پورے افغانستان میں پھیلے ہوئے قونصل خانوں کے ذریعہ پیش قدمی میں مصروف ہے۔ انسانی کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ پاکستانی افواج کے آپریشن میں شدت پسندوں کے علاوہ محب وطن بے گناہ قبائلی افراد بھی ہزاروں کی تعداد میں شہید ہوئے۔ بچوں کے ہاتھ‘ ٹانگیں اور آنکھیں ضائع ہوئیں۔ لاکھوں کو نوشہرہ اور پشاور کے کیمپوں میں ذلت کی زندگی گزارنے کیلئے بھجوا دیا گیا۔ ہزاروں کراچی اور پاکستان کے دوسرے شہروں کو چلے گئے۔ تاکہ بھوک کا علاج کر سکیں‘ میرے اپنے شہر فیصل آباد میں سوات اور مالاکنڈ کے ہزاروں مہاجرین ایسی جھگیوں میں مقیم ہیں جہاں زندگی کی کوئی بنیادی سہولت موجود نہیں۔ ان کے پھول جیسے بچے سڑکوں پر غبارے‘ ٹافیاں‘ بال پوائنٹ بیچتتے پھرتے ہیں۔
میں ملٹری آپریشن پر بحث نہیں کرنا چاہتی لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ Collateral Damage ضرور ہوا۔ جس کی وجہ سے سوات اور فاٹا میں حکومت کے خلاف نفرت موجود ہے۔ جس کا اظہار خودکش دھماکوں اور مسلح مقابلوں سے کیا جانا ایک فطری عمل ہے اگر آپ کسی کی ماں یا اس کے بچوں کو بمباری کر کے قتل کرینگے تو وہ آپ کو دعائیں نہیں دیگا بلکہ بارودی جیکٹ کے ذریعہ انتقام لے گا۔ جس علاقہ میں آرمی توپوں سے گولہ باری کر رہی ہے۔ ہیلی کاپٹر اور جیٹ ہوائی جہاز بمباری کر رہے ہیں وہاں کی روایات تو بہت سخت ہیں۔ ان کا انتقامی اقدام پاکستان کو مہنگا پڑے گا۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اس علاقہ کے منتخب نمائندگان کو کبھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہ کیسی جمہوری حکومت ہے جو جمہور کے نمائندوں کو گھاس ہی نہیں ڈالتی۔ امریکی سی آئی اے کا ایک نمائندہ پاکستان کی داخلی سلامتی کا محافظ بنا ہوا ہے۔ اس کی بیک گرائونڈ تو قابل تعریف نہیں ہے۔ جس ایف آئی اے میں وہ ایک معمولی اہلکار تھا وہ محکمہ تو آج بھی انسانی سمگلنگ میں مصروف ہے۔ یا پاکستان ہی واحد ملک رہ گیا ہے جہاں انتہائی اہم عہدوں پر امریکن ایجنٹوں کو لگایا جانا ضروری ہے۔ دو ایجنٹوں سے جان چھٹی تھی‘ تین مزید آگئے۔ قومی سلامتی کا برطرف شدہ مشیر بھی امریکن ایجنٹ تھا۔
حق یہ بنتا ہے کہ اس سے ضیاء الحق کے قتل کی پوچھ گچھ کی جائے۔ اس حادثہ میں پاکستان کے قابل ترین جرنیل اور دوسرے اہلکار شہید ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ بھی پورے ملک میں سکریننگ کی جائے اور سول یا آرمی میں موجود غیرملکی ایجنٹوں کا پتہ چلایا جائے لیکن یہ کام رحمن ملک تو نہیں کر سکتے۔ (جاری ہے)
مستقبل قریب میں رونما ہونے والے گلوبل چیلنج سے نمٹنے کیلئے مثبت پالیسیوں کی تشکیل سب سے اہم مسئلہ ہے جو میرے ملک کو درپیش ہے لیکن اس کے علاوہ بھی بے شمار مسائل ہیں جن پر توجہ نہیں دی جارہی اور ڈنگ ٹپائو سکیمیں بنائی جارہی ہیں‘ چند کا تذکرہ ضروری ہے:
-1 بجلی کی لوڈشیڈنگ بدستور جاری ہے۔ صنعتیں دھڑادھڑ بند ہو رہی ہیں‘ ٹیوب ویل نہیں چل پا رہے۔ عام شہری ذہنی مریض بن گئے ہیں‘ حکومت کے خلاف نفرت پیدا ہو رہی ہے۔
-2 کرپشن اور اقرباء پروری کا دور دورہ ہے۔ وفاقی سیکرٹریوں کی تھوک میں تبدیلی کے پیچھے کئی راز پوشیدہ ہیں او جی ڈی سی کے بورڈ کو تحلیل کیا گیا اور اس کے چیئرمین کو تبدیل کیا گیا۔ جرم یہ تھا کہ چیئرمین نے حکومت کے حکم پر گیس کا کوٹہ میرٹ کے بغیر دینے سے انکار کر دیا تھا۔ پی ایس او کے منیجنگ ڈائریکٹر اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو استعفٰی دینے پر مجبور کیا گیا۔ انہوں نے پبلک سیکٹر کے اداروں کو ناجائز مراعات دینے سے انکار کر دیا تھا۔ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم جو ملک کی درآمدات اور برآمدات کا 95% ہینڈل کرتی ہیں۔ وہاں سفارش‘ اقرباء پروری‘ رشوت اور رولز کی خلاف ورزیوں کے سبب حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ تفصیل بتانے کیلئے علیحدہ کالم لکھنا پڑے گا۔ ایک مثال کافی ہے‘ جس میں ایک آفیسر کو رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 16 گریڈ سے اٹھا کر 19 گریڈ میں ترقی دے دی گئی ہے۔
-3 قومی سلامتی کو بے دردی سے دائو پر لگایا جارہا ہے۔ امریکن جوائنٹ چیف آف سٹاف نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ نے حکومت پاکستان سے جو زمین خریدی ہے وہ اسلام آباد سے 20 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے جبکہ سینٹ میں آزاد گروپ کے پارلیمانی لیڈر پروفیسر خورشید نے تحریک التواء کے ذریعہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ زمین تربیلا کے قریب ہے۔ ستمبر 2008ء میں تین سو امریکی فوجی 20 عدد بڑے کنٹینرز کے ساتھ اس مقام پر پہنچے تھے۔ ان کنٹینرز میں کیا کچھ لایا گیا تھا۔ اس کا علم کسی کو نہیں۔ پاکستان کسٹمز تو امریکی کتے کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں پچھلی حکومت کے دوران امریکی تیز رفتار فوج (Rapid Deployment Force) مقیم تھی۔ جسے ہیلی کاپٹروں اور جنگی جہازوں کے استعمال کیلئے رن وے بھی دیا گیا تھا۔ پاکستان کے دارالخلافہ کے قریب امریکی فوجوں کا قیام کسی وقت بھی نقصان کا باعث ہوسکتا ہے۔
-4 پاکستان کا سرمایہ باہر منتقل ہونے پر ابھی تک کوئی کنٹرول نہیں ہوسکا۔ 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ سے آج تک 30 بلین ڈالرز پاکستان سے باہر بھجوائے گئے۔ زیادہ تر دبئی میں انویسٹ کئے گئے۔ جہاں پاکستان کے کئی معروف بزنس مین بھارتی باشندوں کے ساتھ مل کر کاروبار کر رہے ہیں۔ بڑے خاندانوں کی خواتین و حضرات نے اربوں ڈالرز غیرقانونی طریقہ سے ملک سے باہر بھجوائے۔ ان میں سابق سیکرٹری دفاع کامران رسول بھی تھے۔ جنہوں نے ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ کے قریب ہے اور جس کے نتیجہ میں پاکستانی بنکوں سے 100 بلین روپیہ افراتفری میں نکلوا لیا گیا تھا۔ پلاننگ کمشن کے ڈپٹی چیئرمین سردار آصف احمد علی نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق دور میں ملک میں آنیوالے 50 بلین ڈالرز باہر بھجوائے گئے تھے اور سینٹ کے اجلاس میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر حاجی عدیل خان نے پاکستان کے سیاستدانوں‘ بیوروکریٹس اور بنکرز کے بیرون ملک اکائونٹس کی تفصیل پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ایک بنکر کے 2 ارب 50 کروڑ ڈالرز ایک سیاستدان کے 1 ارب 80 کروڑ ڈالرز اور ایک دوسرے سیاستدان کے 1 ارب 40 کروڑ ڈالرز غیرملکی بنکوں میں موجود ہیں۔ کیا حکومت نے اس سلسلہ میں کسی انکوائری کا اہتمام کیا؟ پچھلے دنوں جب ایکسچینج ڈیلرز کو گرفتار کیا گیا تھا اور جنہیں ذلیل کرنے کیلئے ٹی وی پر بار بار دکھایا گیا تھا‘ ان کے جرم ابھی تک پوشیدہ ہیں اور کسی عدالت میں چالان پیش نہیں کیا گیا۔ اس سلسلہ میں شکوک و شبہات اور کسی ڈیل کے بارے میں چہ میگوئیاں ہر محفل میں کی جارہی ہیں۔ بظاہر شفافیت مفقود ہے‘ پنجاب بنک کے سربراہ ہمیش خان اربوں روپیہ کا غبن کر کے ملک سے باہر بھاگ گئے۔ حکومتی اہلکاروں نے یہ کارنامہ انجام دیا‘ کسی کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا۔
-5 حکومت نے سابقہ حکومتوں کی روٹین پالیسیوں کو اختیار کر رکھا ہے۔ قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ 2619 ڈکلیئریشنز کے ذریعہ 21 بلین روپے کا وہائٹ کیا گیا ہے‘ جس سے 420.27 ملین روپے ٹیکس کی مد میں وصول کئے گئے۔ کراچی کے ایک شہری نے 2 ارب 46 کروڑ کالا دھن 2% پینلٹی دے کر سفید کرا لیا۔ پہلی حکومتیں 10% پینلٹی وصول کر کے کالا دھن سفید کیا کرتی تھیں۔ موجودہ حکومت نے ٹیکس چوروں کو 8% کی رعایت دے دی۔ 21 بلین کوئی معمولی رقم نہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹیکس چوری کا کلچر پاکستان میں عروج پر ہے اور تھوڑی سی پینلٹی ادا کر کے کوئی بھی ملک دشمن باعزت شہری بن سکتا ہے۔
-6 امن عامہ کی خرابی کی وجہ سے سرمایہ کاری کو دھچکا:
کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول بہت ضروری ہے۔ دہشت گردی‘ خودکش دھماکوں‘ اغواء برائے تاوان‘ ڈکیتیوں اور بجلی کی لوڈشیڈنگ نے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کو شدید متاثر کیا ہے۔ قطر کی ایک فرم دس ہزار ایکڑ پر لائیو سٹاک فارم قائم کرنا چاہتی تھی۔ کویت میں قائم ایک امریکی فرم 2 بلین ڈالرز سے پوٹ قاسم میں ریفائنری قائم کرنا چاہتی تھی۔ مڈل ایسٹ کی ہی ایک کمپنی کراچی میں فائیو سٹار ہوٹل تعمیر کرنا چاہتی تھی۔ یہ تینوں پراجیکٹس بدامنی کی نذر ہوگئے۔ پچھلے ہفتہ کے دوران سب سے تکلیف دہ نقصان ہوا جب امارات نے حب میں آئل ریفائنری کے منصوبہ پر عملدرآمد سے انکار کر دیا۔ ان عظیم منصوبہ پر 5 بلین ڈالرز کی انویسٹ متوقع تھی۔ اس ڈیل کی ناکامی کا سبب وزیراعظم کے مشیر برائے آئل و گیس ڈاکٹر عاصم حسین کو بتایا جارہا ہے۔
-7 فضول خرچیاں‘ نااہلی‘ حماقتیں اور بدانتظامی:
ایک طویل فہرست میں سے چند کا تذکرہ کرنا چاہتی ہوں:
1996ء سے 1998ء کے دوران میرٹ پر پورا نہ اترنے والے سرکاری ملازمین کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے ان جیالوں کو بینظیر بھٹو کے دور میں رولز کی خلاف ورزی کر کے بھرتی کیا گیا تھا۔ ان ملازمین کو اپنی حق رسی کیلئے مواقع حاصل تھے۔ اب وفاقی کابینہ نے تمام 7700 ملازمین کو سابقہ تنخواہ اور مراعات دینے کے ساتھ ساتھ اگلے گریڈ میں ترقی دے کر بحال کر دیا گیا۔ اس ’’داد رسی‘‘ پر ملک کو 8 ارب روپے کا ٹیکہ لگے گا۔ میں سمجھتی تھی کہ جناب شوکت ترین اصولی موقف اختیار کرینگے لیکن وہ بھی حماقتوں کے اس سمندر میں ڈوب گئے۔ اب اگر یہ سلسلہ چل نکلا ہے تو پیپلزپارٹی کے جن جیالے ججز کو ہائیکورٹ سے فارغ کیا گیا تھا انہیں بھی بحال کر دیا جائے۔
لاہور ہائیکورٹ کیلئے جن تیس نئے ججز کے ناموں پر فیصلہ کر لیا گیا ہے ان میں تین سیشن جج ہیں۔ تین وزراء کے بھائی یا رشتہ دار ہیں۔ تین سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز کے بیٹے ہیں اور باقی تمام جیالے ہیں۔ اکیسویں صدی میں پیپلزپارٹی ایک مرتبہ پھر نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ ہائیکورٹ میں ججوں کا تقرر بھی وراثت بنایا جارہا ہے۔ بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں نااہل جیالوں کو بغیر میرٹ کے ججز بنا دیا گیا تھا جو بے عزت ہو کر نکلے تھے۔ اسی دور میں جہانگیر بدر کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی بات بھی کی گئی تھی‘ حیرانی ہے کہ پیپلزپارٹی نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
کالاباغ ڈیم کی پلاننگ اور فزیبلٹی رپورٹ کی تیاری پر 1.23 بلین روپے خرچ ہوئے تھے۔ یہ ایک ایسا قومی منصوبہ تھا جس پر ملک کی خوشحالی کا دارومدار تھا۔ ایک ناتجربہ کار وفاقی وزیر نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر ہی اس منصوبہ کو منسوخ کر دیا۔
وفاقی حکومت بروقت یوریا کھاد امپورٹ نہ کر سکی۔ کسان پریشانی میں جلوس نکال رہے ہیں۔ ذخیرہ اندوز بلیک مارکیٹ کے ذریعہ ڈیڑھ گنا قیمت چارج کر رہے ہیں۔ ان حالات میں زرعی پیداوار میں خودکفالت کا خواب کیسے پورا ہوسکتا ہے؟
اسلام آباد میں سرکاری رہائش گاہوں کی الاٹمنٹ کسی اصول یا ضابطے کے تحت نہیں کی جارہی۔ الاٹمنٹ کیلئے کسی بڑے آدمی کی سفارش ضروری ہے‘ یہ رولز کس مرض کی دوا ہیں؟
سی ڈی اے میں سڑکوں‘ شاہراہوں کی تعمیر میں بڑے بڑے گھپلوں کی کہانیاں اخبارات کا موضوع بن گئی ہیں۔
پنجاب اسمبلی کی نئی بلڈنگ تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ کاش ہمارے پارلیمانی نمائندے ٹی وی پر برطانیہ کے ہائوس آف کامنز کی تصویر دیکھ لیتے۔ جہاں بنچوں پر بیٹھ کر آدھی دنیا پر حکومت کی جاتی رہی ہے۔ انہوں نے تو کوئی نیا پارلیمنٹ ہائوس تعمیر نہیں کیا۔
سرحد حکومت نے اے این پی کے ممبران اسمبلی کو سرکاری گاڑیاں عنایت کر دی ہیں۔ یہ ایک نئی روایت ہے جو باچا خان کے وارثان نے قائم کی ہے۔
حج کے دوران کوٹہ بڑھانے کیلئے نذرانے لئے جاتے رہے۔
منسٹری آف حج کی بدانتظامی کی وجہ سے پاسپورٹ بروقت نہ ملے اور پی آئی اے کی فلائٹس کی انڈور لوڈنگ کی وجہ سے اس قومی ادارہ کو کروڑوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔
کراچی پورٹ پر آٹھ برتھ ناقابل استعمال ہیں۔ اس لئے درآمد شدہ گندم کی ان لوڈنگ بروقت نہیں ہوتی۔ زیادہ کرایہ اور ڈیمرج کی مد میں ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کو روزانہ 50 ہزار ڈالر ادا کرنا پڑ رہا ہے۔
سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس میں پچاس پچاس لاکھ روپے کا سوپ پیا جاتا ہے۔ (شایدسوپ میں نہایا جاتا ہو)
نوڈیرو میں بھٹو خاندان کا جو مکان ہے اس کی حفاظتی دیوار کیلئے قومی خزانہ سے 8 کروڑ خرچ کیا جائیگا۔
ایوانِ صدر کی تزئین و آرائش کیلئے بھی 11 کروڑ سے زائد کی منظوری دی گئی ہے۔ (ٹی وی پر پٹی چل رہی تھی)
وزیراعظم DAVOS تشریف لے جارہے تھے‘ پاکستان کو کیا ملا ہے وہاں سے؟
حماقتوں‘ فضول خرچیوں اور نااہلی کی داستان تو بہت طویل ہے۔ اخباری مضمون میں تو نہیں سما سکتی۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ہونے والی تکلیف اور معاشی نقصان اپنی جگہ‘ سیاسی جماعتوں کی قلابازیاں‘ وزارتوں کے تقاضے بھی منظور لیکن جس سب سے اہم مسئلہ پر سب کو دھیان دینا چاہئے وہ امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد گلوبل چیلنج ہے۔ نئی امریکی حکومت کا فوکس افغانستان اور پاکستان ہوگا۔ مسٹر ہالبروک کا سپیشل نمائندے کی حیثیت سے تقرر اگرچہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ان کی اہلیت‘ بصیرت‘ تجربے اور مثبت سوچ سے پوری دنیا واقف ہے لیکن ہالبروک ہوں یا بارک اوباما کوئی بھی امریکن اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں سے انحراف نہیں کر سکتا۔ یہ ایک ایسا جن ہے جو پاکستان سمیت تمام ممالک میں اپنے وجود کو منواتا ہے۔ آج کے انتہائی گمھبیر سیاسی منظرنامہ میں دور دور تک اندھیرا نظر آرہا ہے۔ پاکستان میں دوسرے تیسرے درجہ کے کونے سیاستدان 16 کروڑ بے زبان اور بے شعور لوگوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ انہیں قائد کہنا اس لفظ کی توہین ہے۔ ان کا کوئی سٹیک پاکستان میں نہیں۔ یہ ملک ان کے ایجنڈا کا حصہ نہیں۔ اس لئے دھڑا دھڑ جائز‘ ناجائز رولز کے خلاف اور آئین سے متصادم فیصلے کر رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ذاتی و سیاسی معاملات پر ملکی مفاد کو قربان کر رہے ہیں۔ یہ ایٹمی پاکستان کی سلامتی کو دائو پر لگا سکتے ہیں۔ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم ایک گڑھے سے نکل کر گہری کھائی میں جاگرے ہیں۔ بقول منیر نیازی؎
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
جو ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
آج کے معروضی حالات کا تقاضا یہ تھا کہ قومی یکجہتی کی طرف پیش قدمی کی جاتی لیکن معاملات تلخیوں سے آگے نکل کر دشمنی اور محاذ آرائی کی طرف جارہے ہیں۔ پچھلے دنوں دہشت گردی کے موضوع پر جو کل جماعتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اسے سردخانہ میں ڈال دیا گیا ہے۔ پنجاب میں اکھاڑ پچھاڑ کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ شریف برادران کی نااہلی کا کیس غلط وقت پر اٹھا دیا گیا ہے۔ عام آدمی بھی سمجھتا ہے کہ یہ بلیک میلنگ اور گھٹیا قسم کی سیاست ہے۔ 24 جنوری کا لاہور میں وکلاء کا کنونشن بلاشبہ ایک پرامن جوڈیشل انقلاب کی نوید ہے۔ پیپلزپارٹی کے عاقبت نااندیش حضرات کی طرف سے مذاق اڑانا مناسب نہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مقتدر صاحبان اپنی انا کے خول سے باہر نکلیں۔ احساس کمتری کو ترک کریں۔ اپنی صفوں سے موقع پرست اور آستین کے سانپوں کو خارج کریں۔ ملک میں گڈگورننس کو نافذ کر کے پاکستان کو بحران سے نکالنے کی جدوجہد کریں سب سے پہلے جوڈیشری کی آزادی اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کا اعلان کریں۔ زمینی حقائق بہت تلخ ہیں۔ پاکستان کی بجائے اپنی سیاسی جماعت کے مفاد کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں۔ قدم قدم پر جھوٹ بولا جارہا ہے۔ غلط بیانی کی جارہی ہے۔ منافقت کا چلن عام ہے۔ ایک ایک فٹ کی زبان نکال کر دشنام طرازی کی جارہی ہے۔ عوام کو مہنگائی کا شکار کر دیا گیا ہے۔ افغانستان میں امریکی افواج کی بلڈاپ طالبان کے خلاف تو ہے لیکن ان کا اصل نشانہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہیں۔ افراتفری پیدا کرنا ہے‘ ہلچل پیدا کر کے پاکستان کو غیرمستحکم کرنا ہے۔ پاکستان کو سینڈوچ بنایا جارہا ہے۔ سات ہزار بھارتی افواج افغانستان پہنچا دی گئی ہیں۔ مزید دس ہزار بھجوائی جارہی ہیں۔ بھارتی ’’را‘‘ اپنے سفارتخانہ اور پورے افغانستان میں پھیلے ہوئے قونصل خانوں کے ذریعہ پیش قدمی میں مصروف ہے۔ انسانی کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ پاکستانی افواج کے آپریشن میں شدت پسندوں کے علاوہ محب وطن بے گناہ قبائلی افراد بھی ہزاروں کی تعداد میں شہید ہوئے۔ بچوں کے ہاتھ‘ ٹانگیں اور آنکھیں ضائع ہوئیں۔ لاکھوں کو نوشہرہ اور پشاور کے کیمپوں میں ذلت کی زندگی گزارنے کیلئے بھجوا دیا گیا۔ ہزاروں کراچی اور پاکستان کے دوسرے شہروں کو چلے گئے۔ تاکہ بھوک کا علاج کر سکیں‘ میرے اپنے شہر فیصل آباد میں سوات اور مالاکنڈ کے ہزاروں مہاجرین ایسی جھگیوں میں مقیم ہیں جہاں زندگی کی کوئی بنیادی سہولت موجود نہیں۔ ان کے پھول جیسے بچے سڑکوں پر غبارے‘ ٹافیاں‘ بال پوائنٹ بیچتتے پھرتے ہیں۔
میں ملٹری آپریشن پر بحث نہیں کرنا چاہتی لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ Collateral Damage ضرور ہوا۔ جس کی وجہ سے سوات اور فاٹا میں حکومت کے خلاف نفرت موجود ہے۔ جس کا اظہار خودکش دھماکوں اور مسلح مقابلوں سے کیا جانا ایک فطری عمل ہے اگر آپ کسی کی ماں یا اس کے بچوں کو بمباری کر کے قتل کرینگے تو وہ آپ کو دعائیں نہیں دیگا بلکہ بارودی جیکٹ کے ذریعہ انتقام لے گا۔ جس علاقہ میں آرمی توپوں سے گولہ باری کر رہی ہے۔ ہیلی کاپٹر اور جیٹ ہوائی جہاز بمباری کر رہے ہیں وہاں کی روایات تو بہت سخت ہیں۔ ان کا انتقامی اقدام پاکستان کو مہنگا پڑے گا۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اس علاقہ کے منتخب نمائندگان کو کبھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہ کیسی جمہوری حکومت ہے جو جمہور کے نمائندوں کو گھاس ہی نہیں ڈالتی۔ امریکی سی آئی اے کا ایک نمائندہ پاکستان کی داخلی سلامتی کا محافظ بنا ہوا ہے۔ اس کی بیک گرائونڈ تو قابل تعریف نہیں ہے۔ جس ایف آئی اے میں وہ ایک معمولی اہلکار تھا وہ محکمہ تو آج بھی انسانی سمگلنگ میں مصروف ہے۔ یا پاکستان ہی واحد ملک رہ گیا ہے جہاں انتہائی اہم عہدوں پر امریکن ایجنٹوں کو لگایا جانا ضروری ہے۔ دو ایجنٹوں سے جان چھٹی تھی‘ تین مزید آگئے۔ قومی سلامتی کا برطرف شدہ مشیر بھی امریکن ایجنٹ تھا۔
حق یہ بنتا ہے کہ اس سے ضیاء الحق کے قتل کی پوچھ گچھ کی جائے۔ اس حادثہ میں پاکستان کے قابل ترین جرنیل اور دوسرے اہلکار شہید ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ بھی پورے ملک میں سکریننگ کی جائے اور سول یا آرمی میں موجود غیرملکی ایجنٹوں کا پتہ چلایا جائے لیکن یہ کام رحمن ملک تو نہیں کر سکتے۔ (جاری ہے)
مستقبل قریب میں رونما ہونے والے گلوبل چیلنج سے نمٹنے کیلئے مثبت پالیسیوں کی تشکیل سب سے اہم مسئلہ ہے جو میرے ملک کو درپیش ہے لیکن اس کے علاوہ بھی بے شمار مسائل ہیں جن پر توجہ نہیں دی جارہی اور ڈنگ ٹپائو سکیمیں بنائی جارہی ہیں‘ چند کا تذکرہ ضروری ہے:
-1 بجلی کی لوڈشیڈنگ بدستور جاری ہے۔ صنعتیں دھڑادھڑ بند ہو رہی ہیں‘ ٹیوب ویل نہیں چل پا رہے۔ عام شہری ذہنی مریض بن گئے ہیں‘ حکومت کے خلاف نفرت پیدا ہو رہی ہے۔
-2 کرپشن اور اقرباء پروری کا دور دورہ ہے۔ وفاقی سیکرٹریوں کی تھوک میں تبدیلی کے پیچھے کئی راز پوشیدہ ہیں او جی ڈی سی کے بورڈ کو تحلیل کیا گیا اور اس کے چیئرمین کو تبدیل کیا گیا۔ جرم یہ تھا کہ چیئرمین نے حکومت کے حکم پر گیس کا کوٹہ میرٹ کے بغیر دینے سے انکار کر دیا تھا۔ پی ایس او کے منیجنگ ڈائریکٹر اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو استعفٰی دینے پر مجبور کیا گیا۔ انہوں نے پبلک سیکٹر کے اداروں کو ناجائز مراعات دینے سے انکار کر دیا تھا۔ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم جو ملک کی درآمدات اور برآمدات کا 95% ہینڈل کرتی ہیں۔ وہاں سفارش‘ اقرباء پروری‘ رشوت اور رولز کی خلاف ورزیوں کے سبب حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ تفصیل بتانے کیلئے علیحدہ کالم لکھنا پڑے گا۔ ایک مثال کافی ہے‘ جس میں ایک آفیسر کو رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 16 گریڈ سے اٹھا کر 19 گریڈ میں ترقی دے دی گئی ہے۔
-3 قومی سلامتی کو بے دردی سے دائو پر لگایا جارہا ہے۔ امریکن جوائنٹ چیف آف سٹاف نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ نے حکومت پاکستان سے جو زمین خریدی ہے وہ اسلام آباد سے 20 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے جبکہ سینٹ میں آزاد گروپ کے پارلیمانی لیڈر پروفیسر خورشید نے تحریک التواء کے ذریعہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ زمین تربیلا کے قریب ہے۔ ستمبر 2008ء میں تین سو امریکی فوجی 20 عدد بڑے کنٹینرز کے ساتھ اس مقام پر پہنچے تھے۔ ان کنٹینرز میں کیا کچھ لایا گیا تھا۔ اس کا علم کسی کو نہیں۔ پاکستان کسٹمز تو امریکی کتے کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں پچھلی حکومت کے دوران امریکی تیز رفتار فوج (Rapid Deployment Force) مقیم تھی۔ جسے ہیلی کاپٹروں اور جنگی جہازوں کے استعمال کیلئے رن وے بھی دیا گیا تھا۔ پاکستان کے دارالخلافہ کے قریب امریکی فوجوں کا قیام کسی وقت بھی نقصان کا باعث ہوسکتا ہے۔
-4 پاکستان کا سرمایہ باہر منتقل ہونے پر ابھی تک کوئی کنٹرول نہیں ہوسکا۔ 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ سے آج تک 30 بلین ڈالرز پاکستان سے باہر بھجوائے گئے۔ زیادہ تر دبئی میں انویسٹ کئے گئے۔ جہاں پاکستان کے کئی معروف بزنس مین بھارتی باشندوں کے ساتھ مل کر کاروبار کر رہے ہیں۔ بڑے خاندانوں کی خواتین و حضرات نے اربوں ڈالرز غیرقانونی طریقہ سے ملک سے باہر بھجوائے۔ ان میں سابق سیکرٹری دفاع کامران رسول بھی تھے۔ جنہوں نے ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ کے قریب ہے اور جس کے نتیجہ میں پاکستانی بنکوں سے 100 بلین روپیہ افراتفری میں نکلوا لیا گیا تھا۔ پلاننگ کمشن کے ڈپٹی چیئرمین سردار آصف احمد علی نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق دور میں ملک میں آنیوالے 50 بلین ڈالرز باہر بھجوائے گئے تھے اور سینٹ کے اجلاس میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر حاجی عدیل خان نے پاکستان کے سیاستدانوں‘ بیوروکریٹس اور بنکرز کے بیرون ملک اکائونٹس کی تفصیل پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ایک بنکر کے 2 ارب 50 کروڑ ڈالرز ایک سیاستدان کے 1 ارب 80 کروڑ ڈالرز اور ایک دوسرے سیاستدان کے 1 ارب 40 کروڑ ڈالرز غیرملکی بنکوں میں موجود ہیں۔ کیا حکومت نے اس سلسلہ میں کسی انکوائری کا اہتمام کیا؟ پچھلے دنوں جب ایکسچینج ڈیلرز کو گرفتار کیا گیا تھا اور جنہیں ذلیل کرنے کیلئے ٹی وی پر بار بار دکھایا گیا تھا‘ ان کے جرم ابھی تک پوشیدہ ہیں اور کسی عدالت میں چالان پیش نہیں کیا گیا۔ اس سلسلہ میں شکوک و شبہات اور کسی ڈیل کے بارے میں چہ میگوئیاں ہر محفل میں کی جارہی ہیں۔ بظاہر شفافیت مفقود ہے‘ پنجاب بنک کے سربراہ ہمیش خان اربوں روپیہ کا غبن کر کے ملک سے باہر بھاگ گئے۔ حکومتی اہلکاروں نے یہ کارنامہ انجام دیا‘ کسی کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا۔
-5 حکومت نے سابقہ حکومتوں کی روٹین پالیسیوں کو اختیار کر رکھا ہے۔ قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ 2619 ڈکلیئریشنز کے ذریعہ 21 بلین روپے کا وہائٹ کیا گیا ہے‘ جس سے 420.27 ملین روپے ٹیکس کی مد میں وصول کئے گئے۔ کراچی کے ایک شہری نے 2 ارب 46 کروڑ کالا دھن 2% پینلٹی دے کر سفید کرا لیا۔ پہلی حکومتیں 10% پینلٹی وصول کر کے کالا دھن سفید کیا کرتی تھیں۔ موجودہ حکومت نے ٹیکس چوروں کو 8% کی رعایت دے دی۔ 21 بلین کوئی معمولی رقم نہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹیکس چوری کا کلچر پاکستان میں عروج پر ہے اور تھوڑی سی پینلٹی ادا کر کے کوئی بھی ملک دشمن باعزت شہری بن سکتا ہے۔
-6 امن عامہ کی خرابی کی وجہ سے سرمایہ کاری کو دھچکا:
کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول بہت ضروری ہے۔ دہشت گردی‘ خودکش دھماکوں‘ اغواء برائے تاوان‘ ڈکیتیوں اور بجلی کی لوڈشیڈنگ نے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کو شدید متاثر کیا ہے۔ قطر کی ایک فرم دس ہزار ایکڑ پر لائیو سٹاک فارم قائم کرنا چاہتی تھی۔ کویت میں قائم ایک امریکی فرم 2 بلین ڈالرز سے پوٹ قاسم میں ریفائنری قائم کرنا چاہتی تھی۔ مڈل ایسٹ کی ہی ایک کمپنی کراچی میں فائیو سٹار ہوٹل تعمیر کرنا چاہتی تھی۔ یہ تینوں پراجیکٹس بدامنی کی نذر ہوگئے۔ پچھلے ہفتہ کے دوران سب سے تکلیف دہ نقصان ہوا جب امارات نے حب میں آئل ریفائنری کے منصوبہ پر عملدرآمد سے انکار کر دیا۔ ان عظیم منصوبہ پر 5 بلین ڈالرز کی انویسٹ متوقع تھی۔ اس ڈیل کی ناکامی کا سبب وزیراعظم کے مشیر برائے آئل و گیس ڈاکٹر عاصم حسین کو بتایا جارہا ہے۔
-7 فضول خرچیاں‘ نااہلی‘ حماقتیں اور بدانتظامی:
ایک طویل فہرست میں سے چند کا تذکرہ کرنا چاہتی ہوں:
1996ء سے 1998ء کے دوران میرٹ پر پورا نہ اترنے والے سرکاری ملازمین کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے ان جیالوں کو بینظیر بھٹو کے دور میں رولز کی خلاف ورزی کر کے بھرتی کیا گیا تھا۔ ان ملازمین کو اپنی حق رسی کیلئے مواقع حاصل تھے۔ اب وفاقی کابینہ نے تمام 7700 ملازمین کو سابقہ تنخواہ اور مراعات دینے کے ساتھ ساتھ اگلے گریڈ میں ترقی دے کر بحال کر دیا گیا۔ اس ’’داد رسی‘‘ پر ملک کو 8 ارب روپے کا ٹیکہ لگے گا۔ میں سمجھتی تھی کہ جناب شوکت ترین اصولی موقف اختیار کرینگے لیکن وہ بھی حماقتوں کے اس سمندر میں ڈوب گئے۔ اب اگر یہ سلسلہ چل نکلا ہے تو پیپلزپارٹی کے جن جیالے ججز کو ہائیکورٹ سے فارغ کیا گیا تھا انہیں بھی بحال کر دیا جائے۔
لاہور ہائیکورٹ کیلئے جن تیس نئے ججز کے ناموں پر فیصلہ کر لیا گیا ہے ان میں تین سیشن جج ہیں۔ تین وزراء کے بھائی یا رشتہ دار ہیں۔ تین سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز کے بیٹے ہیں اور باقی تمام جیالے ہیں۔ اکیسویں صدی میں پیپلزپارٹی ایک مرتبہ پھر نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ ہائیکورٹ میں ججوں کا تقرر بھی وراثت بنایا جارہا ہے۔ بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں نااہل جیالوں کو بغیر میرٹ کے ججز بنا دیا گیا تھا جو بے عزت ہو کر نکلے تھے۔ اسی دور میں جہانگیر بدر کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی بات بھی کی گئی تھی‘ حیرانی ہے کہ پیپلزپارٹی نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
کالاباغ ڈیم کی پلاننگ اور فزیبلٹی رپورٹ کی تیاری پر 1.23 بلین روپے خرچ ہوئے تھے۔ یہ ایک ایسا قومی منصوبہ تھا جس پر ملک کی خوشحالی کا دارومدار تھا۔ ایک ناتجربہ کار وفاقی وزیر نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر ہی اس منصوبہ کو منسوخ کر دیا۔
وفاقی حکومت بروقت یوریا کھاد امپورٹ نہ کر سکی۔ کسان پریشانی میں جلوس نکال رہے ہیں۔ ذخیرہ اندوز بلیک مارکیٹ کے ذریعہ ڈیڑھ گنا قیمت چارج کر رہے ہیں۔ ان حالات میں زرعی پیداوار میں خودکفالت کا خواب کیسے پورا ہوسکتا ہے؟
اسلام آباد میں سرکاری رہائش گاہوں کی الاٹمنٹ کسی اصول یا ضابطے کے تحت نہیں کی جارہی۔ الاٹمنٹ کیلئے کسی بڑے آدمی کی سفارش ضروری ہے‘ یہ رولز کس مرض کی دوا ہیں؟
سی ڈی اے میں سڑکوں‘ شاہراہوں کی تعمیر میں بڑے بڑے گھپلوں کی کہانیاں اخبارات کا موضوع بن گئی ہیں۔
پنجاب اسمبلی کی نئی بلڈنگ تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ کاش ہمارے پارلیمانی نمائندے ٹی وی پر برطانیہ کے ہائوس آف کامنز کی تصویر دیکھ لیتے۔ جہاں بنچوں پر بیٹھ کر آدھی دنیا پر حکومت کی جاتی رہی ہے۔ انہوں نے تو کوئی نیا پارلیمنٹ ہائوس تعمیر نہیں کیا۔
سرحد حکومت نے اے این پی کے ممبران اسمبلی کو سرکاری گاڑیاں عنایت کر دی ہیں۔ یہ ایک نئی روایت ہے جو باچا خان کے وارثان نے قائم کی ہے۔
حج کے دوران کوٹہ بڑھانے کیلئے نذرانے لئے جاتے رہے۔
منسٹری آف حج کی بدانتظامی کی وجہ سے پاسپورٹ بروقت نہ ملے اور پی آئی اے کی فلائٹس کی انڈور لوڈنگ کی وجہ سے اس قومی ادارہ کو کروڑوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔
کراچی پورٹ پر آٹھ برتھ ناقابل استعمال ہیں۔ اس لئے درآمد شدہ گندم کی ان لوڈنگ بروقت نہیں ہوتی۔ زیادہ کرایہ اور ڈیمرج کی مد میں ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کو روزانہ 50 ہزار ڈالر ادا کرنا پڑ رہا ہے۔
سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس میں پچاس پچاس لاکھ روپے کا سوپ پیا جاتا ہے۔ (شایدسوپ میں نہایا جاتا ہو)
نوڈیرو میں بھٹو خاندان کا جو مکان ہے اس کی حفاظتی دیوار کیلئے قومی خزانہ سے 8 کروڑ خرچ کیا جائیگا۔
ایوانِ صدر کی تزئین و آرائش کیلئے بھی 11 کروڑ سے زائد کی منظوری دی گئی ہے۔ (ٹی وی پر پٹی چل رہی تھی)
وزیراعظم DAVOS تشریف لے جارہے تھے‘ پاکستان کو کیا ملا ہے وہاں سے؟
حماقتوں‘ فضول خرچیوں اور نااہلی کی داستان تو بہت طویل ہے۔ اخباری مضمون میں تو نہیں سما سکتی۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ہونے والی تکلیف اور معاشی نقصان اپنی جگہ‘ سیاسی جماعتوں کی قلابازیاں‘ وزارتوں کے تقاضے بھی منظور لیکن جس سب سے اہم مسئلہ پر سب کو دھیان دینا چاہئے وہ امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد گلوبل چیلنج ہے۔ نئی امریکی حکومت کا فوکس افغانستان اور پاکستان ہوگا۔ مسٹر ہالبروک کا سپیشل نمائندے کی حیثیت سے تقرر اگرچہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ان کی اہلیت‘ بصیرت‘ تجربے اور مثبت سوچ سے پوری دنیا واقف ہے لیکن ہالبروک ہوں یا بارک اوباما کوئی بھی امریکن اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں سے انحراف نہیں کر سکتا۔ یہ ایک ایسا جن ہے جو پاکستان سمیت تمام ممالک میں اپنے وجود کو منواتا ہے۔ آج کے انتہائی گمھبیر سیاسی منظرنامہ میں دور دور تک اندھیرا نظر آرہا ہے۔ پاکستان میں دوسرے تیسرے درجہ کے کونے سیاستدان 16 کروڑ بے زبان اور بے شعور لوگوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ انہیں قائد کہنا اس لفظ کی توہین ہے۔ ان کا کوئی سٹیک پاکستان میں نہیں۔ یہ ملک ان کے ایجنڈا کا حصہ نہیں۔ اس لئے دھڑا دھڑ جائز‘ ناجائز رولز کے خلاف اور آئین سے متصادم فیصلے کر رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ذاتی و سیاسی معاملات پر ملکی مفاد کو قربان کر رہے ہیں۔ یہ ایٹمی پاکستان کی سلامتی کو دائو پر لگا سکتے ہیں۔ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم ایک گڑھے سے نکل کر گہری کھائی میں جاگرے ہیں۔ بقول منیر نیازی؎
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
جو ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا