مہنگائی،لاقانونیت،گراں فروشی

پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔آئی ایم ایف کے شکنجے اور ناقابل برداشت کڑی شرائط میں جکڑا ہوا اور گردشی قرضوں کی دلدل میں دھنسا پاکستان مہنگائی،گراں فروشی ،چور بازاری، وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم،اشرافیہ کے شاہانہ اخراجات، بیوروکریسی، پارلیمنٹیرینز کی بھاری تنخواہوں، مراعات، مہنگے انصاف،صحت وتعلیم کی سہولیات کی مناسب فراہمی نہ ہونے،بنیادی انسانی حقوق کے قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے،بنیادی سہولیات کی یکساں فراہمی نہ ہونے اور قدرتی آفت سیلاب کی وسیع پمانے پر تباہ کاریوں کی وجہ سے بے شمار مسائل سے دوچار ہے ۔دور جدید میں سائنس کی ترقی اور وسائل کی دستیابی کے باوجود عوام کو مہنگی ترین بجلی ، نجی کمپنیوں کو سستا فیول دینے کے معاہدے کے تحت فیول ایڈجسٹمنٹ،ٹیکسز،وغیرہ کا بوجھ عوام پر ڈال کر،عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود عوام کو مہنگا ترین تیل فروخت کرکے ان کی جیبوں پر ان کی حکومت ہی ایسا ڈاکہ ڈال رہی ہے کہ عوام اپنا پیٹ کاٹ کر بھی یوٹیلیٹی بلز ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ان حالات میں سرکاری ملازمین کی بالخصوص اعلی افسران کے شاہانہ اخراجات اور بھاری تنخواہوں پر کٹ لگانے کی ضرورت ہے۔ امپورٹ،ایکسپورٹ میں اور مختلف نوعیت کا بڑا ٹیکس جو اربوں کھربوں روپے چوری ہورہا ہے اسے ریکور کرنے چوری ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے۔بجلی کمپنیوں سے ناقابل قبول معاہدے کینسل کرکے ملکی وقومی مفاد میں اصلاحات لانے اور نئی حکمت عملی اپنانے کی فوری ضرورت ہے،عوام پر بلاوجہ بوجھ ڈال کر بیرونی ملک دشمن قوتوں کی سازش کو کامیاب مت ہونے دیں،چوری ہونیوالے ٹیکس کی ریکوری یقینی بنا کر اہم معاملات بجلی،تیل اور دیگر اشیاء میں سبسڈی دی جائے،یہ عوام کا ملک کے غریب لوئر مڈل کلاس کا حق ہے،اس وقت تباہ کن مہنگائی سے غربت کی لکیر سے نیچے َزندگی گزارنے والی عوام کی تعداد میں کئی گنااضافہ ہوچکا ہے۔ بھاری تنخواہیں لینے والے اعلی افسران کی تنخواہیں پاکستان جیسے غریب اور آفت زدہ ملک میں قطعاً اس قدر زیادہ نہیں ہونی چاہیے ،انسانی ہمدردی کی بنیاد پرپاکستان کی نازک صورتحال کے پیش نظر ایک آفت زدہ غریب مقروض ملک میں تمام شعبہ جات میں شاہانہ اخراجات ختم کرنے اور بھاری تنخواہوں پر مناسب کٹ لگانے کے اقدامات اٹھائے کی ضرورت ہے، تمام صوبوں میں کرپشن کے خاتمہ اور ٹیکس چوری ہونے کے سد باب کے لئے سخت اقدامات کئے جائیں۔تمام صوبوں کی بیوروکریسی کی تنخواہوں پر کٹ لگا سیلاب متاثرہ علاقوں کے کروڑوں عوام کی بحالی کے لئے امدادی مہم ملک کے اندر سے شروع کرنے کی ضرورت ہے،ہم شاہانہ اخراجات اور ٹیکس چوری کا پیسہ بچا لیں تو ہم قرضوں کی دلدل سے بھی نکل سکتے ہیں،آفت زدہ عوام کی بحالی کا کام بھی بھیک مانگے بغیر انجام دے سکتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری صوبے میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے پہلے سرکاری آفیسر ہیں،سیلری سلپ کے مطابق اگست میں انہوں نے 18 لاکھ 55 ہزار روپے تنخواہ وصول کی۔سرکاری گاڑی ہونے کے باوجود2لاکھ 44 ہزار کا فیول الاو¿نس بھی وصول کیا، یہی حال تمام صوبوں، بیوروکریسی اور پارلیمنٹرین کا ہے جن پر کروڑوں روپے مراعات دینے شاہانہ اخراجات، الاونسز، اور بھاری تنخواہوں پر ادا کیے جارہے ہیں جبکہ دوسری طرف جہاں سبسڈی دیکر عوام کی مشکلات کم کی جاسکتی ہیں اس پر حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کو من وعن تسلیم کرتے ہوئے عام آدمی کا جینا محال کردیا ہے۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے ملک میں لاقانونیت اور انارکی پھیلنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ فوری مناسب اقدامات حالات کی نزاکت کا تقاضا ہے۔آج عمران خان نے اسمبلیوں سے باہر نکل کر فوری الیکشن کا مطالبہ اور واحد آپشن سامنے رکھ دیا ہے.ملک کو مسائل کی دلدل سے نکلنے کا واحد الیکشن کمیشن کی ازسرنو تشکیل دیکر شفاف الیکشن کی طرف بڑھا جائے.