اسلام آباد کا فیض احمد فیض روڈ....(2)

اس راولپنڈی سازش کیس سے فیض اپنے ساتھیوں سمیت 1955 میں مکمل طور پر رہا ہو گئے تھے۔اس اسیری نے حب وطن کے جملہ اسرار و رموز فیض احمد فیض پر آشکار کر دیئے ۔راولپنڈی شہر کا معروف ہوٹل بھی فیض احمد فیض کا راز دار رہا ، اور اسلام آباد جیسا سہما ہوا شہر بھی جائے قرار ٹھہرا۔ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں ثقافتی امور کو منظم کرنے کی ذمہ داری سونپی،اسی اسلام آباد میں انہوں نے پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی صورت گری کی ،اسی شہر میں شکر پڑیاں کا لوک ورثہ بھی فیض کی حکمت عملی کا اظہار تھا، جبکہ فیض احمد فیض روڈ سے متصل پطرس بخاری روڈ پر واقع پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز بھی فیض احمد فیض کے فیضان کی عملی تصویر خیال کی جا سکتی ہے۔اسلام آباد اگرچہ ایک سرد مہر شہر قیاس کیا جاتا ہے ،لیکن یہ شہر فیض احمد فیض کے لیے نہایت گرم جوش دوستوں اور چاہنے والوں سے بھی معمور رہا۔فیض احمد فیض روڈ اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو لانے اور لے جانے والی گاڑیوں سے معمور رہتی ہے ، اس آباد سڑک پر کوئی بہت قابل ذکر ادارہ موجود نہیں ، بس ایک جامعہ الکوثر کی عمارت ہے ،جس کے سامنے خواتین کا پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ ہے ،اسی سے متصل نیشنل سکلز یونیورسٹی کی خاموش اور خوابیدہ عقبی عمارتیں ہیں۔جن کے سامنے سروے آف پاکستان کا دفتر ہے ۔ واپڈا کا گیسٹ ہاو¿س اور چند منافع خور پرائیویٹ تعلیم فروش اسکول بھی اسی سڑک کنارے آباد ہیں ۔بس یہی کچھ ہے اس فیض احمد فیض روڈ پر ۔پطرس بخاری روڈ کو قطع کرتے ہوئے جہاں سے یہ سڑک میرجعفر خان جمالی روڈ کی طرف رخ کرتی ہے تو اسی کونے میں اسلام آباد کا ایچ ایٹ گورستان محو خواب ہے۔کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ فیض احمد فیض جیسے بڑے شاعر اور دانشور کے نام سے منسوب کرنے کے لیے اس سے بڑی ، زیادہ بارونق اور زیادہ کشادہ اور بامعنی شاہراہِ کا انتخاب کیا جانا چاہیئے تھا ۔پھر خیال آتا ہے کہ رائل برٹش آرمی کے سابق نادرن کمانڈ ہیڈ کوارٹرز کی آغوش میں بسے اس شہر میں فیض احمد فیض کی اتنی یاد بھی غنیمت ہے۔اسلام آباد دانش کا ہو نہ ہو، دربار کا شہر ضرور ہے ۔اس شہر میں فیض احمد فیض روڈ کا وجود دانش اور بصیرت سے دلچسپی کا ایک توانا اظہار نظر آتا ہے ۔اس سڑک کے بیچوں بیچ اسلام آباد کی دیگر سڑکوں کی طرح سر سبز درختوں کی خوش مزاج قطاریں استادہ ہیں ، دھوپ کی چمک اور ہواو¿ں کی حیات افروز لہریں ان درختوں کو گنگنانے میں مصروف رکھتی ہیں۔اگر آپ ذرا کان لگا کر سنیں تو آپ کو فیض احمد فیض کی مدھم آواز ضرور سنائی دے گی کہ
دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت
درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے
آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت
تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علَم ہے
(ختم شد)