نئی عسکری قیادت سے عوامی توقعات

ہمارا عسکری ادارہ ہر لحاظ سے باوقار اور بے مثال ہے ۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ بیرونی قوتوں نے برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں آزاد ریاست بننے کے باوجودہمیں معاشی و سیاسی طور پر آزاد قوم کی طرح زندہ رہنے نہیں دیا ۔امریکی سرپرستی میں اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہونے والوں نے بھی جب امریکہ بہادر کے سامنے سینہ تان کر بات کرنے کی کوشش کی تواُس نے انہیں اقتدار سے الگ کروا دیا ۔ایوب خان نے تقریباً 10سال حکومت کی ،لیکن جب انہوں نے امریکی چنگل سے نکلنے کی کوشش کی اور ایک کتاب دوست چاہییں آقا نہیں لکھی تو امریکہ بہادر ناراض ہو گیا ۔بھٹونے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی جس کے تحت انہوں نے ایوب خان کے خلاف ایک زبردست عوامی تحریک کا آغاز کر دیا ۔اس تحریک میں بھی وہی شریک رہے جو ہمیشہ سے ہر حکومت کا حصہ رہے اور انہیں کے زوال کا سبب بھی بنے ۔اس تحریک کے نتیجے میں ایوب خان کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا ۔یوںجنرل آغا یحیٰی خان سامنے آئے جن کے سبب ملک دو لخت کروا دیا گیا ۔بھٹو وزیر اعظم بن گئے لیکن جب انہوںنے ”اس سرپرستی“ سے نکلنے کی کوشش کی تو انہیں سیاسی منظر سے ہٹا دیا گیا ۔بھٹو نے 1973ءکا آئین منظور کرواتے وقت قوم کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ آئین پاکستان میں یہ شق شامل کردی گئی ہے کہ کسی قسم کی بغاوت کا ارتکاب کرنے والے کی سزا موت ہو گی ۔ان کے بعد بے نظیر بھٹو ،نواز شریف وغیرہ کی جمہوری حکومتوں کو بھی ”قومی مفاد “کے نام پرچلتا کیا جاتا رہا ۔نواز شریف کے ساتھ جو ہوا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ ”ن “ لیگ اور پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے راستے بند کرکے عمران خان کو احتساب کے نام پر میدان میں اتار دیا گیا۔موصوف کو ساڑھے تین سال بعد جبکہ ان کی مدت ابھی ڈیڑھ سال باقی تھی ،حکومت سے نکال باہر کر دیا گیا ۔عمران خان پاکستان کا واحد لیڈر ہے کہ جس نے ملک وملت کے لئے کوئی کام کیااور نہ ہی کچھ کرنے دیا گیا لیکن اقتدار سے الگ ہونے کے بعد اُس نے سارے سسٹم کوہی آشکار کر کے رکھ دیا ۔آج قوم کا بچہ ،بوڑھا اور جوان ان سبھی خرابیوں سے آگاہی حاصل کر چکا ہے۔ان حقائق سے یقینا ہمارے نئے آرمی چیف آگا ہ ہوں گے ۔یہ بھی حوصلہ افزا ءبات ہے کہ جنرل عاصم منیر راولپنڈی کے ایک مثالی تعلیمی ادارے ”سرسید کالج، مال روڈ “سے فارغ التحصیل ہیں ۔یہ وہ ادارہ ہے کہ جس نے ملک کو 38جرنیل دئیے ہیں ۔جنرل قمرجاوید باجوہ بھی اسی کالج میں زیرتعلیم رہے ۔بہت سے اور نام بھی ہیں جو اسی کالج میں سٹوڈنٹ رہے ہیں ۔اس وقت ملک کو اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا ہے ۔نئے آرمی چیف کے لئے وطن عزیزکے حالات کسی آزمائش سے کم نہیں ۔بیشک !سرحدوں کی حفاظت عساکر پاکستان کی ذمہ داری ہے ،لیکن ضرورت اس امرکی ہے کہ ملکی دفاع کو مضبوط بنایا جائے ۔قوم کا مسئلہ کمان یا حکومتوں کی تبدیلی ہرگز نہیں ۔عام آدمی کا مسئلہ روٹی ہے ،مہنگائی میں بے تحاشا اضافے نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دیا ہے ۔حالات کا تقاضا ہے عساکر پاکستان اپنی ذمہ داریوں پر دھیان دیں اور سیاستدان قوم کی حالت بہتر بنانے کی طرف توجہ دیں ۔آئے روز حکومتوں کی توڑ پھوڑ ،جلسے ،جلوس ،احتجاج مسئلے کا حل نہیں ۔سیاست دان غیر ضروری سیاسی خلفشار کو ہوا دینے کی بجائے عوامی مسائل کو کم کرنے کی سعی کریں ۔ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ عام آدمی عزت سے زندگی گذار سکے ۔ہر آنے والے کی خوشامدسراسر منافقت ہے ،جبکہ جانے والوں کو بُرا بھلا کہنے کا سلسلہ ہماری ذہنی پستی کا عکاس ہے ۔جنرل عاصم منیر سے لوگوں کو بہت سی توقعات ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے دور میں کس قدر بہتر ثابت ہوتے ہیں ۔بہترین کارکردگی کےلئے مفادپرستوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ،تاکہ ملکی ترقی کا سفر اپنی حقیقی منزل کی طرف رواں دواں رہے اورہم آئندہ نسلوں کو ایک بہترین ، خوشحال،مضبوط اور با وقارپاکستان دینے میں کامیاب ہو سکیں ۔