جنرل عاصم منیر کا بھارت کو جواب
اہم تقرریوں کے بعد کچھ نئی باتیں سامنے آ رہی ہیں اور خصوصی طورپر صدر مملکت کے ساتھ ملاقات کے بعد عمران خان کی طرف سے دونوں اعلی فوجی قائدین کو مبارک باد اچھا شگون ہے۔ دوسری طرف اسمبلیاں توڑنے کا معاملہ بھی ایک اہم موڑ پر آ کھڑا ہوا ہے۔نئے آرمی چیف کے بعد کچھ حالات و واقعات بہت اہم سطح پر آ چکے ہیں ۔صدر مملکت کے ساتھ جنرل عاصم منیر اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کی ملاقات بہت اہم تھی۔ ملاقات کے دوران صدر مملکت کی باڈی لینگوج ایک اور ہی سگنل دے رہی تھی اور اسکے فوری بعدعمران خان کی طرف سے دونوں اعلیٰ فوجی آفیسران کیلئے مبارکباد بہت ہی اہم ہے جسکاواضح مطلب ہے کے وہ لائن جو عمران خان کراس کر چکے تھے مذید اسکی گنجائش نہیں تھی اور یا تو اسکا ایکشن ہو گا یا پھر معاملات اسی طرح چلنے دیں گے،اور ایک الگ محاذ کھلے رہینگے یاد رہے صدرمملکت نے نئے آرمی چیف کی تقرری کی سمری پر بنا وقت لئے سائن کر دی تھے
اسکے بعد افواج میں اعلی فوجی قیادت کی سطح پر تبدیلیاں اور پروموشن کی وجہ بھی سامنے آ چکی ہے خصوصی طورپر ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر کی پروموشن اور انکی سندھ کراچی میں فوری تعیناتی بطور کورکمانڈر بہت اہم ہے جنرل بابر کے دور میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ انکا لہجہ نرم ہے اور رسپانس بھی ڈیلے ہے ۔ کچھ معاملات میں فوجی ترجمان کی خاموشی ایک مصیبت بھی بن گئی اور سیاسی پارٹیاں یہ سمجھنے لگ گئیں کہ فوج پیچھے ہٹ گئی جب انکو احساس ہوا کہ معاملہ انتہا تک پہنچ چکا ہے تو آئی ایس آئی جنرل ندیم کو بھی کھل کر سامنے آنا پڑا اور دو جرنیلوں کو پریس کانفرنس بھی گلے پڑ گئی پریس کانفرس کے دوران انکو سنجیدہ اور ٹف سوالات کا جواب دینا پڑا یہ کانفرنس راوایات سے ہٹ کر تھی جسکے بعد ہر جگہ منفی انداز میں ٹرینڈ چلا کر بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اور مذاق بنایا گیا میجر جنرل آصف غفور جنکے بارے میں مخالف قوتیں کہتی ہیں کہ پاکستان کے پاس ایک ایسا میزائل ہے جسکا انکے پاس کوئی توڑ نہیں ہے اونچے قد کھاٹھ ، وجاہت اور ملنساری کی مثال تھے اور ساتھ ساتھ حاضر جواب بھی دیتے کیونکہ وہ بروقت ایسا اچھا جواب دیتے تھے کہ سننے والا دیکھتا رہ جاتا خاص طور پر جس طرح وہ بھارت کو جواب دیتے جنگ کے بغیر جنگ کا سماں پیدا کر دیتے
فوج کی شان اور امیج بنانے میں ان کا بین الاقومی کردار تھا جب وہ امریکا گئے تو انہوں نے زور دیا کے امریکن میڈیا اورٹی وی چینلز کیساتھ قریبی روابت رکھنا انتہائی ضروری ہے اور اسکے لیے انہوں نے کاوشیں بھی کیں جنرل آصف غفور کی ٹرانسفر کے بعد آئی ایس پی آر کا رخ تبدیل ہو گیا اور وہاں زیادہ تر خاموشی رہی اور تاثر ابھرا کے شاہد رسپانس دینے میں تاخیر کی جاتی ہے۔جنرل غفور کی بطور آئی ایس آئی چیف تعیناتی عام خبر نہیں ہے بلکہ دشمنوں کیلئے ایک واضح پیغام بھی ہے انکا میڈیا کیساتھ خاص تعلق بھی رہا ہے میڈیا انکا احترام الگ سے کرتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ جنرل آصف غفور شاید عمران خان کے قریب رہے اور انکی تعیناتی سے تحریک انصاف اور فوج کے حوالے سے مائنڈ سیٹ تبدیل ہو گا ۔وہ ناصرف سیاسی طور پر معاملات ٹھیک کرینگے بلکہ اپنے ادارے کے اندر ٹیم اے ٹیم بی کے علاوہ مسٹرا یکس اور وائی کا بھی تاثر بھی ختم کر دینگے۔ جنرل عاصم منیر کا کشمیر کے اگلے مورچوں پر جا کربھارت کو دھمکی دینا اور یہ کہناکے اگر اس طرف سے کوئی بھی مہم جوئی کی گئی تواندر گھس کر ماریں گے پاکستان کی ایک ایک انچ زمین کا دفاع اور حفاظت کرینگے جس پر پوری قوم نے انکے اس اقدام کو سراہا اور میڈیا نے اسکو پوری ذمہ داری کیساتھ دکھایا اس عمل سےفوج کے بارے میں غلط تاثر بھی ختم ہو گیااور ساتھ ساتھ وہ اندازے لگانے والے جو سمجھتے تھے کہ عوام کو فوج کے خلاف کر دینگےمنہ چھپاتے پھرتے ہیں فوج تو عوام کے اور قریب آ چکی ہے۔پنجاب کے اندر وزیر اعلیٰ کی حکومت جکڑی گئی ہے پرویز الہی چار پانچ ماہ سے اسمبلی چلا رہے ہیں اور وہ اس لئے کہ انکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نا لائی جائے اور ان چار پانچ ماہ کے عرصہ میں کوئی قانون سازی بھی نہ کی گءبلکہ جعل سازی کی گءکروڑوں کا نقصان بھی اٹھانا پڑا اگر عمران خان اسمبلیاں توڑتے ہیں تو وہ کام نہیں ہو سکتا اگر وہ گورنر کو اسمبلیاں توڑنے کی سمری بھیجواتے ہیں تو گورنر ان سے اسمبلی اجلاس کے بارے میں پوچھیں گے کہ کیا اسمبلی کا اجلاس ایکٹیو ہے یا نہیں ؟یقینا اجلاس ایکٹیو ہو گا تو سمری واپس چلی جائے گی اگر معاملہ عدالت میں جاتا ہے توحکومت کہے گی پنجاب میں اسمبلی کا اجلاس چار ماہ سے جاری ہے کیونکہ جعلسازی ہے تو عدالت میں بھی وہ پکڑے جائیں گے اور عدالت کہہ سکتی ہے کہ حکومت اپنی مبینہ مدت پوری کرےاور جب تک الیکشن کا وقت نہیں آتا تو حکومت چلتی رہے اسی طرح سابق صدر زرداری نے کے پی کے میں عدم اعتماد لانے کی بات کی ہے اگر تحریک آ جاتی ہے تو وہاں بھی اسمبلی توڑی نہیں جا سکتی
عمران خان نے حکومت پر دباو¿ بڑھانے کیلئے واردات ڈالی تھی اور آخری دھرنا جلسے میں بغیر تاریخ دیئے اسمبلی سے باہر نکل جانے کا کہااب وہ کہہ رہے ہیں کہ اسمبلیاں توڑی جائیں گی یہ بھی نہیں بتایا کے کب اسمبلیاں توڑیں گے الیکشن کمیشن نے 26 ارب رروپیہ اخراجات کا بتایا ہے اگر اسمبلیوں سے لوگ نکلیں گے تو ہم انتخابات کرا دینگے الیکشن کمیشن بھی کہہ سکتا ہے کے اسمبلیاں توڑنا بدنیتی پر مبنی ہے اور وہ سپریم کورٹ کو ایک سمری بھیج سکتے ہیں تاکہ سپریم کورٹ انتخابات اور اسمبلیاں توڑنے کے معاملات کا جاںئزہ لے۔اور پاکستان کے حالات دیکھتے ہوئے اور سنگین معاشی معاملات دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ یہ کہہ سکتی ہے کے حکومت اپنی مدت پوری کرے اور مدت پوری ہونے کے بعد الیکشن کروائے جائیں
دوسری طرف ملک کے معاشی حالات دیکھتے ہوئے فوری انتخابات کا انعقاد نظر نہیں آتا فوری طور پر 26 ارب روپے کہاں سے لائے جائیں گے ؟پاکستان تباہی کے دہانے پر کھڑا نظر آتا ہے اور ملک میں سخت سیاسی بحران مصیبت بنتا جا رہا ہےاسکا فوری حل یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں قائم رہیں ادھورے منصوبے مکمل کریں اور عوامی اعتماد بحال کریں اسی طرح سیاسی جماعتیں ذمہ داری کا ثبوت دیں اپنی پارٹیوں میں تنظیم پیدا کریں اور انتخابات کیلئے تیاری شروع کریں۔نواز شریف کی عدم موجودگی اور انکے بغیر پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا یہ بات خوش آئند ہے کے عمران خان نے حکومت کو مذاکرات کی دعوت دی ہے اور مل بیٹھ کر معاملات بہتر بنانے کیلئے کہا ہے۔حکومت فوری طور پر عمران خان کی اس آفر کو قبول کرے اور نئے انتخابات کے معاملے میں ان سے بات بھی کرے اور نواز شریف کو پاکستان آنے کی اجازت دی جائے تاکہ سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہو اور ایک پاور کا بیلنس بھی رہے اگر وہ ملک سے باہر رہے تو انکے بغیر اسی طرح ایک حکومت آئے گی تو دوسری حکومت جائے گی لیکن انکے بغیر معاملات سٹیبل نہیں ہونگے۔