زرعی زر خیز زمینوں پر رہائشی اسکیموں کے نقصانات

زراعت سے وابستہ ممالک کی معیشت کا دارو مدار زرعی زمینوں پر ہوتا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے حیثیت سے زر خیز زمینوں کے قیمتی قدرتی خزانوں سے مالا مال مملکت ہے تاہم بد قسمتی سے بغیر کسی منصوبہ بندی کے بڑھتے شہروں نے جہاں شہریوں کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں وہیں دیہات کی زمینوں پر کھیتی باڑی نہ ہونے سے زرعی اجناس کی کمیابی اور سماجی مسائل میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے زرعی زمینوں پر بنائی جانے والی رہائشی اسکیموں نے جہاں معاشرتی مسائل کو جنم دیا ہے وہاں بلدیاتی وسائل کی کمی اور آبادی پر بڑھتے دباؤ کے نتیجے میں تجارت اور آمدنی کا توازن بھی متاثر ہو رہا ہے۔ مثلاً زر خیز سر سبز علاقے جہاں کبھی کھیت ہوتے اب ان کی جگہ زیادہ تر رہائشی اسکیموں نے لے لی ہے۔ اسی طرح بیشتر شہروں کے قریب زر خیز و زرعی زمینوں پر ہاؤ سنگ سوسائٹیز کا جال بچھایا جا چکا ہے۔ ایسی زمینوں کو بنیادی شہری سہولتوں کے فقدان کے باوجود پر کشش تشہیر سے فروخت کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر سال دیہی رقبہ خصوصاً زیر کاشت رقبہ کم ہورہا ہے اور شہری آبادی تیزی سے پھیل رہی ہے۔
اس امر کو سمجھنا ہوگا کہ زرعی زمینوں کی قلت سے ملک میں اجناس کی کمی اور بے روز گاری میں اضافہ ہوتا ہے اور دیہات میں رہنے والے جن کا انحصار کھیتی باڑی پر ہوتا ہے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شہروں کا رخ کرتے ہیں جس سے صورتحال مزید گھمبیر ہو جاتی ہے۔ امریکی محکمہ زراعت (یو ایس ڈی اے) کے عالمی زرعی انفارمیشن نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں متناسب شرح سے گندم کی پیداوار میں اضافہ نہیں ہو رہا اور پاکستان میں گندم کی پیداوار مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ ملک کی مجموعی زرعی پیداوار میں کمی میں جہاں تکنیکی وجوہ شامل ہیں وہیں زرعی شعبے کا زیادہ محنت اور کم منافع بخش ہونا بھی خاصا اہم ہے۔ اسی وجہ سے زرعی زمینوں کے مالکان ہاؤ سنگ اسکیموں سے وابستہ سرمایہ کاروں کی پر کشش منافع بخش پیشکش کو مسترد نہیں کر پاتے۔ ٹاؤن شپ یا گاؤں کے علاقے سے باہر زرعی زمین پر زرعی سہولیات کی تعمیر کے لیے فائلنگ کے طریقہ کار کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس امر کے لیے اقدامات نہیں کیے جا رہے کہ تعمیراتی زمین کے تبادلے کے لیے طریقہ کار سے گزرنا اور تعمیراتی منصوبہ بندی کا اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہے۔ زرخیز زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر سے مجموعی طور پر پورے ملک کو نقصان اور بحران کا سامنا کرنا پڑے ہوگا۔
پاکستان میں زراعت قومی معیشت میں ایک اہم مقام رکھتی ہے اور فصلوں کا معیار ملک کی مجموعی معیشت اور غیر ملکی تجارت کی شرح نمو میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان کے پاس جتنا زرعی رقبہ ہے اس کے اعتبار سے یہ نسبتاً بڑا زرعی ملک سمجھا جاتا ہے تاہم اس میں بیشتر حصہ بنجر ہے۔ پاکستان فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے تو اسے پہلے زرعی زمینوں میں ہاؤ سنگ سوسائٹیز بنانے پر پابندی لگانا ہوگی اور کسان کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینا ہوں گی تاکہ ہر کسان اپنی زمین کا مالک بنے اور اناج اگانے سے ہونے والی آمدنی اس کو جلد ملے ۔ بڑا لالچ اسے اپنی زمینوں کی فروخت سے روک سکے اور وہ وقتی فائدے کے بجائے اجداد کی دی گئی میراث پر چلتا رہے۔ اس طرح جہاں کسانوں کے پیداواری جوش و خروش میں بہتری آئے گی اور وہ زیادہ خوراک پیدا کر سکیں گے وہیں ملک میں فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ بھی حل ہو سکے گا اور زرعی زمینوں پر ہاؤ سنگ سوسائٹیز کے خاتمے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
خیبر پختونخوا اور سندھ میں بھی صورتحال پنجاب جیسی ہے، بالخصوص کراچی میں ایسی ہاؤ سنگ اسکیموں نے ایک طرف سینکڑوں برسوں سے آباد مقامی آبادی کو متاثر کیا تو دوسری جانب شہری ضروریات کے لیے استعمال ہونے والی زمینوں پر قبضے اور جبراً ہتھیائے جانے کے کئی ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں جو صوبائی حکومتوں سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ ایسی اسکیموں کو کسی فروعی مفاد پر قربان نہ کریں اور زرعی ملک کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے مستقبل میں کسی بڑے معاشی اور زرعی نقصان سے مملکت کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کنکریٹ کے شہروں نے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے وجہ سے رہائش کو مشکل بنا دیا ہے وہیں بلدیاتی ضروریات کی کمی سماجی مسائل میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
زرعی سائنس اب جدید دور میں داخل ہو چکی ہے۔ جدیدیت اور ترقی کے ساتھ روایتی زراعت جدید زراعت میں تبدیل ہو گئی ہے، خاص طور پر دنیا بھر میں حالیہ برسوں میں زرعی پیداوار کے حصول کے لیے جدید طریقے اپنائے جا رہے ہیں، زرعی سہولیات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور زرعی پیداوار کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔ جدید زرعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صحت مند اور منظم ترقی کو فروغ دینے، زرعی زمین کے انتظام کو بہتر بنانے، زرعی زمین کو تعمیراتی زمین میں غیر مجاز طور پر تبدیل کرنے اور تعمیراتی زمین کی توسیع کو روکنے کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ بنجر زمینوں کو مویشیوں، پولٹری اور تجارتی افزائش نسل کے لیے استعمال کیا جائے۔ فصل کی کاشت یا آبی زراعت کے لیے سہولیات دی جائیں اور زر خیز زمینوں پر ہاؤ سنگ اسکیمیں تعمیر کرنے کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ ماحولیات کو نقصانات نہ پہنچے۔ زرعی زمین کی خصوصیات کے مطابق، معیاری انتظا مات کرنا حکومت کی ترجیح ہو نی چاہیے۔ اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مربوط حکمت عملی اپنانا ہوگی۔