ففتھ جنریشن وار اور ہمارا میڈیا

ویسے تو ففتھ جنریشن وار کا میدان جنگ بہت وسیع ہوتا ہے، کسی اخبار میں چھپنے والی کسی چھوٹی سی اور بظاہر بے ضرر خبر سے لے کر رسالے، الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا، انٹر نیٹ، سکولوں، کالجو ں کی درسی کتب میں اپنی پسند کی تبدیلیاں کروانے تک سب اس کے ہتھیار ہو سکتے ہیں اور ان ہتھیاروں کی مدد سے ایک جانب قوم کے مذہبی اور قومی نظریات کو بگاڑا اور مسخ کیا جاتا ہے تو دوسری طرف قوم خاص طور پر نئی نسل میں مایوسی پھیلائی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی عوام کو ایسی بحثوں میں الجھایا جاتا ہے جن میں مستند معلومات ، سیاسی مقاصد اور کسی بھی قسم کے نظریے کا وجود نہ ہو۔
اس کی ایک تازہ ترین مثال ہم نے حالیہ دنوں میں دیکھی۔ گزشتہ کئی ماہ سے ہمارے تمام میڈیا ( خاص طور پر الیکٹرانک) کا واحد اور اہم ترین مسئلہ پاک فوج کے نئے سربراہ کی تعیناتی بنا ہوا تھا۔ اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو سینکڑوں گھنٹوں پر محیط ان سنسی خیز پروگراموں اور تجزیوں میں قوم کے لیے کوئی تعمیری پہلو تھا۔ بھئی فوج ایک منظم ادارہ ہے، وہ اپنا کام کر لیں گے۔ جو بھی فوج کا سربراہ بنے گا، وہ ایک پروفیشنل فوجی ہی ہو گا اور ادارے کی بہتری کے لیے کام کرے گا۔ فیصلہ ساز اپنا کام کر لیں گے ایک عام آدمی کو اس سب سنسنی اور ڈرامے سے کیا مل رہاہے؟ ان چیزوں کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ عوام اپنے اصل مسائل کو بھول کر بے مقصد مباحث میں ڈوبے رہیں۔ رہا سہا وقت عجیب قسم کے سیاسی پروگراموں میں صرف کر دیا جاتاہے جن میں ایک دوسرے پر اخلاقی اور ذاتی الزامات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کیا یہی وقت قوم کی سیاسی اور اخلاقی تربیت کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں قوم کی بہتری کی امید تو نظر آتی ہے؟
اصل میں سب سے اہم چیز میڈیا اور صحافت کا فرق سمجھنا ہے۔ جہاں صحافت ایک اہم ترین ذمہ داری ہے وہاں میڈیا ایک بالکل الگ شے ہے۔ اگر کہیں پر بے ہنگم ڈھول بج رہا ہو تو تکنیکی اعتبار سے تو وہ بھی میڈیا ہی ہے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ جس رفتار سے ہمار ا میڈیا پھلا پھولا ہے اس رفتار سے ہماری صحافت ترقی نہیں کر سکی اور پھر میڈیا نے اپنے آپ کو صحافت کا نام دے دیا۔ ایک جانب صحافت پیچھے رہ گئی اور دوسری طرف میڈیا کسی ایسے خود رو پودے کی طرح پھیلا جس پر پھولوں اور پھلوں کی بجائے کانٹوں کی بہتات ہے۔ کہیں یہ کانٹے سیاسی نظریوں کا خون کر رہے ہیں تو کہیں معاشرتی رویوں کا قتل، کہیں آزادیِ صحافت اور آزادیِ رائے کے نام پر ہمارے دین اور شعار کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو کہیں نظریۂ پاکستان پر حملے اور پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے کبھی مکمل جھوٹ بولا جاتا ہے تو کبھی تصویر کا صرف اتنا رخ دکھایا بلکہ بار بار دکھایا جاتا ہے جس کی مدد سے عوام کی رائے تبدیل کی جا سکے اور عوام میں رحجان سازی کی جا سکے۔ ا س کے بعد ان قوتوں نے ’تجزیے‘ کے نام پر ایک قدم اور آگے بڑھا لیا ہے اور میڈیا اور نیوز چینل کا مقصد اور کام صرف خبر دینا نہیں رہا بلکہ اس خبر پر تجزیے کے نام پر عوام کی رائے اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنا بھی ان کے فرائض میں شامل ہو گیا۔ اس طرح یہ میڈیا اور ’صحافی‘ دراصل اپنے اپنے ’کلائنٹ‘ کی وکالت کر رہے ہوتے ہیں اور اس دوران عوام کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ خبروں کی بجائے ’ اشتہارات‘ دیکھ اور سن رہے ہیں۔ یو ٹیوب کی آمد سونے پر سہاگہ ثابت ہوئی اور اب یہاں چینلز بنا کر یہی سب کریں تو بونس فارن کرنسی میں ملتاہے بشرطیہ کے نام نہاد تجزیوں میں مسالے بارہ کے بارہ موجود ہوں۔
مثبت صحافت بلاشبہ ریاست کا چوتھا ستون ہے لیکن ہمارے میڈیا کا بڑا حصہ ذاتی دنیاوی مفادات کا غلام بن کر پاکستان دشمن طاقتوں اور اسلام دشمن عناصر کا ’ہتھیار‘ بن چکا ہے اور ففتھ جنریشن وار میں کسی بھی ملک کے نظریے یا مذہب یا قوم کے دشمن اس سب صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ان ہتھیاروں کو منظم طریقے سے اس ملک اور قوم کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اس سب کی ایک چھوٹی سے مثال یا ثبوت کچھ عرصہ قبل یورپی یونین کی ’ڈس انفو لیب‘ کی جانب سے شائع کردہ مصدقہ رپورٹ ہے جس کے مطابق بھارت گزشتہ پندرہ سے زیادہ برسوں سے پاکستان کے خلاف میڈیا پر ایک منظم مہم چلا رہا تھا جس کا مقصد یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کرنا تھا۔ اس کے لیے انھوں نے دس سے زیادہ ’ این جی اوز‘ بھی خریدی ہوئی تھیں اور ساتھ ہی ’شریواستو گروپ‘ کے ذریعے سے پندرہ سے زیادہ جعلی میڈیا آئوٹ لیٹ بھی کام کر رہے تھے جن کی مدد کے لیے 750 کے قریب ویب سائٹس فعال تھیں جن کی شاخیں سو سے زیادہ ممالک میں پھیلی ہوئی تھیں۔یہ ہمارے خلاف ففتھ جنریشن وار کا صرف اک یونٹ تھا جس کا پردہ چاک ہو گیا۔ کیا معلوم ایسے کتنے یونٹ کتنے محاذوں پر کام کر رہے ہیں جن میں سے کئی امریکی، اسرائیلی اور دیگر ممالک کے بھی ہوں گے اور ہمارے میڈیا نے اس سب کے خلاف ہمارا دفاع کرنے کی بجائے ہمیں ان بحثوں میں الجھایا ہوا ہے کہ آزادیِ اظہار کے نام پر ہم اپنے ڈراموں اور فلموں کے ذریعے کیسے اپنے معاشرے ، روایات اور خالق کائنات کے احکامات کا مذاق اڑا سکتے ہیں۔ ’ ٹرانس جینڈر اور انٹر سیکس‘ کا فرق نہ جاننے والے ( یا شاید بہت اچھی طرح سے جاننے والے) عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ۔
کیا یہ سب پاکستان اور پاکستانی عوام کے اصل مسائل ہیں؟ اگر حالات خراب بھی ہوں تو کیا روزانہ رات ہر چینل پر صرف اور صرف مایوسی پھیلانا قوم کے لے فائدہ مند ہے یا ضروری ہے کہ قوم میں کچھ مثبت سوچ اور طاقت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے؟
آج کے دور میں جب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہر شخص دوسرے سے جڑا ہوا ہے اور عوام پر درست اور غلط معلومات کی بارش ہو رہی ہے۔ میڈیا کے اثرات اور میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔ چند ایک کو چھوڑ کر باقی میڈیا کی اکثریت سے میرا سوال ہے کہ اسی طرح تماشا لگا کر تماش بین اکٹھے کر کے قوم کو ٹرک کی بے مقصد بتیوں کے پیچھے لگائے رکھنا بہتر ہے یا ریاست کا چوتھا ستون بن کر معاشرے اور عوام کی کردار سازی کی کوشش؟ ’عوام یہ دیکھنا چاہتے ہیں‘ اور یہ ’ آزادیِ اظہار ہے‘ کہنے والوں کو کوئی سمجھائے گا کہ ’ویور شپ‘ اور ’ریٹنگ‘ میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ ہجوم اور ’ویور شپ‘ تو سڑک کے کنارے ڈگڈی بجا کر بندر نچانے والے کو ملتی ہے۔ صحافی، استاد، قلم کار یا دانشور کا کام ہجوم اکٹھا کرنا نہیں بلکہ ہجوم کو تماش بینی سے ہٹا کر ایک قوم بنانا اور اس کی تعمیر کرنا ہوتا ہے۔ میڈیا پر چھائے ہوئے ان مداریوں نے تماشا دکھا کر تماش بین ہی اکٹھے کرنے ہیں تو کم از کم ان کے لیے صحافی ، قلم کار اور دانشور کے القابات استعمال کرنے پر تو پابندی ہونی چاہیے۔