پیر،10 جمادی الاوّل 1444،5دسمبر2022ء

آزاد کشمیر بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں بھی اپوزیشن آگے
خیر سے آزادکشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ وہاں کے وزیراعظم بھی نیازی ہیں۔ پوری حکومت پہ پی ٹی آئی کی مضبوط گرفت ہے۔ پتا بھی ان کی مرضی کے بغیر ہل نہیں سکتا مگر ووٹروں کا کیا کریں،یہ من مرضی کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کے دل و دماغ پر کسی کا زور نہیں چلتا۔ سو یہی کچھ آزاد کشمیر کے بلدیاتی الیکشن میں ہوا۔ پہلے مرحلے کی طرح دوسرے مرحلے میں بھی لوگ نجانے کیوں بلا میدان میں چھوڑ کر تیر پکڑنے اور شیر کو دیکھنے چل پڑے ہیں۔ رہی بات گھوڑے کی تو وہ لگتاہے اب صرف شادیوں میںنچانے کے لیے ہی رہ گیاہے۔ بلدیاتی الیکشن کے دونوں مرحلوں میں اس وقت اپوزیشن آگے جارہی ہے۔ تعجب کی بات تویہ ہے پیپلز پارٹی نے ابھی تک آزادکشمیر میں اپنا وجود اور ووٹ بنک سنبھال کررکھاہے جس کی امیدنہیں تھی مگر سب دیکھ رہے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن میںوہ بہتر کارگردگی دکھارہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) بھی اچھی نہیں تو بری بھی نہیں کے مصداق پر چلتی نظرآرہی ہے۔ حکومتی جماعت پی ٹی آئی سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ سامنے نہیں آتی خود حکومتی عہدیداروں کے حلقے میں اپوزیشن آگے اور پی ٹی آئی پیچھے ہے۔ ایسا کیوں ہورہاہے اس پر خود پی ٹی آئی والوں کو غور کرناہوگا۔ ان نتائج سے معلوم ہوتاہے کہ عوام نچلی سطح پر ترقیاتی کام نہ کرنے اور ریلیف نہ ملنے کی وجہ سے حکمران جماعت سے ناراض ہے۔ ابھی وقت ہے اگرآزادکشمیر کی حکمران جماعت عوام کے مسائل کے حل کے لیے آگے بڑہے توآنے والے الیکشن میں کامیابی کی راہ دیکھ سکتے ہیںورنہ بلدیاتی نتائج ان کے سامنے ہیں۔
٭٭٭٭
برطانوی کھلاڑی ساتھی کھلاڑی کی سرپر گیند رگڑتے رہے
اخبار میں چھپی تصویردیکھ کر ہی ہنسی نہیں رکتی جنہوں نے سٹیڈیم میں ٹی وی پربراہ راست یہ سب کچھ دیکھا ہوگا۔ ان کے قہقہے تو از خود چھوٹ گئے ہوں گے۔ راولپنڈی ٹیسٹ پچ توجہاں کئی نئے ریکارڈ بنارہی ہے ۔اس حوالے سے دیکھیں تولگتاہے یہ پچ صرف ریکارڈ بنانے کے لیے ہورہاہے۔ہارجیت توابھی دور کی بات لگتی ہے۔بقول محمد یار خان امیر
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
مگرگزشتہ روز میچ کے دوران تیسرے روز کے کھیل میں جس طرح کرکٹ شائقین کو گیند چمکانے کا ایک نیا طریقہ دیکھنے کو ملا وہ واقعی لاجواب تھا۔ اس دریافت پر تو شاید کرکٹرز برطانوی کھلاڑی جوروٹ کے ہمیشہ مشکور رہیں گے۔ نئے قوانین کے تحت کھلاڑی گیند پر تھوک لگانہیں سکتے توجناب جوروٹ نے اسکاحل یہ نکال کے اپنے ساتھی سپین باؤلر جیک لیچ کے سرسے کیپ اتارکر ان کے سرسے اپنی گیند کو رگڑ ااور چمکایا۔ کیپ پہننے کی وجہ سے جیک لیچ کے سرپر خوب پسینہ تھا جنہوں نے جوروٹ کو روکانہیں مگر دیکھنے والے شائقین اور کمنٹیٹر زان کی اس حرکت پر دیر تک قہقہے لگاتے رہے۔ جب یہ ویڈیو وائرل ہوئی تواسے بہت پسند کیاجارہاہے اور لوگ لطف اٹھارہے ہیں۔ اب گیند پہ تھوک لگانے کی پابندی کے بعد شاید گیند کو چمکانے کا یہ طریقہ مقبولیت حاصل کرے گا کیونکہ اس پرکوئی پابندی نہیں۔
٭٭٭٭
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی جے یو آئی میں شامل ہوگئے
اسلم رئیسانی ایک باغ وبہار شخصیت کے ہی مالک نہیں۔ وہ ایک مضبوط اعصاب اور دماغ کے بھی مالک ہیں۔ انہوں نے یہ فیصلہ کچھ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہوگا۔ داڑھی توانہوں نے پہلے سے رکھی ہوئی ہے اب شاید وہ باشرع ہونے کا ساتھ ساتھ بننا بھی چاہتے ہیں۔ وجہ جو بھی ہولوگ ان کے فیصلے سے تھوڑا بہت حیران بھی ہیں۔ اب کیاکریں بلوچستان میں دوہی سیاسی گروپ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو قوم پر ست ہیں دوسرے وہ جو مذہبی سیاست کادم بھرتے ہیں۔ عرصہ دراز سے یہی لوگ یکے بعد دیگرے یا مل جل کر صوبے پر حکومت کرتے رہے ہیں مگر ذراکوئی دل بڑاکر کے بلوچستان جائے وہاں جاکر دیکھے توقوم پرست ہوں یامذہبی جماعتیں ان کے علاقوں میں کتنے ترقیاتی اور فلاحی کام ہوئے ہیں۔ اب شاید اسلم رئیسانی جے یو آئی میں جاکر ان سے ہی عوامی کام کرواکے شہیدوں میں نام لکھواسکتے ہیں۔ ویسے یہ جے یوآئی کی خوش قسمتی ہے اسے بذلہ سنج لیڈر خود بخود دستیاب ہوتے ہیں۔ اب اسلم رئیسانی جیسا گوہر آبدار بھی میسر ہوگاجو عبدالغفور حیدری کے ساتھ مل کر خوب نام کمائیں گے۔ ویسے بھی ان کی جعلی ڈگریوں کے حوالے سے کہی بات اب محاورہ بن چکاہے۔ جس میں انہوں نے کہاتھا،’’ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا نقلی‘‘ سواب وہ کہہ سکتے ہیں ’’جماعت جماعت ہوتی ہے مذہبی ہو یاقوم پرست، بس جیتنے والی ہو‘‘۔۔۔۔
٭٭٭٭
شاہد خاقان عباسی کا شہباز گل پر 2 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ
لگتا ہے آجکل شہباز گل کے ستارے گردش میں ہیں۔ ویسے ہی جس طرح اعظم سواتی کے اب بھلا یہ کیا تک ہے کہ انہیں بلوچستان کی پولیس اپنے ساتھ مان نہ مان میں تیرا مہمان بنا کر کوئٹہ لے گئی ہے۔ بے شک ان کے خلاف کچھ مقدمات وہاں درج ہیں مگر ابھی تو وہ اسلام آباد میں پیشیاں بھگت رہے تھے تو بلوچستان پولیس کو ایسی کیا جلدی پڑی تھی کہ وہ انہیں ساتھ لے گئی۔ اس طرح کے اقدامات سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ لوگوں کا کیا ہے‘ بقول شاعر ’’خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے‘‘ سو اب یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اس طرح تو اچھا بھلا کام ہوتے ہوئے خراب ہو جاتا ہے۔ چلیں ان کو چھوڑیں‘ شہباز گل کی بات کرتے ہیں۔ نون لیگی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے شہباز گل کے خلاف 2 ارب روپے ہرجانے کادعویٰ دائر کر دیا ہے۔ شہباز گل نے ان پر کسی بھارتی کمپنی سے 140 ملین ڈالر لینے کا الزام لگایا تھا۔ صرف یہی مصیبت شہباز گل کے گلے نہیں پڑی۔ اگر یہ تنہا بھی ہوتی تو پریشان کرنے کو کافی تھی کیونکہ 2 ارب روپے کا معاملہ ہے مگر اسلام آباد میں ہی شہباز گل اور عماد یوسف کے خلاف لوگوں کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں فرد جرم 12 دسمبر کو عائد ہونے جا رہی ہے۔ 2 ارب کا معاملہ تو معافی تلافی پر ختم ہو سکتا ہے مگر جو بغاوت پر اکسانے کا الزام ہے اگر خدانخواستہ یہ ثابت ہو جاتا ہے تو پھر کہیں سے بھی خیریت نہیں ہوگی۔ اب دیکھتے ہیں وہ اس مشکل صورتحال سے کیسے نبردآزما ہوتے ہیں۔ اس لئے کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو۔ زبان اور گھوڑا بے قابو ہو جائے تو زبان بولنے والے کو اور گھوڑا سوار کو زمین پر گرا دیتا ہے۔