امیکرون نے دنیا ہلا دی ۔کاٹن کراپ کم ہے
جنوبی افریقہ میں کورونا کی نئی قسم اومیکرون کے منظر عام پر آنے کے بعد پوری دنیا میں معاشی منظر سرخ ہو گیا سٹاک مارکیٹس سے لے کر کموڈیٹز تک ہر طرف سراسمگی محسوس ہوئی اور خاص طور پر کروڈ آئل (پٹرول) کی قیمتوں میں ایک دن میں 10 فیصد کمی ہوئی اور اس کمی کا سلسلہ جاری ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کروڈ 55ڈالر اور برینٹ کروڈ 57ڈالر فی بیرل تک گر سکتا ہے ۔امریکہ چین یورپی ممالک جاپان سمیت پوری دنیا کے ممالک کی سٹاک مارکیٹس منفی ہو گئیں اور پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک کی سٹاک مارکیٹس بھی منہ کے بل گر گئیں کورونا کے بعد ابھی دنیا کی اقتصادیات اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہی ہے چین کی رئیل اسٹیٹ سیکٹر جس کا مجموعی حجم چار ہزار ارب ڈالرز ہے اور جس میں پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کا پیسہ لگا ہوا ہے امیکرون ویرینٹ کے آنے سے پہلے ہی مصنوعی سانسوں پر چل رہا تھا اور چین کی چند رئیل اسٹیٹ کمپنیاں بنک ڈیفالٹ کے قریب تھیں اب پتہ نہیں ان کا کیا ہو گا ۔
پاکستان جو مشکل سے 300ارب ڈالر جی ڈی پی کا حامل ملک ہے اس کے حالات تو ویسے ہی برے ہیں اس وقت پاکستان کی کرنسی روپیہ خطہ کی سب سے کمزور کرنسی ہے اور ڈالر کے سامنے روپیہ 177کا ہو گیا ہے اس کے باوجود تجارتی خسارہ آسمان پر ہے روپیہ کے اس قدر کمزور ہونے کے بعد ضروریات زندگی کی ہر چیز کی قیمت دگنی ہو گئی ہے جس کا اثر معاشرہ کے کم آمدنی والے طبقوں پر براہ راست ہوا ہے حکومت ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوئی ہے پاکستان میں مہنگائی کم کرنے کا سب سے بڑا ٹول ڈالر ہے افغانستان سے تجارت پاکستانی روپیہ میں کرنا ہو گی تاکہ ڈالر کا افغانستان کی جانب جانا بند ہو ابھی ڈالر کے بارے میں افواہ ہے کہ یہ 185 تک جائے گا ایسا ہوا تو بہت سنگین نوعیت کے حالات ملک میں پیدا ہو سکتے ہیں اس وقت پاکستان کی معشت آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہے اور یقینی بات ہے ساہوکار اپنا پیسہ اور منافع وصول کئے بغیر جان نہیں چھوڑے گا
اس وقت پاکستان نے جو قرض واپس کرنے ہیں اور قرضوں پر جو سود ادا کرنا ہے وہ ملک کے ترقیاتی اخرجات سے کئی گنا زیادہ ہو گیا ہے نوٹ چھاپ چھاپ کر کام چلانے کی پالیسی نے افراط زر کو 12فیصد سے اوپر کر دیا ہے اور اب شرح سود میں اضافہ ناگزیر ہے جس سے ملک کی رہی سہی صنعت کو دھچکا لگے گا مطلب ہر کام ہی الٹ ہو رہا ہے۔چین کی وزارت خزانہ نے گذشتہ ماہ پاکستان کی وزارت خزانہ کے افسران کو ڈانٹ پلائی ہے کہ آپ لوگوں کی آٹو سیکٹر کی پالیسی کی وجہ سے کار بنانے والے ممالک کو فائدہ ہو رہا ہے کار اسمبلنگ کی جگہ کار سازی ہونی چاہیے ۔اب یہ المیہ ہی ہے کہ پاکستان میں لاکھوں گاڑیاں روڈ پر گھوم رہی ہیں نئی گاڑی بک کرائیں 6ماہ سے قبل ملتی نہیں ہے اور حالت یہ ہے کہ ایک گاڑی کا انجن بھی پاکستان میں نہیں بنتا سب کچھ امپورٹ ہو کر آ رہا ہے وہ ساری کمپنیاں جو انڈیا میں پوری کار تیار کر رہی ہیں وہ پاکستان میں صرف اسمبلنگ کرتی ہیں اب منافع تو وہ ہی کمائے گا جہاں پرزہ جات تیار ہوں گے ۔
پاکستان میں ایک بڑی اقتصادی پالیسی کی ضرورت ہے جو ایکسپورٹ بیس ہو اور ملکی ضروریات ملک میں تیار ہوں ایسا نہ ہوا تو حالات خراب ہو جائیں گے جو پہلے ہی خراب ہیں۔ ایک نظر کاٹن مارکیٹ پر جہاں PCGA نے یکم دسمبر تک ملک میں روئی کی پیداوار کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس کے مطابق اس عرصے تک ملک میں روئی کی 71 لاکھ 68 ہزار 118 گانٹھوں کی پیداوار ہوئی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کی پیداوار 46 لاکھ 48 ہزار 92 گانٹھوں کے نسبت 25 لاکھ 20 ہزار 26 گانٹھیں %54.22 فیصد زیادہ ہیں۔لیکن حکومت پاکستان نے جو کاٹن پیداوار کا تخمینہ لگایا تھا 85لاکھ گانٹھ اس کا پیدا ہونا مشکل ہے ماہرین کا اندازہ ہے کہ سیزن 2021/2میں مشکل سے 76سے 78لاکھ گانٹھ پیدا ہو گی جو ملکی ضرورت ایک کروڑ 80لاکھ کی نسبت بہت کم ہے تاحال 40لاکھ گانٹھ کے امپورٹ معاہدے اپٹما نے بیرون ممالک سے کئے ہیں جن میں امریکہ برازیل اور افریقی ممالک شامل ہیں جبکہ افغانستان کی 5لاکھ بیلز کی ڈیلز بھی ہو چکی ہیں ۔
پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ ملکی کاٹن پیداوار میں اضافہ کیا جائے تاکہ کاٹن کی امپورٹ پر زرمبادلہ خرچ نہ ہو اس وقت پٹرول کے بعد کاٹن کی خریداری پر سب سے زیادہ ڈالرز خرچ ہو رہے ہیں اس طرح ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹ سے ملکی معیشت کو جو فائدہ ہو رہا ہے کاٹن کی امپورٹ سے وہ نقصان میں بدل رہا ہے ۔اگر سیزن 2021/22میں پاکستان میں کاٹن کی پیداوار ایک کروڑ 10لاکھ بیلز ہوتی تو سعودی عرب سے 3ارب ڈالرز لینے ہی نہ پڑتے ۔پاکستان عوام کی بدقسمتی ہے انہیں وہ حکمران میسر ہی نہیں آتے جو ملک کو ترقی کے راستے پر ڈال سکیں ۔امیکرون کے خدشات نے ہی دنیا ہلا دی ہے اللہ نہ اس نے انسانیت پر حملہ کیا تو کیا ہو گا ۔