اومیکرون قسم کے باعث افراتفری اور گھبراہٹ سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا: آسٹریلوی ماہرین
سڈنی(شِنہوا)ایسے وقت میں جب دنیا بھرکے وائرولوجسٹ اور ماہرین وبائی امراض کوویڈ19کی اومیکرون قسم کو سمجھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، کچھ آسٹریلوی ماہرین کا کہنا ہے کہ گھبراہٹ اور افراتفری مسائل کو حل کرنے میں مددگار نہیں ہوگی بلکہ صحت سے متعلق مضبوط بین الاقوامی تعاون ہی مستقبل کے نئیچیلنجز سے نمٹنے کا صحیح طریقہ ہے۔یونیورسٹی آف نیو ساتھ ویلز (یو این ایس ڈبلیو)کے پروفیسر انتھونی زوئی نے شِنہوا کو بتایا کہ ماہرین وائرس کی نئی قسم کی شدت کا اندازہ لگاتے ہوئے معمول کے مطابق کئی مختلف عوامل پر غور کرتے ہیں کہ یہ کیسے برتا کرتا ہے، اس کی آگے منتقلی کی کتنی صلاحیت ہے اور یہ کہ تشخیص کے موجودہ طریقہ کار کے ذریعے اسکا پتہ چلایا جاسکتا ہے یا نہیں۔انہوں نے بتایا کہ ماہرین اس بات کا بھی پتہ لگائیں گے کہ کوویڈ19سے نمٹنے کے لئے پہلے سے موجود طریقہ علاج اس نئی قسم کیلئے بھی کارگر ہوں گے اور یہ کہ موجودہ ویکسن اب بھی قابل بھروسہ ہیں یا نہیں۔زوئی نے کہا کہ گھبراہٹ سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، ہمیں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں خطرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ڈیٹا اکٹھا کرنے اور شواہد پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن گھبراہٹ اور افراتفری میں اٹھائے گئے اقدامات سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ایسے وقت میں جب عالمی برادری کو اومیکرون کے بارے میں آگاہ ہوئے ابھی چند ہفتے ہی ہوئے ہیں، ماہرین وائرس کی اس قسم سے متعلقہ معلومات جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے میں مصروف ہیں۔زوئی نے کہا کہ ماہرین کے مطابق اگلے چند ہفتوں میں اومیکرون سے متعلق تیزی سے سیکھنا ممکن ہونا چاہیے، خاص طور پر ایسی جگہوں سے جہاں بڑی تعداد میں اومیکرون ویرینٹ کے کیسز سامنے آئے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ یورپ میں وائرس کی ڈیلٹا قسم اس وقت صحت کے لیے بہت زیادہ فوری خطرہ ہے۔
آسٹریلوی ماہرین