امارت اسلامیہ افغانستان میں خواتین کے حقوق
امارت اسلامیہ افغانستان کی طرف سے جاری کردہ ایک حکمنامہ میں تمام سرکاری محکموں اور اداروں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ خواتین کو جائیداد میں حصہ دیا جائے اور انہیں مرضی کی شادی کرنے کی اجازت دی جائے۔ حکمنامے میں کہا گیا کہ ان ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائیں دی جائیں گی۔ ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹوئٹر میں کہا ہے کہ عورت کوئی جائیداد نہیں بلکہ ایک عظیم اور آزاد مخلوق ہے جسے کوئی بھی امن کے بدلے یا دشمنی ختم کرنے کیلئے دوسرے فریق کے حوالے نہیںکر سکتا ہے۔ خواتین کو جائیداد میں حصہ اور شادی کے حوالے سے حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ خواتین کو زبردستی شادی پر مجبور نہیں کیا جانا چاہئے اور بیوائوں کو ان کے مرحوم شوہر کی جائیداد میں حصہ ملنا چاہئے۔ امارت اسلامیہ افغانستان‘ جو ایک ڈکلیئرڈ اسلامی ریاست ہے‘ اس کی طرف سے مذکورہ حکمنامہ اسلامی شریعت کی رو سے خواتین کو حاصل حقوق کی روشنی میں جاری کیا گیا ہے۔ اسلامی قوانین کے تحت عورت کا وراثت میں حصہ تسلیم کیا گیا ہے۔ بیٹی ہے تو والد کی طرف سے اور بیوہ ہے تو شوہر کی طرف سے چھوڑے ہوئے ترکے میں اس کا حصہ متعین ہے۔ اسی طرح بالغ لڑکی کو اس کی مرضی کے برعکس زبردستی شادی کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کی رضامندی حاصل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کی طرف سے خواتین کے حقوق کے ضمن میں جو حکمنامہ جاری کیا گیا ہے‘ اس کی ستائش کی جانی چاہئے۔ امریکہ سمیت سارا مغرب ابھی تک افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے اگر گریزاں ہے تو اس کے پیچھے طالبان کی ماضی میں اختیار کردہ وہ پالیسیاں ہیں جنہیں اہل مغرب انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کرتے ہیں۔ جن میں خواتین کی تعلیم سمیت دیگر حقوق سے محروم رکھنا شامل ہے‘ تاہم طالبان کی موجودہ حکومت نے اپنی سابقہ پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے ماضی کے اثر کو زائل کرنے کیلئے اقدامات پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے جس سے یقینی طورپر خوشگوار اثرات مرتب ہونگے۔