بابری مسجدمتنازعہ فیصلہ اور رام مندر کا سنگ بنیاد

گزشتہ سے پیوستہ
سب سے بڑا ستم تو یہ ہوا کہ موجودہ 30 ستمبر کو بھارتی عدالت نے بابری مسجد کے قاتلوں کو باعزت بری کر دیا۔ 30 ستمبر کو سنائے گئے فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ مسجد کی شہادت باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں کی گئی تھی لہذا بھارت کی خصوصی عدالت نے بابری مسجد پر حملہ کرنے کے الزام سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور سابق نائب وزیراعظم لال کرشنا (ایل کے) ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی سمیت تمام 32 ملزمان کو بری کردیا۔ان تمام افراد پر 1992 میں 16ویں صدی عیسویں کی بابری مسجد کو شہید کرنے اور ہندو مسلم فسادات کو بھڑکانے کے الزامات تھے جس کے نتیجے میں 3 ہزار افراد مارے گئے تھے۔ اس مقدمے کے ملزمان میں برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے شریک بانی اور سابق نائب وزیراعظم لال کرشن ایڈوانی، سابق مرکزی وزرا مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سمیت کئی سینئر سیاستدان شامل تھے۔بابری مسجد کی انہدام سے پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہم رہنما ایل کے ایڈوانی اور وزیر اعظم نریندر مودی سمیت دیگر رہنماوں اور ان کی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے کارکنان نے ایک رتھ یاترا نکالی تھی۔ بھارتی مسلمان اس بات پر ذہنی طور پر سمجھوتا کر چکے تھے کہ ایودھیا میں مسجد کو دوبارہ بنانے کی کوئی صورت نہیں اور اگر مندر بننے سے ہندو مسلم تعلقات میں بہتری آ جائے تو موجودہ ملکی حالات میں مسلمانوں کے لیے یہ راحت کی بات ہوگی۔اس ضمن میں بابری مسجد کے مقدمے میں مدعی اقبال انصاری نے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’اچھا ہوا یہ سب ختم ہوا۔‘لیکن بھارتی عوام خصوصاً مسلم اقلیت کو یہ بھی توقع تھی کہ آخرکار گنہگاروں کو سزا ملے گی اور ایودھیا کے طرز پر دوسری مساجد اور مذہبی مقامات کو توڑنے کے مطالبے نہیں ہوں گے۔رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے بابری مسجد انہدام کیس میں عدالتی فیصلے پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’آج آپ لوگوں نے بابری مسجد کے گرائے جانے میں ملوث افراد کو مقدمے سے بری کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ چلو آگے بڑھو، کاشی متھرا پر جو چاہو کرو، ہم تمھیں کلین چٹ دیتے جائیں گے، جہاں تمھارے آستھا کا معاملہ آئے گا ہم اس پر تمھاری مدد کرتے جائیں گے۔‘یہ فیصلہ بھارتی تاریخ میں ایک ایسا مرحلہ ہے جب ماہرین کے خیال میںبھارت اپنی سیکولر حکمت عملی سے ہٹ کر تیزی سے ہندوتوا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر شدت پسند عناصر کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف تشدد کے کئی واقعات پیش آئے ہیں جن کو سیاسی رہنماؤں نے لگام کسنے کے بجائے نظرانداز کیا ہے۔ملک میں مسلمانوںکے خلاف نفرت انگیز بیانیہ عام بات ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری جانب پارلیمان میں بھی مسلم نمائندگی ملکی تاریخ میں کم ترین سطح پر ہے۔ جبکہ حکومت شہریت کا ایک ایسا قانون لانا چاہتی ہے جسے ماہرین ’غیرآئینی ‘اور ’مسلمانوں سے تعصب پر مبنی‘ قرار دیتے ہیں۔اور اب بابری مسجد بارے یہ فیصلہ مسلمانوں کو پوری طرح سے ہار کا احساس دے گا۔ اور آخر وہ کس سہارے، کس بھروسے رہیں گے۔ اس متنازعہ فیصلے کے بعد ایک بار پھر عظیم قائد محمد علی جناحؒ کا ہندو شدت پسندی کے بارے میں نظریہ درست ثابت ہوگیا۔اب تو ہندوستان کی تمام اقلیتوں کو ایک بار پھر احساس ہو جانا چاہئے کہ ہندوتوا کے بارے میں ہمارے عظیم قائد محمد علی جناحؒ کا نظریہ بالکل ٹھیک تھا اور یقینی طور پر بھارت میں موجود اقلیتوں کو اب ہندوستان کا حصہ بننے پر افسوس ہو رہا ہوگا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمیں کس طرح اپنا ملک چلانا ہے۔ بھارت خود کو ایک سیکولر ملک کہتا ہے ،لیکن کیا وہ حقیقی طور پر ایک سیکولر ملک ہے؟ کیا وہاں کروڑوں مسلمان اور دیگر اقلیتیں محفوظ ہیں؟ پاکستان نے تو سکھ مذہب کے ماننے والوں کے لیے کرتار پور راہداری بنادی۔ بھارت نے کیا کیا۔