ہمارے مسائل اور ہماری ترجیحات

سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ اس وقت وطن عزیز کو کون کون سے مسائل درپیش ہیں, اگرچہ ان کی فہرست طویل ہے لیکن کچھ مسائل بنیادی نوعیت کے ہیں جو فوری حل طلب ہیں, ان سے روگردانی ہمیں مزید آگ میں جھونک دے گی, ملک میں مہنگائی کا بدترین طوفان اپنے زوروں پر ہے, اشیاء خوردونوش اور زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں, فرقہ واریت اور انتہاپسندی کی لہر ایک بار پھر نئے سرے سے شروع ہو گئی ہے, دہشت گرد پھر سے سر اٹھانے لگے ہیں, سٹریٹ کرائم اور ریپ کے واقعات میں اضافہ بدترین شکل اختیار کرتا جا رہا ہے,تعلیمی معیار اکیسوی صدی کے تقاضے تو درکنارکامیابی کی ضمانت سے بھی محروم ہے,آڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں, ہمارے وزیرموصوف ذاتی انا کی جنگ لڑ رہے ہیں, جہاں نئے سکولوں کی ضرورت ہے, پرانے سکول بھی اپنی بقا کو قائم رکھنے میں ناکام ہو رہے ہیں, معززمعلمین کو جائز حقوق سے محروم رکھا جا رہاہے, نت نئے تجربات اور تقرر وتبادلوں نے بے یقینی کی فضا پیدا کر رکھی ہے, پاکستان ابھی تک پولیو فری نہیں بنا, حکومت اور اپوزیشن کا مشترکہ مسائل میں مشترک اعلامیہ تو کیا خود حکومتی ارکان دھڑے بازی کاشکار ہیں۔ یہ سارے اشارے ملکی استحکام کو کھوکھلا کر رہے ہیں لیکن صاحب اقتدار خواب خرگوش سے بیدار نہیں ہو رہے ہیں۔
حکومتی ترجیحات میں نوازشریف کی گرفتاری, اپوزیشن کے ارکان کی بندشیں, میڈیا ٹرائل, سیاسی انتقام اورشرفاء کی پگڑیاں اچھالنا سرفہرست ہیں۔ سنجیدہ مسائل پہ بھی اسمبلی کی کاروائی دیکھ کرشرمندگی ہوتی ہے, صرف چھ ماہ کے اجلاس کا جائزہ لینے پر بھی افسوس ہوتا کہ مذکورہ مسائل کس طرح نظر انداز ہوئے عوام کا پیسہ اور قیمتی وقت کو گالم گالوچ اور الزام تراشی میں صرف کیا گیا۔ اب احتساب کانعرہ بے معنی ہوگیاہے, اداروں کی کارکردگی اور باہمی ہم آہنگی پر سوال اٹھ رہے ہیں, آٹاچینی چوری پر بننے والے کمیشن اور ذمہ داروں کے خلاف ہونے والی کاروایوں نے عوام کو مایوس کیا ہے,وہ خواب جوعوام کو دکھا گئے تھے سب سراب ثابت ہوئے ہیں۔ افسوس یہ نہیں کہ حکومت کی سمت غلط ہے دکھ اس بات کا ہے انھیں ابھی تک اپنی غلطی کا احساس بھی نہیں ہے۔ پارلیمان ہو یا ٹاک شوز, پریس کانفرنسیں ہوں یا عوامی جلسے کہیں بھی بنیادی مسائل کا ذکر نہیں ہے۔ زرعی ملک میں غذائی اجناس کی قلت, پانچ دریاؤں کی موجودگی میں پانی کی کمی, مملکتِ جنتِ نظیر میں سیاحتی سہولیات کافقدان, ریاستِ مدینہ کے نام پہ عدل وانصاف کا نہ ہونا اور مذہبی فریضہ ہونے کے باوجود تعلیم سے روگردانی ہماری نااہلی اور تنزلی کے بین ثبوت ہیں۔
اگرہم اقوام عالم کے عروج و زوال کی داستانوں پڑھیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی میں وہاں کی قیادت کے اخلاص کا کلیدی کردار رہا ہے۔ وہ لوگ جنھوں نے ذاتی پسند و ناپسند کو پس پشت ڈال کر ملکی مفاد کے لیے کام کیا وہ قومیں آج دنیا پر حکومت کر رہی ہیں۔ ماضی میں دنیا کے بیشتر ممالک آپس میں برسرپیکار رہے, لاکھوں قیمتی جانوں اور املاک کا نقصان ہوا اور سپرپاور کے جنون میں ایٹم بم تک داغے گئے۔ لیکن اس کے باوجود آج یہ سب قومیں مشرکہ مفاد پہ متحد ہیں, ان کے درمیان عالمی معاملات میں ہم آہنگی ہیں اور وہ یہ راز جان چکے ہیں کہ اتحاد میں ہی سب کی بقا ہے۔ افسوس کہ ہم پانچ وقت مساجد میں مسلم امہ کے اتحاد کے لیے اجتماعی دعائیں کرنے والے, ہمارے درمیان مغربی ممالک جتنا بڑی اور خطرناک باہمی جنگیں بھی نہیں ہوئیں, ہم آج تک اتحاد کے نکتے کو نا سمجھ سکے۔ ہمیں ایران اور ملایشیا سمیت دیگر ممالک سے بھی اپنی ترجیحات کے مطابق تعلقات استوار کرنا ہوں گے, ہمیں سعودی عرب اور امریکہ کو اپنی تجارتی اور اندرونی مجبوریوں سے آگاہ کرتے ہوئے کسی حد تک دو ٹوک رویہ اختیار کرنا ہوگا۔