قانون سازی کیلئے وسیع تر اتفاق کی ضرورت
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے قانون سازی (آرمی ایکٹ میں ترمیم) اور چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشن کے ارکان کی تقرری پر صلاح مشورہ کیا گیا تاہم وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ وفاقی کابینہ کو چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشن ارکان کی تقرری پر بریفنگ دی گئی۔
سپریم کورٹ کی طرف سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر قانون سازی کیلئے چھ ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔ حکومت متعلقہ معاملات کو دیکھ رہی ہے۔ اس حوالے سے دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم کی بات ہو رہی ہے۔ سادہ اکثریت بھی مذکورہ قانون سازی کیلئے زیربحث ہے۔ کچھ لوگ آرڈیننس سے کام چلانے کی بھی رائے رکھتے ہیں۔اس بحث سے قطع نظر آرمی چیف کی توسیع کے حوالے سے پارلیمنٹ میں وسیع تر اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ اس پر حکومت اور اپوزیشن کو اپنے وقتی مفادات کی سوچ سے بلند ہونا ہو گا۔ حکومت اور اپوزیشن اس حوالے سے یہ قطعاً مدِ نظر نہ رکھے کہ آج اس کا کیا مفادہے اور کل کیا ہو سکتا ہے۔ اقتدار پر کسی بھی پارٹی کا مستقل براجمان رہنا ممکن نہیں۔ لہٰذا پالیسیاں دور اس نتائج کی آئینہ دار ہونی چاہئیں۔ اسی طرح آج الیکشن کمشن کی تکمیل کا مرحلہ بھی درپیش ہے۔ اس حوالے سے آئین میں طریقہ کار موجود ہے جس سے حکومت نے صرف نظر کرتے ہوئے سندھ اور بلوچستان سے ممبران کو نامزد کیا توان سے چیف الیکشن کمشنر نے حلف لینے سے انکار کر د یا۔ پھر اسلام آباد ہائیکورٹ نے یہ تقرریاں کالعدم قرار دیدیں۔ کل چیف الیکشن کمشنر کی میعاد ختم ہو رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کی فعالیت کیلئے کم از کم تین ممبران کا ہونا ضروری ہے۔ جسٹس (ر) سردار رضا خان کی 6 دسمبر کو ریٹائرمنٹ کے بعد ممبران کی تعداد دو رہ جائیگی۔ جس سے الیکشن کمیشن غیر فعال ہو جائیگا۔ اسکے سامنے اہم نوعیت کے کیسز ہیں وہ بھی تعطل کا شکار ہونگے۔ اپوزیشن کی طرف چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کے نام دے دئیے گئے ہیں۔ وفاقی وزیر فواد چودھری کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کے نام اپوزیشن نے دئیے وہ قابلِ احترام اور اہل و قابل لوگ ہیں۔ حکومت ان ناموں پر کسی وجہ سے اتفاق نہیں کرتی تو خود بھی بلاتاخیر نام پیش کر دے تاکہ بروقت ضابطے کی کارروائی پوری ہو سکے۔ امید کی جانی چاہئے کہ الیکشن کمیشن حکومت اور اپوزیشن کے مابین مفاہمت سے بروقت مکمل ہو جائے گا۔