جمعرات ‘ 7؍ربیع الثانی 1441ھ ‘ 5؍ دسمبر 2019ء
پنجاب پولیس نے خوشامد الفاظ اور تعریفوں پر پابندی لگا دی
کہیں یہ پابندی آئے روز کے تبادلوں سے زچ ہو کر تو نہیں لگائی پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسران نے۔ اب محرر بے چارے عذاب میں پھنس گئے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی لکھتے ہیں اس کی انہیں باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ یہ طرز تحریر قدیم عرائض نویسی کی باقیات صالحات میں شمار ہوتی ہے۔ آج بھی پرانے دور کے پڑھے لوگ انہی مودبانہ الفاظ میں خط ہو یا درخواست لکھتے ہیں۔ اب پنجاب پولیس نے اپنے محکمہ میں دی جانے والی درخواست اور دفتری کارروائی میں استعمال ہونے والے اقتباسات میں سے جناب والا، جناب کا اقبال بلند ہو۔ حضور والا ، حقیر بندہ ناچیز اور اسی قبیل کے دیگر الفاظ کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے جو ایک اچھی بات ہے۔ اس کے ساتھ ہی اب کوئی آگے بڑھ کر اعلیٰ افسر کے گاڑی کا دروازہ بھی نہیں کھولے گا ۔ ظاہر بات ہے جو گاڑی میں بیٹھا ہے جب گاڑی رکے گی تو اس نے باہر نکلنا ہی ہوتا ہے یا جو باہر کھڑا ہے اس نے گاڑ ی میں سوار ہونے کے لیے دروازہ کھولنا ہوتا ہے۔ اب اس کام کے لیے کسی کی ڈیوٹی لگانا تو واقعی غلاموں جیسا کام ہے۔ پاکستان ایک آزاد ملک ہے۔ یہاں ڈیوٹی سرکار کے لیے ہوتی ہے۔ کسی افسر کے لیے نہیں مگر ہمارے ہاں اکثر عام چھوٹے رینک کے ملازمین بڑے افسروں کی چاکری کرتے نظر آتے ہیں جبکہ یہ ان کی ڈیوٹی میں شامل نہیں مگر صدیوں پرانی غلامی کی روایات ابھی ہمارے ہاں باقی ہیں۔ اب پنجاب پولیس کی طرح دیگر ادارے بھی ایسے ہی احکامات سے غلامی کی عملی اور تحریری اشکال پر پابندی لگا دیں تو اچھا ہو گا۔
٭٭٭٭
فنڈز کی عدم دستیابی، لاہور میں ایل ٹی سی بسیں بند
یہ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی۔ خود عوام کے ووٹوں سے حکومت سنبھالنے والوں کو جب اپنے لیے مراعاتوں میں اضافہ کرنا ہوتا ہے تو ان کے لیے فنڈز کی عدم دستیابی کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مگر جب عوام کیلئے کوئی فائدہ پہنچانے والا معاملہ درپیش تو انہیں فنڈز کی قلت کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ ایل ٹی سی بسیں لاہور جیسے شہر میں سفر کرنے والے لاکھوں مسافروں کیلئے سب سے سستا ذریعہ سفر ہیں۔ اب حکومت نے ان کو بند کر کے ان مسافروں کو خوار کر دیا ہے جن میں مزدور، طلبہ، عام شہری اور تاجر شامل ہیں۔ یہ لوگ مہنگے کرائے ادا نہیں کر سکتے۔ ان حالات میں رکشہ والوں اور نجی ٹرانسپورٹروں کی چاندی ہو گی جو پہلے ہی من چاہے کرائے وصول کرتے ہیں۔ اب ایک طرف حکومت فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا رو رہی ہے تو دوسری طرف عوام کے ردعمل سے بچنے کے لیے کہہ رہی ہے کہ فروری میں لاہور میں نئے معاہدے کے تحت ایل ٹی سی اڑھائی سو نئی بسیں چلائے گی۔ صاف لگ رہا ہے لوگوں کو لولی پاپ دے کر بہلایا جا رہا ہے۔ شہر کوئی بھی ہو‘ صوبہ کوئی بھی ہو‘ وہاں کی حکومت اور انتظامیہ شہریوں کو سستی سفری سہولتیں فراہم کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ مسافروں کو یوں نجی ٹرانسپورٹروں کے سپرد کرنا تحریک انصاف کے دور میں ناانصافی نہیں تو اور کیا کہلائے گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اس کا سختی سے نوٹس لیں اور عوام کی سفری سہولت بحال کرائیں۔
٭٭٭٭
احتساب سب کا ہونا چاہئے۔ صرف پی ٹی آئی کا نہیں۔ شوکت یوسفزئی
یاالٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ یہ کونسی فریاد ہے جو عرش پہ اثر لانے کو جا رہی ہے۔ یہ کون سا دکھی دل ہے جو حالات و واقعات کے ہاتھوںستایا جا رہا ہے۔ خیبر پی کے سمیت پورے ملک میں تحریک انصاف کے ساتھ اتنی زیادتی ہو رہی ہے۔ انہیں احتساب کے کڑے امتحان سے گزارا جا رہا ہے اور ملک میں کسی کو خبر تک نہیں ہو رہی۔ کیا یہ اندھوں کی بستی ہے۔ یہاں سب بہرے رہتے ہیں کہ شوکت یوسفزئی وزیر اطلاعات خیبر پی کے بستی والوں کی بے حسی پر چیخ اٹھے ہیں۔ لوگ تو اب تک یہی سمجھ رہے تھے کہ نیب میں ایف آئی آر میں عدالتوں میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی والوں کو گھیر گھیر کر لایا جا رہا ہے۔ تھانوں اور جیلوں میں ان جماعتوں کے رہنمائوں اور کارکنوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسا جا رہا ہے۔ مگر یہاں تو عجب احتساب کی غضب کہانی شوکت یوسفزئی سنا رہے ہیں۔ کیا یہ سب گرفتار لوگ پی ٹی آئی والے ہیں کیا جن کی جائیدادیں اور بنک کھاتے ضبط ہو رہے ہیں وہ بھی پی ٹی آئی کے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو واقعی پی ٹی آئی کا ملک بھر میں کڑا احتساب ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) والے تو ملک بھر میں لڈیاں اور بھنگڑے ڈالتے پھر رہے ہیں۔ یہ تو بڑی حیرت کی بات ہے۔ اس پر ہم وزیر اطلاعات خیبر پی کے شوکت یوسفزئی کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ غم گرچہ بڑا جانگسل ہے۔ مگر صبر کے سوا اور کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ تحریک کے وہ رہنما اور کارکن جو قید میں ہیں جو پیشیاں بھگت رہے ہیں جو روپوش ہیں جو ہسپتالوں میں ہیں جن کی جائیدادیں اور بنک اکائونٹس ضبط ہیں۔ ہماری ہمدردیاں ان سب کے ساتھ ہے۔
٭٭٭٭
پہلا کامیاب ٹرانسپلانٹ ۔ امریکی ڈاکٹروں نے مردہ دل زندہ کر دیا
کیا بات ہے ان امریکی طبی ماہرین یعنی ڈاکٹروں کی۔ انہوں نے وہ کام کر دکھایا جو ہم برسوں کی نصیحتوں وعظوں اور تقریروں کے باوجود نہ کر سکے۔ جتنا زور ہمارے شاعروں ، ناصحوں، مبلغوں‘ دانائوں، علما اور صوفیوں نے دل مردہ کو زندہ کرنے پر لگایا ان سینکڑوں برسوں میں اگر چند لاکھ مرد ہ دل بھی زندہ ہو جاتے تو آج عالم اسلام کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ افسوس کہ ہمارا سارا زور گفتار پر رہا کردار سازی ہم کر نہ سکے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال بھی
؎ یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو روح کو تڑپا دے جو قلب کو گرما دے
کی دعائیں خاص طور پر کرتے رہے۔ ۔ چلیں جو ہوا سو ہوا۔ مگر اب امریکہ میں ڈاکٹروں نے جس طرح ایک شخص کے مردہ دل کو ٹرانسپلانٹ کر کے ایک بار پھر دھڑکنے پر آمادہ کیا وہ ایسا کارنامہ ہے جو طب کی تاریخ کا رخ ہی بدل دے گا۔ ورنہ ہمارے ہاں تو دل دھڑکنے کا سبب کسی کی یاد کو قرار دیا جاتا رہا ہے۔
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا
مگر امریکیوں نے تو حقیقت میں مردہ دل کو زندہ کر دیا۔ اب بھی وقت ہے اُمت مسلمہ بھی کوئی ایسا گُر استعمال کرے اور گفتار کی بجائے جدید علم و ہنر سے مرد ہ دلوںکو ز ندہ کر کے اپنا لوہا منوائے اور امت مسلمہ کے سر پر کامیابیوں کا تاج سجائے۔ حضرت اقبال بھی اسی لیے ’’پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے‘‘ کا ٹہوکا دے کر ہمیں جاگتے رہے ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ جاگتے ہی نہیں۔
٭٭٭٭٭