شیش محل کے پتھر
ظالم کون ہے؟ درندہ کون ہے؟سفاک کون ہے؟کیا ہندو ظالم ہے؟یہودی سفاک ہے؟توپھر مسلمان کیا ہے؟یہ جوخدا کانام لیتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، زکٰوۃ دیتے ہیں، روزہ رکھتے ہیںاور حج کو فرض سمجھتے ہیں یہ لوگ کیا ہیں؟ان کے چوغے کے اندر کیا ہے؟ یہ جو معاشرتی قباحتیں ہمارے سامنے آرہی ہیں جن میں بچیوں کے ساتھ زیادتی کرکے انہیں قتل کردیاجاتاہے ،ندی نالوں میں ان کی لاشیں بہادی جاتی ہیں یا کوڑے کے ڈھیر پہ پھینک دی جاتی ہیں، یہ جو ہم سوشل میڈیا پہ غیراخلاقی حرکات کی ان گنت خبریں دیکھتے سنتے ہیں اور دنیابھی دیکھتی ہے، توپھرہم کس منہ سے ہندو کو کہتے ہیں کہ کشمیر میں عورتوں کی عصمت دری نہ کرو ،یہ کیسا اسلام ہے؟ یہ کیسی مسلمانیت ہے؟افشاں کا کیا قصور وہ تو جس عہدے پربیٹھی دارالامان کو صحیح معنوں میں امان گاہ بنانا چاہتی ہے ان بچیوں کیلئے جو یتیم بے آسرا، دنیا کی ٹھکرائی ہوئی یا کسی کا گناہ ہیں۔یہاں پر سچ کی آواز کو دبانا کتنا آسان ہے، یہاں کوئی کُرلا رہاہو ،تڑپ رہا ہو اوربلبلا رہا ہوکسی کے دل نہیں پسیجتے۔ اہم عہدوں پہ بیٹھے لوگ جن کا کام یہ ہے کہ بڑی گاڑیوں سے کالے شیشوں والی عینک لگا کے اترتے ہیںتوانکے گرد لوگ دربان کی صورت کھڑے ہوتے ہیں اور وہ دارالامان میں جا کے، اپنی کوٹھیوں کے تہہ خانوں میں، شہروں کے مضافات میں اوراپنی حویلیوں میں اپنی بیٹی کی عمر کی لڑکیاں لے جاتے ہیں وہاں سے تو ان کی چیخیں بھی سنائی نہیں دیتیں، معصوم بچیاں جن کو ابھی شعور کی روشنی نے اُجیارا بھی نہیں ہوتا جن کو گناہ اورثواب کے چہرے سے مانوسیت بھی نہیں ہوتی۔انہوں نے تو صرف حکم ماننا سیکھا ہوتاہے، چاہے وہ لاچار والدین کا مجبوری اور غربت کو مٹانے کیلئے دیاگیا حکم ہویا کسی سپرنٹنڈنٹ کا قہر زدہ آواز کے ساتھ دیاگیا حکم ہو یا کسی خون کے رشتے کا مار دینے کا ڈر پیدا کرکے دیاگیا حکم ہو۔ایسے میں ایک لڑکی ایک معصوم سی چڑیا کیا کرے گی؟ وہ تو اڑنے کا یا ان ابلیس زادوں کے چنگل سے بچ نکل کر بھاگ جانے کا سوچ ہی نہیں سکتی، دوسرے اسلامی ممالک میں ہونے والے مظالم کیلئے تو ہم اقوام متحدہ تک انصاف لینے کیلئے جاتے ہیں مگر بتایئے کہ اپنے وطن کے اس گھنائونے کام کی سزا کیلئے اس بیہمانہ اقدامات کو روکنے اور مجرم کو تختہ دار تک پہنچانے کیلئے کہاںجائیں؟ یہاں تو رشتے بھی شرمندگی سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔حال ہی میں دو معصوم زندگیوں سے کھیل کے انہیں قتل کردیاگیا، سندھ میں معصوم بچی کو پتھروں اوراینٹوں سے مار مار کے ظالم درندوں نے مار ڈالا اور پھر قبر کو بھی پھانسی دینے کی مکمل کارروائی کی، انسانیت کس طرح دم توڑ رہی ہے، مجھے تو صادق آباد میں 9سالہ بچے اللہ دتہ کے قتل کی آہ زاری بھی سنائی دے رہی ہے، مجھے تو زینب، فاطمہ، اسماء ،عمران اور فائق بھی نہیں بھولے ان کی روحیں کتنی تڑپتی ہونگی جب وہ اپنی اپنی جنت میں بیٹے نیچے اپنے جیسے معصوم بچوں اور بہنوں کویوں جانوروں کے پنجوں میں گرفتار چیختے چلاتے، فریاد کرتے دیکھتی ہونگی، مجھے یاد ہے کہ زینب کے قاتل عمران کیلئے کس طرح واویلا اور فریاد کی گئی اور مجرم کو پکڑ کر قرار واقعی سزا دی گئی تو کیا میں اور آپ یہ سمجھتے ہیں بس ایک وہی عمران تھا؟ یہاں جو بھی درندہ ہے وہی عمران ہے۔ کیوں نہیں ان کے گرد گھیرا تنگ کیاجاتا ؟کیوںان کو چوک میں پھانسی دینے کی درخواستیں جمع کرائی جارہی ہیں؟
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ کیا واقعی ان تمام مظالم کے ذمہ دار صرف مرد ہیں۔ جب کہ ہمیں اس میں عورتیں بھی ملوث نظر آتی ہیں۔ اب تو اپنی زبان کو قُفل لگانا پڑے گا کہ اب اور کیا کہوں کہ اے عورت تو بھی اپنی صنف کے قاتلوں میں شامل ہو گئی۔آئوکاروکاری کے تحت ان لوگوں کو مل کر سنگسار کریں جنہوں نے صرف اور صرف بیٹیوں، بہنوں،مائوں اور بیویوں کو اپنے ظلم کی تابکاریوں میں جلاکے بھسم کردیا ہے۔ کیا ہوا کے ہاتھ خزاں کے موسموں نے باندھ دیئے ہیں نہ بہار آتی ہے نہ شجرپہ نَمو کاری سے بُورلگتاہے اور جب بُور لگنے لگتاہے تو شاخیں کاٹ دی جاتی ہیں۔ اے انسانوں تمہیں تخلیق دینے والی عورت آج کتنی بے آسرا ہوچکی ہے اسے تو آج اپنے باپ کے ساتھ چلتے ہوئے بھی خوف رہتاہے کہیں بیچ نہ دی جائوں۔جنسی درندوںکا نشانہ بننے والی اے کمزور حوا تم تو مار دی جاتی ہومگر ہم جیسے محبت کرنے والے لوگ روز مرتے ہیں، روز جیتے ہیں۔ یہ ظالم اپنی مائوں، بہنوں، بیٹیوں کیلئے ذرا سی تکلیف پر کس طرح تڑپتے ہیں۔ اور دوسروں کی بچیوں کو جن کے منہ میں زبان نہیں، جن کو شعور نہیںاور جس کے سر پہ سایہ نہیں سوائے خدا کے یہ ان کے ساتھ کتنا ظلم کررہے ہیں، برسہا برس سے حوا کی بیٹی بِک رہی ہے اونچے ایوانوں میں سائونڈ پروف دیواروں سے ٹکراکرآوازیں پاش پاش ہوجاتی ہیں۔ آج کی عورت اتنی خوفزدہ ہے کہ مجھے تو لگتاہے جیسے عورت بیٹی کے پیدا ہوتے ہی اسے درندہ ایوانِ وقت کے حوالے ہونے سے بچانے کیلئے مارڈالے گی۔
انسانیت کا جنازہ اٹھنے میں اب کچھ دیر باقی نہیں کفن دفن کا انتظام ہوچکا ہے، میتیں بھی تیار ہیں بس جنازہ پڑھانے کیلئے کوئی پاک صاف انسان ہی نہیںمل رہا نجانے اب کیاہوگا؟