اتر پردیش: بلند شہر میں گائے کی باقیات ملنے پر ہنگامے ، سب انسپکٹر ، طالب علم ہلاک
کسی کھیت میں کسی مویشی کی ہڈیاں پائی گئیں ، علاقے کے ہندو بھڑک اٹھے کہ ہونہ ہو یہ ہڈیاں کسی ’’ ماتا ‘‘ کی ہیں ۔ حالانکہ ایسی ہڈیاں بھینس ، بیل اور بھینسے کی بھی ہوسکتی ہیں ۔ بس بستی کے مسلمانوں کی شامت آگئی۔ گائے ذبح کرنے کی افواہ کو بہانہ بناکر انتہا پسند ہندو تنظیم کے سینکڑوں افراد نے پر تشدد احتجاج کے دوران درجنوں گاڑیوں اور موٹرسائیکلیں جلا ڈالیں ایک نوجوان طالب علم سمیت ہند وانسپکٹر پولیس سبودھ سنگھ کو حشیانہ تشدد اور فائرنگ سے ہلاک کر ڈالا ۔ حالات پر قابو پانے کے لئے پیرا ملٹری فورسز بلند شہر بلانا پڑی اس صوبے کے وزیراعلیٰ کٹر مہا سبھائی یوگی ادتیا ناتھ ہیں جو اقلیتوںاور خصوصاً مسلمانوں کے اتنے خلاف ہیں کہ گزشتہ عام انتخابات میں اس صوبے کی اسمبلی کے چنائو کے لئے کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا۔ حالانکہ اس صوبے میں مسلمان ووٹروں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور خاصے مسلمان ، بی جے پی کے رکن بھی ہیں ۔ گزشتہ انتخابات میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد اتر پردیش اسمبلی کی رکن منتخب ہوتی رہی ہے ۔ ہندوتوا کی تحریک نے مسلمانوں کی حب الوطنی مشکوک بنا دی ہے۔ سوشلزم صرف آئین تک محدود ہے۔ جن صوبوں میں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں عملاً رام راج نافذ ہے۔ سیکولر بھارت کے بانیوں ، مہاتما گاندھی ، پنڈت نہرو، اور مولانا ابوالکلام آزاد نے کم از کم اس قسم کے بھارت ورش کا تو تصور بھی نہیں کیا ہوگا ۔ جب آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اور لوک سبھا کے سابق رکن اسد الدین اویسی کو بھارت سے نکالنے کے مطالبے ہونے لگیں تو سمجھ لیجئے کہ قیامت قریب ہے۔ اسد الدین اویسی اول تا آخر بھارتی ہیں اور وہ مودی سے بھی زیادہ محب وطن ہیں ۔ مطالبوں کے جواب میں اویسی صاحب نے بھی بڑا کرارا جواب دیاہے کہ بھارت میرے باپ کا ملک ہے، کسی میں ہمت ہے تو مجھے نکال کر دکھائے ۔
٭…٭…٭
نائیجیرین صدر کو افواہوں کے بعد اپنے انتقال کی خود تردید کرنا پڑی
ابوجا (دارالحکومت ) کے کسی اخبار نے یہ خبر چلا دی کہ صدارتی کابینہ کے اجلا س کی صدارت 75سالہ محمد بخاری خود نہیں کر رہے تھے بلکہ صدارتی کرسی پر ان کی ڈمی پڑی تھی ۔ وہ خود فوت ہو چکے ہیں ،تاہم سرکاری طور پر تردید کر دی گئی لیکن لوگوں کو یقین نہ آیا اور خبر کی گرم بازاری قائم رہی۔ چنانچہ صدر محمدبخاری کو تردید کے لئے خود سامنے آنا پڑا۔ در اصل جن ملکوں میں خبروں پر سنسر ہو وہاں ایسی افواہیں اڑتی رہتی ہیں اور بڑی دلچسپ صورت اختیار کر لیتی ہیں ۔آمروں اور بادشاہوں کے بارے میں تو اکثر ایسی افواہیں جنم لیتی رہتی ہیں ۔ اگر وہ دو چار دن جلوہ گر نہ ہوں یا رعایا کو جھروکے میں درشن نہ کرائیں تو ایسی افواہوں کی جھڑی لگ جاتی ہے ۔ ایک بار صدر ایوب چند دن کے لئے سامنے نہ آئے تو یہ خبر پھیلا دی گئی کہ انہیں دل کا دورہ پڑا ہے بستر مرگ پر ہیں بس چند دن کے مہمان ہیں ۔ اگرچہ وہ علیل ضرور تھے لیکن ایسی بھی حالت نہ تھی کہ چل چلائو کا وقت آن پہنچا ہو ، چنانچہ انہیں بھی اپنی زندگی کا ثبوت دینے کی زحمت اٹھانا پڑی۔ نائیجریا رقبہ اور آباد ی کے لحاظ سے افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہے ، مسلمان اکثریت میں ہیں ، عیسائی بھی خاصی تعداد میں ہیں ۔ غیر متمدن قبائل بھی پائے جاتے ہیں تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کا رکن ہے۔ یہاں بھی ایک انتہا پسند اسلامی تنظیم ’’ بوکوحرام ‘‘ کے نام سے سرگرم عمل ہے ۔ بوکو حرام کا لفظی مطلب ہے ’’مغربی تعلیم حرام ‘‘۔ دہشت گردی کے لحاظ سے القاعدہ ، داعش ، طالبان اور صومالیہ کی الشباب کی فہرست میں شامل ہے ۔ دو تین سال پہلے سینکڑوں طالبات کو اغوا کر لیا ، جس پر دنیا بھر میں شدید رد عمل ہوا لیکن پھر کسی کو نقصان پہنچائے بغیر آہستہ آہستہ سب کو رہاکر دیا ۔ بتایا جا تا ہے کہ بوکو حرام سے پہلے نائیجریا میں اسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا مگر بوکوحرام کی حرکتوں نے اشاعت اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔
٭…٭…٭
مجھے تبلیغ اسلام کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک
ملائشیا میں مقیم بھارت واپسی کے خواہشمند معروف اسلامی مبلغ ذاکر نائیک نے کہا ہے کہ انہوں نے بھارتی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی اور انہیں اسلام دشمنوں کی جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ بعض مسلمان سکالروں نے ابتدائی تعلیم سائنس ،ڈاکٹری ،یا انجینئرنگ کی حاصل کی مگر آگے چل کر اپنی لائن بدل لی۔ بڑی محنت سے اسلام اورعربی علوم کا اتنا مطالعہ کیا کہ دینی مدرسوں میں پڑھے ہوئے اور درس نظامیہ کے فارغ التحصل لوگوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔ یوں تو ایسے لوگوں کی فہرست خاص طویل ہے مگر اس ضمن میں مصر کے سائنس دان ڈاکٹر محمود، ڈاکٹر اسرار احمد، انجینئر خرم مراد (مرحوم) اور ڈاکٹر ذاکر نائیک بڑے مشہور ہیں ان کی وجہ شہرت صرف یہی نہیں، کہ انہوں نے اپنی لگن سے دینی علوم میںکمال حاصل کیا، بلکہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اشاعت تعلیم کے ادارے بنائے، مصری ڈاکٹر محمود نے تو باقاعدہ ایک سینمابنایا ہواتھا۔ جہاں سائنسی انکشافات کا قرآن مجید کی آیات پر انطباق کیا جاتا تھا، یہ اتنا متاثر کن عمل تھا جو دیکھتا کلام الٰہی کی حقانیت اس کے دل و دماغ میں پیوست ہو جاتی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک تعلیم کے لحاظ سے ایم بی بی ایس ہیں، ابتدائی تعلیم بمبئی کے انگریزی مدارس میں حاصل کی۔ اس لئے انگریزی پر انہیں حیرت انگیز عبور ہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد، پریکٹس کرنے کی بجائے، اسلام کو اوڑھنا بچھونا بنایا۔ تبلیغ کے لئے جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنے کا سوجھا، تو بمبئی میں ہی PEACE کے نام سے چینل اور اسلامک ریسرچ فائونڈیشن کے نام سے ایک تحقیقی ادارہ بنا لیا۔ ان کا انداز بیان اتنا دل نشین ہوتا کہ ان کی تقریر سننے کے لئے ہزاروں مسلمان، ہندو، عیسائی، سکھ اور جین جمع ہو جاتے وہ اسلام کا سافٹ رخ پیش کرتے، انہوں نے اپنی تقریر یا تحریر میں کبھی ’’جہادیوں‘‘ کی حمایت نہیں کی۔انتہا پسند ان کی مقبولیت برداشت نہ کر سکے اور ان پر دہشت گردی کے الزام میں مقدمات درج کرا دئیے جس پر انہیں مجبوراً بھارت چھوڑنا پڑا، پہلے کچھ عرصہ سعودی عرب رہے، اب کوئی دو سال سے ملائشیا میں ہیں، جہاں انہیں شہریت دے دی گئی ہے۔ چونکہ وہ فطرتاً مشنری ہیں اس لئے دوبارہ بھارت واپسی کے خواہاں ہیں۔ لیکن بی جے پی کی انتہا پسند حکومت نے ان کی راہ میں دہشت گردی کے مقدمات کی صورت میں ناقابل عبوردیوار کھڑی کر دی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024