بہت سال پہلے میں نے ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی نعتیں پڑھیں‘ ایسی عقیدت میں ڈوبی ہو ئی نعتیں تھیں کہ مزہ آگیا۔انکی دو شاعری کی کتابیں" لہو بولتا ہے" اور" آنے والی سحر بند کھڑکی ہے" ۔ میری چھوٹی سی ذاتی لائبیریری کا حصہ ہیں ۔ ان دونوں کتابوں کا آغاز ایک ہی نعت سے ہے جو انہوں نے 14دسمبر 1992 کو سعودی عرب ائیر پورٹ پر اترتے ہی پانچ منٹ میں لکھی تھی ۔میں جب بھی ان کتابوں کی ورق گردانی کرتی ہوں تو اکثر ایسے ہو تا ہے کہ کافی کافی دیر اسی نعت کو پڑھتی رہتی ہوں اوراس محبت پر فخر محسوس کرتی ہوں جو ایک غیر مسلم کو ہمارے پیارے محمدؐ سے ہے ۔ آپ بھی سنئیے :
حضورؐ میرے
فقیر اک پائے لنگ لے کر
ہزار کوسوں سے آپ کے در پہ آگیا ہے
نبیؐ برحق
یہ حاضری گرچہ نامکمل ہے
پھر بھی اس کو قبول کیجئے
حضورؐ آقا محترم
یہ فقیر اتنا تو جانتا ہے کہ قبلہ دید
صرف اک فاصلے سے اس کوروا ہے
اس کے نصیب میں مصطفےؐ کے در کی تجلیاں
دور سے لکھی ہیں
نبی اکرمؐ
وہ سایہ رحمت پیمبرؐ
جو صف بہ صف سب نمازیوں کے سروں پہ
اس کا ایک پر تو
ذرا سی بخشش
ذرا سا فیضان عفو و رحمت
اسے بھی مل جائے،جوشہ مرسلینؐ
دست دعا اٹھائے کھڑا ہے ایک فاصلے پہ لیکن
نمازیوں کی صفوں میں شامل نہیں ہے آقا !
ستیہ پال آنند جی کی یہ نعت مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے ۔ بہت سالوں تک تو میں انکی ان کتابوں کو کھولتی اور اس نعت سے آگے نہ بڑھ پا تی ۔ اس لائن کو سوچئے۔" اس کے نصیب میں مصطفےؐ کے در کی تجلیاں دور سے لکھی ہیں ۔ "
ہمیں خود پر فخر کیوں محسوس نہیں ہو تا جب آنند جی جیسا امریکہ کی یو نیورسٹی میں سالہا سال سے انگریزی ادب پڑھانے والا ، شاعری میں عام سطحی محبت کو پس ِ پشت ڈال کر فلسفہ، سماجی،نظریاتی اور سیاسی معاملات ، تاریخ اور مذہبی کرداروں کو کہانیوں میں ڈھال کر ہمارے سامنے پیش کرنے والا ہندو غیر روایتی شاعر اور مفکر ہمارے پیارے پیغمبر کا عاشق نظر آتا ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے ؟ جو پاکستان کے صوبے پنجاب اور ضلع اٹک میں 1930میں پیدا ہوئے تھے ۔ وہ کوئی تین سال پہلے میرے ٹاک شو ،دستک میں آئے تو میں نے اس محبت کی وجہ پو چھی تو اپنے مخصوص دھیمے انداز میں مسکراتے ہو ئے بولے :
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں
ڈاکٹر ستیہ پال آنند انگریزی،پنجابی،ہندی اور اردو میں لکھتے ہیں ۔ ہندو ہونے کے باوجود اردو زبان کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ۔ جس انسان نے قران پاک کی آیتوں کے اوپر بھی نظمیں لکھی ہوں ۔ جس نے ہماری ثقافت اور مذہب دونوں کو ہم سے زیادہ پیار سے اپنایا ہو ، ہم نے اسے نہ اپنایا ۔ ڈاکٹر صاحب بھی جب یہ سوچتے ہونگے تو انہیں تکلیف ہو تی ہو گی ۔۔۔ شائد اسی لئے لکھتے ہیں :
مجھ سے پہلے جو لوگ آئے تھے
اچھے شاعر تھے، خوب کہتے تھے
ان سے بہتر نہیں ، مگر میں بھی
ایک شاعر ہوں ، خوب کہتا ہوں
درجنوں بار میرے مجموعے
شائع ہو کر نہیں بکے ،مجھ کو
درس و تدریس کے نصابوں سے
دور رکھا گیاہزاروں کوس
اعلی معیار کے جرائد میں
مجھ پر بحثیں نہ ہوئیں، مجھ کو
ناقدوں نے نہیں کہا ، میں بھی
اس صدی کا عظیم شاعر ہوں
میں تو سرکار کا مخالف تھا
کون دیتا مجھے کوئی ایوارڈ
حاکم وقت کے حریفوں کو
کس نے بخشے ہیں چیک ، سند، اعزاز؟
"محترم ظفر اقبال اردو کے بڑے شاعر ہو نگے مگر یہ بات مجھے چھوٹی لگی کیونکہ اگر ادبی تنقید ایسے ہی ہو نے لگ جائے تو ظفر صاحب پر بھی ہو سکتی ہے۔ وہ کرو گے تو یہ ہو جائیگا۔ میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند کو اتنی خوبصورت نعتیں لکھنے کی وجہ سے ایک خاص مقام پر رکھتی ہوں ۔ یہ میرا اپنے حضور پاکؐ سے محبت کے اظہار کا طریقہ ہے کہ جو ، انؐ سے محبت کرے میں اسکا احترام کروں ۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک اور نظم ’’سنو اینجل‘‘ جو انہوں نے اپنی مرحومہ بیوی کی یاد میں لکھی تھی،مجھے ان کی عزت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا اردو شاعری میں ایک منفرد مقام ہے ۔ چار جنموں کی کتھا ڈاکٹر صاحب نے لکھی ایک کتھا ان پر وقت لکھے گا ۔اور تب شائد ان کا حق ادا ہو جائیگا ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024