عبداللہ حسین کا شمار اردو کی ان نابغہ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو فکشن پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ انہوں نے کئی ناول، ناولٹ اور افسانوی مجموعے لکھے۔ تین برس قبل تراسی برس کی عمر میں کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہوئے۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے خصوصی شمارہ ’’عبداللہ حسین نمبر‘‘ شائع کیا ہے۔ مدیر اختر رضا سلیمی ہیں جو خود بھی معروف شاعر اور ادیب ہیں اور ان کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ انہوں نے بہت محنت سے عبداللہ حسین نمبر مرتب کیا ہے۔ جس میں تقریباً 56 ادیبوں کے مضامین، عبداللہ حسین کے انٹرویوز، انکے ناولوں اور افسانوں کا انتخاب، تراجم اور منظوم خراج تحسین شامل ہے۔ اس جریدے کے نگران سید جنید اخلاق اورمدیر منتظم ڈاکٹر راشد حمید ہیں جبکہ مجلس مشاورت میں ڈاکٹر توصیف تبسم، ڈاکٹر اقبال آفاقی، محمد حمید شاہد اور ڈاکٹر وحید احمد شامل ہیں۔ عبداللہ حسین سے میری چند ملاقاتیں اکادمی ادبیات کے رائٹرز ہاؤس میں ہوئی تھیں۔ بین الاقوامی کانفرنس کے حوالے سے چند ادیبوں میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ میری خوش نصیبی کہ مجھے عبداللہ حسین کے ساتھ والا کمرہ الاٹ ہوا۔ عبداللہ حسین وہاں ایک ماہ سے مقیم تھے۔ جہاں وہ اپنا ناول ’’نادار لوگ‘‘ لکھ رہے تھے۔ وہ اپنا کمرہ بند رکھتے تا کہ ناول لکھنے میں یکسوئی برقرار رہ سکے۔ البتہ ان سے کھانے کی میز پر ملاقات ہو پاتی۔میرا زیادہ حوالہ چوں کہ پنجابی زبان و ادب کا ہے اس لیے عبداللہ حسین سے اس سلسلے میں زیادہ گفتگو رہی۔ میں نے ان سے پوچھا اگر آپ اداس نسلیں، نشیب یا ’’باگھ‘‘ پنجابی میں لکھتے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان ناولوں کو وہی مقبولیت حاصل ہوتی جو اردو کی وجہ سے ہے۔ عبداللہ حسین کا جواب تھا ’’نہیں، مقبولیت تو دوسری بات ہے کیوں کہ یہاں پنجابی خواندہ زبان کے طورپر رائج نہ تھی (گو بول چال کی زبان پنجابی ہی ہے) اسلئے پنجابی مقبول نہ ہو سکی کہ اس میں روزنامہ اخبار یا جرائد شائع نہیں ہوتے (جیسے سندھی اور پشتو میں شائع ہوتے ہیں) یہاں پنجابی پڑھنے میں لوگوں کو دقت محسوس ہوتی ہے۔ یہ تو عادت کی بات ہے، اس لیے اردو کا صفحہ پڑھنے میں اگر ایک منٹ لگے گا تو پنجابی کا صفحہ پڑھنے میں پانچ منٹ لگیں گے۔ دراصل لوگوں کو اردو میں لکھنے پڑھنے کی عادت ہو گئی ہے۔ چونکہ اردو زبان رائج ہے۔ بہت سی کتابیں، اخبارات اور رسائل اردو میں چھپتے ہیں، اس لیے اردو زبان لوگوں کو زیادہ آسان لگتی ہے۔ میرا ارادہ پنجابی میں ایک ناول یا ناولٹ لکھنے کے بارے میں بھی ہے۔ مجھے اردو میں لکھتے ہوئے ہمیشہ حدبندی کا احساس رہا ہے (یہ صرف اسلئے نہیں کہ اردو میری مادری زبان نہیں، پنجابی میری مادری زبان ہے) میرا خیال ہے کہ یہ حدبندی ان لوگوں کیلئے بھی ہے، جن کی مادری زبان اردو ہے۔ اردو کی نسبت پنجابی زبان میں جذبہ، مزاحمت اور بیان کرنے کی قوت بے پناہ ہے۔ پنجابی میں ایک عظیم جذباتی رابطے کا احساس ہے، اردو اس سے عاری ہے‘‘ عبداللہ حسین کا کہنا تھا کہ پنجابی رائج نہ ہونے کے باوجود پنجابی میں لکھی گئی رومانوی داستانیں مقبول ہوئیں۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد پنجاب کے لوگوں کی ایک حاکمانہ ذہنیت رہی ہے کہ ہم حکمران طبقہ ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ حکمران طبقے کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ انگریزوں کے عہد میں یہاں اردو کے حوالے سے ذہنیت میں تبدیلی آئی۔ یہاں کے لوگوں کو اپنی زبان اور اپنی ثقافت مشکوک نظر آنے لگی۔ پاکستان میں پنجابیوں نے انگریزی اور اردو بولنے میں اپنی برتری سمجھی اور پنجابی کو حقارت سے دیکھا۔ آج تک پنجاب کو اپنی علاقائی زبان اور اپنی ثقافت کے بارے میں غور کرنے کی فرصت ہی نہیں ملی، اس لیے پنجاب کی شناخت بھی متعین نہیں ہو سکی۔ اردو کو رابطے کی زبان ہونا چاہیے۔ انگریزی بھی ہو۔ سندھ اور خیبرپختونخوا کی موجودہ صورتحال دیکھئے، وہ اپنی علاقائی زبانوں کو مکمل طور پر رائج کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے پنجاب کو ہمیشہ بالادستی حاصل نہیں رہے گی۔ اگر ایسا ہو گا تو کام خراب ہو جائیگا اسلئے اس وقت پنجاب کو اپنی علاقائی زبان کی تلاش لاحق ہو گی اور بالآخر پنجاب کو اپنی زبان پر توجہ دینا پڑے گی۔ ناول ’’اداس نسلیں‘‘ کے حوالے سے عبداللہ حسین کا کہنا تھا کہ اگر اس ناول کو آج بھی زیر مطالعہ لایا جائے تو میرے خیال میں یہ ناول آج بھی وہی تقاضے پورے کرتا ہے جو بیس سال پہلے پورے کرتا تھا۔ مجھے زیادہ تر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کراچی، لاہور، فیصل آباد میں ملے۔ مجھے جو خطوط سندھ، بلوچستان، خیبرپختونحوا کے چھوٹے چھوٹے قصبوں سے موصول ہوتے ہیں، ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اب بھی ’’اداس نسلیں‘‘ کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ نسل بھی اس ناول کو پرانی چیز کے بجائے ایک نئی چیز سمجھتی ہے۔اپنے آپ کو نوبل پرائز کا حق دار سمجھنے والے ادیبوں کے بارے میں وہ بھولو پہلوان کے بیٹے اچھا پہلوان اور جاپان کے پہلوان انوکی کی کشتی کا حوالہ دیا کرتے تھے۔ انوکی نے پہلے ہی داؤ میں اچھا پہلوان کو (جو اپنے آپ کو رستم زمان سمجھتا تھا) اتنا دبایا کہ اسکی چیخیں نکل گئیں۔ وہ جان چھڑانے کیلئے واویلا کرنے لگا۔ ادب کا بھی یہی حال ہے۔ یہاں ہر شاعر، ادیب خود کو رستم زماں سمجھتا ہے۔ بعض تو چند ڈنڈے بردار بھی اکٹھے کر لیتے ہیں جو انکے بے مثال عالمی ادیب ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں لیکن جب ادب کی دنیا میں نکلتے ہیں تو ان کا پہلے ہی جھٹکے میں کندھا نکل جاتا ہے۔ واویلا کرنے لگتے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38