وطن عزیز میں کتنے زیادہ مسائل کا باعث ہمارے اشرافیہ کی وہ لالچی، ناعاقبت اندیش اور متکبرانہ سوچ ہے جو انسانوں کو انسانوں میں شمار ہی نہیں کرتی۔ اپنے وجود کی پیمائش اور وزن سے کہیں زیادہ بڑھ کر اپنے وجود پروری کا جو سامان کرتے ہیں۔ اس سامان کا پھیلاﺅ اتنا زیادہ ہے کہ سادہ اور غریب انسان کی ضروریات زندگی کو بالکل ہی مختصر کرنا اشرافیہ کا ذوق توسیع پسندانہ بن جاتا ہے۔ اسباب معیشت پر اتنی قوت اور جبر سے قبضہ جمایا جاتا ہے کہ ضرورت مند غریب کو حصول معاش کے ذرائع تک رسائی بھی ایسے لگتی ہے کہ شاید خودکشی آسان ہے اور ضروریات زندگی کا حصول نہایت ناممکن ہے۔کہتے ہیں کہ جس دل میں دنیا کی محبت ہوتی ہے وہاں پر شیطان اپنی سفارت کا مرکز بنا لیتا ہے۔ اوراسے خواہشات، بے پایاں کی دلدل میں ایسا پھنسا دیتا ہے کہ ذلت کی گہرائی اس کا مقدربنا دیتا ہے۔ اور پھر اس انسان کی ہر خواہش معصوم خواہش نہیں ہوتی بلکہ خواہش بے درد ہوتی ہے اور تمنائے بے عقلاں قرار پاتی ہے۔ اس کی خواہشات کی دنیا خواب در خواب وسیع ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کی توسیع پسند خواہشات کسی غریب کی بوسیدہ ہڈیوں کو بھی نادر زمانہ بنا کر اپنے ڈرائنگ روم کی زینت قرار دیکر سجانے کا اہتمام کرتی ہیں۔ اور پھر بڑے بڑے گھروں کو اپنی امارات اور سرمائے کی معاشرتی علامت بنا کر اظہار کرنا بھی اسی اشرافیہ کی انسانی تذلیل کی کوشش ہوتی ہے۔بڑے بڑے مکانات کی تعمیر کا شوق ان کی زندگی کی آخری خواہش معلوم ہوتی ہے ہماری حکومت کے وہ ادارے جن کا محض کام ہی نئی کالونیاں آباد کرنا ہے۔ وہ بدعنوانی اور غریب ماری کا ایک بہت بڑا مرکز ہیں۔ یہی ادارے اور ان کی آشیر باد سے دیگر پرائیویٹ ادارے غریب مشقت کے مارے کم آمدنی والے کسانوں کی زمین سستے داموں خرید کر سونے کی ترازو میں تولنے کا دھندہ سر انجام دیتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے زرعی سرپرستی نہ ہونے کے باعث غریب چھوٹا کسان اور متوسط زمیندار بھی روز مرہ کے بجلی کے بلوں اور زرعی دواﺅں کے علاوہ کھادوں کی گرانی کے باعث زمین سے روپوں کا تبادلہ منظور کر لیتے ہیں اور پھر اپنے آباءکی درانتوں کو کوڑیوں کے دام بیچتے ہیں پھر اشرافیہ کی خواہشات کی تکمیل کے وسیلہ ستھری ترقیاتی ادارے ان زرعی زمینوں کو توسیع پسندانہ تعمیراتی پروگراموں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ اور پھر بڑی بڑی سکیمیں تیار ہوتی ہیں۔ مکان بڑھتے چلے جاتے ہیں اور زرعی زمین کا رقبہ کم ہوتا جاتا ہے۔ تاجر اپنی سیل کرتے ہیں کہ زرعی پیداوار کی کمی کا بہانہ کر کے دیار دشمناں سے سبزیاں تک درآمد کرتے ہیں اور اپنی تجوریاں بھر کر امن کی آشا کا دامن تھام کر دشمن کی تمناﺅں کو اپنی زبان کا سہارا دیتے ہیں۔پاکستان اپنی معیشت کے لحاظ سے ایک زرعی ملک ہے اگر زرعی زمینوں ہی کو بستیوں میں بدلنے کا جبری شوق جاری رہا تو ایک دن ایسا آئے گا کہ گھر کی چھتوں پر مٹی بچھا کر فصلیں اگانے کا بڑا شوق جنم لے گا اور پھر فطرت مخالف عمل کی نحوست ہماری معیشت پر پڑے گی اور ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت محض ایک فیشن بن جائے گی۔ اور ضرورت معاش کا بندھن ہماری غیر ملکی گداگری سے بندھ جائے گا۔دوسری جانب ظلم یہ ہے کہ بڑے مکانات کے شوقین لوگوں نے تعمیراتی زمین کی قیمت اتنی زیادہ بڑھا دی ہے کہ ایک سادہ عام شہری 2 مرلہ زمین خریدنے کےلئے بھی چالیس سال تک ٹکہ ٹکہ اور پیسہ پیسہ جوڑ کر اپنی کٹیاں کے تنکے سیدھا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر مہنگائی کی بلائے ناگہانی آپڑتی ہے اور 2 مرلے کا مکان بھی بغیر تکمیل کے اپنے رہائشیوں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔نئے فیشن زدہ، حیا باختہ رہائشیوں کا بوجھ اٹھانے والی بستیاں اپنے تعمیر کنندہ کاروبارئیوں کو اتنا امیر کر دیتی ہیں کہ وہ پھر لوگوں کے ضمیر کی خریداری کا سلسلہ بھی شروع کرتے ہیں۔ مدرسے بناتے ہیں مسجدیں بناتے ہیں اور پھر غریب دیہاڑی دار مزدوروں کو بیچ سڑک میں قطار اندر قطار کھڑا کر کے غریبوں کے دستر خوان کے نام سے بھیک سنٹر بناتے ہیں سیاسی بازیگروں کو بھی اپنی مکارانہ چالوں کے تحفظ کیلئے اپنے ساتھ رکھتے ہیںرسالت پناہ کے قول مبارک کا مفہوم ہے کہ ”سب سے برا روپیہ وہ ہوتا ہے جو گارے مٹی کی تعمیر میں خرچ کیا جائے۔دور حاضر کے ایک دانشور مختار مسعود کا یہ احساس کہ قیام پاکستان کے بعد ہم اپنے وطن کے قیام و تعمیر کی اصل روش اور مقصود نظریہ کو فراموش کر بیٹھے۔ منزل کا نصب العین ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا اپنی زندگی کی جائز اور محتاط ضروریات کو اپنی توسیع پسند طبیعت کے دروازے پر لاکھڑا کیا اور پھر ضروریات سے بڑھی ہوئی خواہشات ہی کو اپنے لئے منتخب کر لیا پھر بڑے بڑے مکانات، جدید ترین امراءکی بستیاں وجود میں آنے لگے۔ گلبرگ، شادمان، ڈیفنس، جوہر ٹاﺅن، بحریہ ٹاﺅن اور زرعی اراضی کو بانجھ کرنے کیلئے لہلہاتے کھیتوں پر پتھر کے دیو ہیکل قلعہ نما مکانات کی تعمیر نے ہماری ثقافت کو ہمارے قومی مزاج اور ضروریات سے بالکل ہی نا آشنا کر دیا۔ مساجد کا قیام ہماری دینی و ملی ضروریات کا حصہ ہیں۔ لیکن انسانوں کی راحت رسائی کےلئے شفاخانے، شفاف پانی کی سبیلیں اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے جدید و قدیم علوم کا اہتمام اور درسگاہوں کا قیام بھی اتنا ہی اہم ہے تاکہ دل و دماغ کے بت خانے سے نجات ہو اور ظاہر و باطن میں مقاصد مسجد از خود جنم لینے لگیں۔مساجد کی ضرورت اور تقدس کا انکار گمراہی ہے لیکن مقاصد مساجد سے بے خبری اور پہلوتہی بھی تو کتنی ستم ظریفی ہے۔ کہ تعلیم و تعلم کیلئے ان بڑی بستیوں کے پاس ایچی سن، بیکن ہاﺅس اور غیر ملکی نصابات کو ترجیح دیں اور مسجد محض ایک ثقافتی علامت بن کر رہ جائے اور وہاں پر لوگ انتظام و انصرام سنبھالیں جو قوم کو فرقوںمیں بانٹتے ہیں اور دین و دنیا کے متوازن اسلامی تصور سے ہٹ کر ایسے رجال مذہب پیدا کرتے ہیں جن کو دیکھ کر دین ملا فی سبیل اللہ فساد کا تصور از خود چلا آتا ہے
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024