کہتے ہیں کہ قوموں کی ترقی میں ان کے نظام تعلیم کا بہت اہم کردار ہوتا ہے مگر فکر کی بات ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں 65 سال گزرنے کے بعد بھی کوئی قابل ذکر تعلیمی نظام کسی بھی دورِ حکومت میں متعارف نہیں کروایاجاسکا۔ پاکستان کی بد قسمتی رہی کہ اس کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی اسے دو مخلص اور سمجھدار قائدین سے ہاتھ دھونا پڑا۔پہلے قائداعظم ایک سال کے بعد وفات پاگئے،پھر قائد ملت لیاقت علی خان کو ملک کا برا چاہنے والوں نے اپنے راستے سے ہٹادیا تاکہ پاکستان پر جاگیردارانہ تسلط کو دوام بخشا جاسکے اور پاکستان کے وسائل اور دولت پر قبضہ کرکے عوام کے حقوق کو غضب کیاجاسکے۔ان پرجدید تعلیم کے دروازے بند کرکے انہیں فرسودہ نظام تعلیم کی زنجیروںمیں جکڑا جاسکے تاکہ ملک کی ترقی کی اور نوجوان نسل کی صلاحیتوں کو مشکوک بنادیا جائے۔ اس کا جواز یہ بنایا گیا کہ چونکہ تعلیمی ادارے ریاستی خرچ پر چلتے ہیں،اس لیے ریاست کا ان پر مکمل اختیار ہوناچاہئے مگر یہ جواز دینے والوں کو یہ بات یاد نہ رہی کہ ریاستی خرچے دراصل عوامی وسائل سے ہی پورے کیے جاتے ہیں اور یہ پاکستان کی عوام کی محنت کا پیسہ ہی ہے جس کے ذریعے سے ریاست کا نظام چلتا ہے۔اس ملک پر قابض وڈیرہ شاہی اور اشرافیہ نے ایسی تعلیمی پالیسی کو فرو غ دیا جس سے تعلیمی عدم مساوات بھی اپنی جگہ برقرار رہے اور جس سے معاشرے میں سماجی و معاشی عدم استحکام بھی پیدا ہوا۔اس ضمن میں سب سے بڑا المیہ تو یہ دیکھنے میں آیا کہ حکمرانوں اور امراءکے بچوں کیلئے تو مغربی طرز کے سکول اور مسلح افواج کے بچوں کیلئے مراعاتی سکول فراہم کیے گئے جن کو مراعات یافتہ بنانے کیلئے ہر ممکن امداد بھی مہیا کی جاتی رہی جو کہ قومی خزانے سے مہیا کی جاتی تھی جبکہ پاکستان کے عام عوام کے بچے سرکاری سکولوں میں تعلیم کے نام پر سرابوں کے پیچھے بھاگتے رہے جبکہ دوسری طرف حکمرانوں اور امراءکے بچے انگریزی میں جدید ترین تعلیم سے لیس ہوکر حکمرانی کیلئے تیار ہوکر نکلتے رہے اس طرح پاکستان میں سیاست موروثی ہوکر رہ گئی۔اسی کے سبب عدم مساوات پر مبنی تعلیمی نظام کا خاتمہ آج تک نہیں کیاجاسکا۔اگر اب بھی حکمرانوں کو ہوش نہ آیا تو انہوں نے تعلیمی نظام میں اصلاحات نہ کیں تو عین ممکن ہے کہ 2050ءمیں پاکستان میں ناخواندہ افراد کی تعداد13کروڑ تک جاپہنچے۔قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ جس ملک کی تقریباً نصف آبادی اَن پڑھ یعنی اخبار تک نہ پڑھ سکے وہ اپنے آپ کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کیونکر شامل کرسکے گا۔بات دراصل یہ ہے کہ کسی بھی ملک کا نظام تعلیم درحقیقت اس ملک کی تاریخ و ثقافت اور اس کے شہریوں کے مزاج کا آئینہ دار ہوتا ہے۔مثال کے طورپر یورپی ممالک اور کمیونسٹ ممالک جیسے امریکہ وغیرہ میں ایسا نظام تعلیم وضع کیا گیا ہے جو کہ ان ممالک کی تاریخ اور ان ممالک کے باشندوں کے مزاج سے ہم آہنگ ہو۔اس کے برعکس مسلمان ممالک میں بیرونی اثرات کے باعث صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔
اگر یہاں یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان ممالک میں نظام تعلیم نہ تو عوام کے مزاج سے پوری طرح میل کھاتا ہے اور نہ ہی یکساں طریقے پر رائج ہے۔پاکستان میں بھی نظام تعلیم کو کئی درجوں میں تقسیم کردیا گیا ہے اور ہر درجہ طبقاتی بنیادوںپر تقسیم ہے۔ہمارا نظام تعلیم نہ تو مکمل مشرقیت کا عکس ہے اور نہ ہی پوری طرح مغربی تصورات سے ہم آہنگ کہاجاسکتا ہے یہ تو ایک طرح کا ملغوبہ بن کر رہ گیا ہے جس کے نتیجے میں نہ فرد کے کردار کی تعمیر ہوپاتی ہے اور نہ ہی متوازن خطوط پر اسلامی معاشرہ تشکیل ہوپاتا ہے۔مسلم عہد میں تعلیم کس قدر اہم تھی اس کا اندازہ ہمارے اربابِ اختیار شاید نہ لگا سکیں مگر علم کی قدرومنزلت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ملک شاہ خلجوقی نامی بادشاہ کو ایک موقع پر تعلیم کی مد میں غیر معمولی اخراجات پر کچھ تشویش ہوئی تو اس نے نظام الملک طوسی سے کہا کہ اس زرکثیر سے تو ایک لشکر جرار تیار ہوسکتا ہے۔نظام الملک نے کہا کہ ”اے بادشاہ! تیری فوج کے تیر تو فقط چند قدم پر کام دے سکتے ہیں لیکن جو فوج میں تیار کر رہا ہوں اس کے تیر زمین کے سارے طول و عرض میں مو¿ثر ثابت ہوں گے اور اس کی دعاﺅں اور حسنات کے تیر تو آسمان کی سپر سے بھی نہیں رک سکتے“۔ یہاں اس گفتگوں کو رقم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلم عہد کے حکمران اور ارباب حکومت تعلیم کو نہ تو تجارت سمجھتے تھے اور نہ خزانے پر بوجھ تصور کرتے تھے،جیسا کہ ہمارے آج کے حکمران اور نظام تعلیم کے شعبے نے تعلیم کو بھی کاروباری شکل دے رکھی ہے۔آج کل تعلیم برائے تعلیم کے بجائے تعلیم برائے روزگار کا اصول اپنایاجارہا ہے اور بد قسمتی سے اس ضمن میں حکومت جن تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے وہ تعلیم کوایک منافع بخش کاروبار کی شکل دے رہے ہیں۔ ایک ایسا کاروبار جس میں ایک پیسہ رکھنے والا شخص ہی سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ پاکستان میں چلنے والے بڑے بڑے نجی سکول کے مالکان پاکستان کے لوگوں کو تعلیم کے نام پر لوٹ کر اتنا پیسہ کما چکے ہیں کہ دبئی،بنگلہ دیش،ملائیشیا ، برطانیہ اور امریکہ میں کھربوں کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
قیام پاکستان سے لیکر آج تک خیر سے اس ملک میں چودہ سے زائد تعلیمی پالیسیاں نافذ ہوچکی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ جنوبی ایشیاءکا سب سے ناخواندہ ملک کیوں ہے،اس سوال کا جواب کون دے گا؟ ہمارا نظام تعلیم درحقیقت فرسودہ اور انگریز کا بنایا ہوا ہے۔اس کا بانی لارڈ میکالے ہے جس نے کہا تھا کہ میرا نظام تعلیم پڑھ کر مسلمان،مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اس بات کو جاننے کے بعد بھی ہم نے نیا اور جدید تقاضوںسے ہم آہنگ نظام تعلیم وضع کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ پاکستان کے نظام تعلیم کی خرابیوں اور اس کی زبوں حالی پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ آج تک اس ملک میں کوئی ایک معیاری نظام تعلیم رائج نہیں کیاجاسکا۔ اس ضمن میں قابل مذمت بات تو یہ ہے کہ حکومت نے تعلیم کے فروغ کیلئے نئے نئے تجربات کرنے کی کوشش ضرور کی مگر اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ پہلے نظام سے زیادہ برے نتائج کا قوم کو سامنا کرنا پڑا اگر آج من حیث القوم ہم یہ خواہش رکھتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے اور پاکستانی طالت علم اپنے ملک کا نام ساری دنیا میں روشن کرنے کا باعث بنے تو ہمیں سب سے پہلے نظام تعلیم کو درست سمت میں رائج کرنے کیلئے ترجیحی پالیسی اپنانی پڑے گی۔یہ کام حکومت،تعلیمی اداروں اور عوام کا ہے اس کے بغیر نہ تو ہمارا معاشرہ تہذیب یافتہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ہمارا ملک اقتصادی طورپر ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی اس ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کیاجاسکتا ہے۔اگر آج ہمیں اپنے ملک کو نامساعد حالات کی دلدل سے باہر نکالنا ہے تو ہمیں لوگوں میں یہ شعور بیدار کرنا ہوگا کہ تعلیم کی روشنی پھیلنے سے نہ صرف غربت اور جہالت دونوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے بلکہ تعلیم پورے معاشرتی نظام کو سنوارنے میں اہم کردارادا کرسکتی ہے۔
ہمارا نظام تعلیم اور اس کی خامیاں
Dec 05, 2012