محمد طارق چودھری ۔۔۔
امریکی صدر بارک اوبامہ نے افغانستان میں اپنی حکمت عملی کا اعلان کر دیا ‘ افغانستان میں ایک بڑی‘ تیز رفتار اور فیصلہ کن جنگ ہونے جا رہی ہے‘ پاکستان نہ صرف اس صورتحال میں سب سے متاثرہ ملک ہے بلکہ اس نے اس جنگ کے بوجھ کا زیادہ حصہ اپنے کندھوں پر لاد رکھا ہے۔ امریکہ کی نئی حکمت عملی جس میں جنگ کی شدت ہے‘ فوجوں کی واپسی بھی‘ پاکستان کی اہمیت کا ذکر‘ اخراجات کا ناقابل برداشت ہونے کا اعلان بھی‘ اس جنگ کے مقاصد کو مکمل فتح سے ہٹا کر محدود کر دیا گیا ہے۔ انکے مقاصد کو مختصر لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
-1افغانستان کے اندرونی نظام کو بہتر افغان آرمی اور مؤثر پولیس فورس کے ذریعے مستحکم کر دیا جائے۔
-2پاکستان افغانستان کے درمیان چھپی القاعدہ اور اس کی قیادت کو ختم یا منتشر کر دیا جائے۔
-3طالبان کی طاقت کو ختم کرنے کیلئے تیز رفتار جنگی کارروائی کی جائے کہ وہ امریکہ او ر نیٹو افواج کی واپسی کے بعد ملک پر قبضہ نہ کر سکیں۔
اپنی حکمت عملی کو ترتیب دیتے وقت امریکہ کی رائے عامہ اور ماہرین کی آراء کو جاننے کے بعد ایک درمیانی رستے کا انتخاب کیا گیا ہے۔ پاکستان اس حکمت عملی کا بنیادی رکن ہے جس کا عملی تعاون اس کی کامیابی کیلئے ضروری قرار پاتا ہے۔ 30 ہزار امریکی افواج اگلے چھ ماہ میں بھی موسم سرما کے بعد افغانستان منتقل کر دی جائیگی‘ اس عرصہ میں نیٹو بھی 5 ہزار نفری افغانستان بھیجے گا۔ اس طرح افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کی تعداد تقریباً ڈیڑھ لاکھ ہوجائیگی۔ امریکہ کو 30 ارب ڈالر کے اضافی اخراجات بھی برداشت کرنا پڑیں گے۔
اس کوشش کو کامیاب حکمت عملی قرار نہیں دیا جا سکتا‘ یہ مختلف تجاویز کا درمیانی راستہ فراہم کرتی ہے‘ کمپرومائز سیاست اور بات چیت میں جو فوائد ہوتے ہیں جنگ اسکے الٹ نتائج پیدا کرتی ہے۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں پاکستان اور پاکستان سے باہر سفارتی ماہرین کافی حد تک پرامیدی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسکو پاکستان کیلئے پیدا شدہ نئے مواقع سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ بھارت اعلان شدہ پالیسی سے مضطرب اور نالاں دکھائی دیتا ہے‘ یہ کیفیت بھی پاکستان کیلئے مثبت خیال کی جا رہی ہے۔
دوسری طرف وزیراعظم پاکستان کا یہ کہنا کہ افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد میں اضافہ ہماری مشکلات کو بڑھا دیگا اور وزیر خارجہ کا بی بی سی کو انٹرویو کہ امریکہ کو کم از کم پانچ سال تک افغانستان میں قیام کرنا چاہئے‘ یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ پاکستان نے آنیوالے حالات کا جائزہ لینے کیلئے قومی یا حکومتی سطح پر کوئی مؤثر مشاورت نہیں کی اور نہ ہی امریکہ نے پاکستان کو اعتماد میں لیکر اپنی پالیسی تشکیل دی ۔ امریکہ اپنی تشکیل شدہ پالیسی‘ جس پر وہ اپنے انداز اور طریقہ کار کے مطابق عمل کریگا‘ پاکستان کو اعتماد میں لئے اور اسکے تعاون کی نوعیت اور وسعت کو جانے بغیر اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق مدد اور تعاون کا خواہش مند ہے۔ پاکستان پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ اگلے کالم میں لیا جائیگا ‘ آج امریکی نقطۂ نظر سے اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔
اوبامہ نے یہ اعتراف کر لیا ہے کہ جنگ جیتی جا سکتی ہے‘ نہ قیام طویل ہو سکتا ہے‘ نہ ہم اسکے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ صدارتی انتخاب سے پہلے اوبامہ اپنی انتخابی مہم کے دوران کہتے چلے آئے ہیں کہ عراق میں بش کی طرف سے فوجی کارروائی غیرضروری اور ہولناک غلطی تھی جس کی اصلاح ہونی چاہئے ‘ وہ اپنے شہریوں سے وعدہ کرتے رہے کہ وہ صدر منتخب ہونے کے بعد عراق سے فوجیں واپس بلا کر اپنی تمام توجہ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں پر مرکوز کرینگے جو امریکہ کی سلامتی کیلئے حقیقی خطرہ اور جہاں القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔
اب ایک طرف تو وہ اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں‘ دوسری طرف کرسیٔ صدارت کے بعد حاصل ہونیوالی معلومات اور انکشافات کے بعد ان جنگوں کے نتائج سے خوفزدہ بھی ہیں۔ وہ بش کی پالیسی سے نجات کے ساتھ کم ہمتی اور بزدلی کے طعنے سے بچ نکلنے کی تمنا بھی رکھتے ہیں۔ ان کی پارٹی‘ ماہرین‘ فوجی جرنیلوں کی رائے بری طرح مگر برابر حصوں میں تقسیم تھی‘ ایک بڑی تعداد افغانستان میں جنگ کو ناکام کوشش قرار دیتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس جہنم سے جتنا جلد ممکن ہو نکل جانا چاہئے‘ وہ سوویت یونین کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں ‘ انکے خیال میں یہ خوفناک بھڑکتا الائو نہ صرف اقتصادیات کو نگل جائیگا بلکہ فوج کے مورال اور امریکہ کے عالمی دبدبے کو بھی خاک آلود کر دیگا لیکن یکطرفہ فوری انخلاء کا فیصلہ مکمل شکست کی طرح بھاری پڑ سکتا ہے۔ اس سے پورے خطے میں امریکی مفادات کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ اضافی فوج جنگ جیتنے کیلئے نہیں بلکہ موجودہ صورتحال برقرار رکھنے کیلئے طلب کر رہے ہیں‘ افغانستان میں امریکی سفیر جو جنگ اور سفارت کا تجربہ رکھتے ہیں وہ فوج بھیجنے کی مخالفت کرتے رہے ہیں‘ انکے خیال میں تیس چالیس ہزار فوج سے سکیورٹی کی صورتحال بہتر نہیں ہو سکتی بلکہ امریکیوں کی اموات میں اضافہ اور اقتصادیات پر دبائو ناقابل برداشت ہوجائیگا۔ دنیا بھر کے ماہرین حرب کا خیال ہے کہ افعانستان میں کامیابی کیلئے پانچ لاکھ فوجی درکار ہونگے‘ تب فتح کے امکانات ہو سکتے ہیں لیکن امریکہ کے پاس افغانستان بھیجنے کیلئے پانچ لاکھ فوج ہے نہ ہی اسکے اخراجات برداشت کرنے کی سکت۔ 30 ہزار اضافی فوج کی تعیناتی اور واپسی کا اعلان ایک ساتھ کر دیا گیا ہے‘ جولائی 2010ء تک یہ فوج افغانستان پہنچے گی اور ٹھیک ایک سال بعد اس کا انخلاء شروع ہوجائیگا‘ فوج کے وہاں جانے سے چھ ماہ پہلے ہی اسکی واپسی کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے۔ یہ فوج دل جمعی سے لڑنے کی بجائے واپسی کیلئے دن گنے گی اور مجاہدین اس سے ہرگز مرعوب نہیں ہونگے جن کو پتہ ہے کہ ہاری فوج کی آخری کوشش ہے وہ پامردی سے اس کا سامنا کرنے کو تیار ہوں گے ‘ ان کو اپنی فتح کا یقین دلا دیا گیا ہے ‘ انکے تیور جارحانہ اور حوصلے بلند کر دیئے گئے ہیں۔اوبامہ کی اس حکمت عملی پر اس کے مخالف صدارتی امیدوار جان مکین نے بڑے بنیادی سوالات اٹھائے ہیں‘ وہ کہتے ہیں:
1) افغانستان میں کامیابی نہ ملی تو بھی فوج واپس بلا لی جائے گی۔ 2) کیا کامیابی کیلئے روڈ میپ بنایا گیا۔ 3 ) ناکامی کی صورت میں پلان کیا ہے؟ اس میں تیسرا سوال سب سے اہم ہے کہ ناکامی کی صورت میں ڈیڑھ لاکھ فوج کو سلامتی سے نکالنے کی تدبیر کیا ہوگی؟ جو فوج بھاگنے کے راستوں کو محفوظ بنانے کی فکر میں ہے اسکی کامیابی کا تصور ہی احمقوں کی جنت ہے۔
بہتر اور جدید ترین ہتھیاروں کے باوجود امریکی فوج کی حالت اچھی نہیں ہے‘ گزشتہ رات ’’وائس آف امریکہ‘‘ کے پروگرام میں بتایا جا رہا تھا کہ ’’افغانستان میں لڑنے والی امریکی فوج میں خودکشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے‘ موجودہ سال کے گیارہ مہینوں میں 211 فوجی جوان خودکشی کر چکے ہیں‘ جنگ لڑتے ہوئے 200 فوجی جوانوں کی موت اتنا اہم واقعہ نہیں جتنا اہم اتنی بڑی تعداد میں جوانوں کا خودکشی کر لینا ہے۔ یہ جوانوں کی مایوسی اور مورال کی انتہائی پست سطح کو ظاہر کرتی ہے‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فوج کے ہر طبقہ‘ یونٹ اور گروپ میں مایوسی‘ ناکامی‘ بے مقصدیت کتنا گہرا اثر چھوڑ رہی ہے۔ جنگجو فرسٹریشن میں تشدد کی طرف جاتا ہے لیکن یہاں انتشار‘ مایوسی اور بے بسی اتنی گہری اتر چکی ہے کہ خودکشی متعدی مرض کی طرح پھیل رہی ہے۔ اس رپورٹ سے افغانستان میں لڑنے والی امریکی فوج کی کامیابی کے امکانات کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جا سکتا ہے‘ پھر بھی ایک شکست سے امریکیوں کو خاص فرق نہیں پڑتا‘ ان کی جنگوں میں کامیابی کی شرح صفر فی صد رہی ہے۔ ایک جنگ ہارنے یا ادھوری چھوڑنے سے انکی شرح فی صد میں کوئی تبدیلی نہیں آئیگی۔
امریکی صدر بارک اوبامہ نے افغانستان میں اپنی حکمت عملی کا اعلان کر دیا ‘ افغانستان میں ایک بڑی‘ تیز رفتار اور فیصلہ کن جنگ ہونے جا رہی ہے‘ پاکستان نہ صرف اس صورتحال میں سب سے متاثرہ ملک ہے بلکہ اس نے اس جنگ کے بوجھ کا زیادہ حصہ اپنے کندھوں پر لاد رکھا ہے۔ امریکہ کی نئی حکمت عملی جس میں جنگ کی شدت ہے‘ فوجوں کی واپسی بھی‘ پاکستان کی اہمیت کا ذکر‘ اخراجات کا ناقابل برداشت ہونے کا اعلان بھی‘ اس جنگ کے مقاصد کو مکمل فتح سے ہٹا کر محدود کر دیا گیا ہے۔ انکے مقاصد کو مختصر لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
-1افغانستان کے اندرونی نظام کو بہتر افغان آرمی اور مؤثر پولیس فورس کے ذریعے مستحکم کر دیا جائے۔
-2پاکستان افغانستان کے درمیان چھپی القاعدہ اور اس کی قیادت کو ختم یا منتشر کر دیا جائے۔
-3طالبان کی طاقت کو ختم کرنے کیلئے تیز رفتار جنگی کارروائی کی جائے کہ وہ امریکہ او ر نیٹو افواج کی واپسی کے بعد ملک پر قبضہ نہ کر سکیں۔
اپنی حکمت عملی کو ترتیب دیتے وقت امریکہ کی رائے عامہ اور ماہرین کی آراء کو جاننے کے بعد ایک درمیانی رستے کا انتخاب کیا گیا ہے۔ پاکستان اس حکمت عملی کا بنیادی رکن ہے جس کا عملی تعاون اس کی کامیابی کیلئے ضروری قرار پاتا ہے۔ 30 ہزار امریکی افواج اگلے چھ ماہ میں بھی موسم سرما کے بعد افغانستان منتقل کر دی جائیگی‘ اس عرصہ میں نیٹو بھی 5 ہزار نفری افغانستان بھیجے گا۔ اس طرح افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کی تعداد تقریباً ڈیڑھ لاکھ ہوجائیگی۔ امریکہ کو 30 ارب ڈالر کے اضافی اخراجات بھی برداشت کرنا پڑیں گے۔
اس کوشش کو کامیاب حکمت عملی قرار نہیں دیا جا سکتا‘ یہ مختلف تجاویز کا درمیانی راستہ فراہم کرتی ہے‘ کمپرومائز سیاست اور بات چیت میں جو فوائد ہوتے ہیں جنگ اسکے الٹ نتائج پیدا کرتی ہے۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں پاکستان اور پاکستان سے باہر سفارتی ماہرین کافی حد تک پرامیدی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسکو پاکستان کیلئے پیدا شدہ نئے مواقع سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ بھارت اعلان شدہ پالیسی سے مضطرب اور نالاں دکھائی دیتا ہے‘ یہ کیفیت بھی پاکستان کیلئے مثبت خیال کی جا رہی ہے۔
دوسری طرف وزیراعظم پاکستان کا یہ کہنا کہ افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد میں اضافہ ہماری مشکلات کو بڑھا دیگا اور وزیر خارجہ کا بی بی سی کو انٹرویو کہ امریکہ کو کم از کم پانچ سال تک افغانستان میں قیام کرنا چاہئے‘ یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ پاکستان نے آنیوالے حالات کا جائزہ لینے کیلئے قومی یا حکومتی سطح پر کوئی مؤثر مشاورت نہیں کی اور نہ ہی امریکہ نے پاکستان کو اعتماد میں لیکر اپنی پالیسی تشکیل دی ۔ امریکہ اپنی تشکیل شدہ پالیسی‘ جس پر وہ اپنے انداز اور طریقہ کار کے مطابق عمل کریگا‘ پاکستان کو اعتماد میں لئے اور اسکے تعاون کی نوعیت اور وسعت کو جانے بغیر اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق مدد اور تعاون کا خواہش مند ہے۔ پاکستان پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ اگلے کالم میں لیا جائیگا ‘ آج امریکی نقطۂ نظر سے اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔
اوبامہ نے یہ اعتراف کر لیا ہے کہ جنگ جیتی جا سکتی ہے‘ نہ قیام طویل ہو سکتا ہے‘ نہ ہم اسکے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ صدارتی انتخاب سے پہلے اوبامہ اپنی انتخابی مہم کے دوران کہتے چلے آئے ہیں کہ عراق میں بش کی طرف سے فوجی کارروائی غیرضروری اور ہولناک غلطی تھی جس کی اصلاح ہونی چاہئے ‘ وہ اپنے شہریوں سے وعدہ کرتے رہے کہ وہ صدر منتخب ہونے کے بعد عراق سے فوجیں واپس بلا کر اپنی تمام توجہ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں پر مرکوز کرینگے جو امریکہ کی سلامتی کیلئے حقیقی خطرہ اور جہاں القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔
اب ایک طرف تو وہ اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں‘ دوسری طرف کرسیٔ صدارت کے بعد حاصل ہونیوالی معلومات اور انکشافات کے بعد ان جنگوں کے نتائج سے خوفزدہ بھی ہیں۔ وہ بش کی پالیسی سے نجات کے ساتھ کم ہمتی اور بزدلی کے طعنے سے بچ نکلنے کی تمنا بھی رکھتے ہیں۔ ان کی پارٹی‘ ماہرین‘ فوجی جرنیلوں کی رائے بری طرح مگر برابر حصوں میں تقسیم تھی‘ ایک بڑی تعداد افغانستان میں جنگ کو ناکام کوشش قرار دیتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس جہنم سے جتنا جلد ممکن ہو نکل جانا چاہئے‘ وہ سوویت یونین کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں ‘ انکے خیال میں یہ خوفناک بھڑکتا الائو نہ صرف اقتصادیات کو نگل جائیگا بلکہ فوج کے مورال اور امریکہ کے عالمی دبدبے کو بھی خاک آلود کر دیگا لیکن یکطرفہ فوری انخلاء کا فیصلہ مکمل شکست کی طرح بھاری پڑ سکتا ہے۔ اس سے پورے خطے میں امریکی مفادات کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ اضافی فوج جنگ جیتنے کیلئے نہیں بلکہ موجودہ صورتحال برقرار رکھنے کیلئے طلب کر رہے ہیں‘ افغانستان میں امریکی سفیر جو جنگ اور سفارت کا تجربہ رکھتے ہیں وہ فوج بھیجنے کی مخالفت کرتے رہے ہیں‘ انکے خیال میں تیس چالیس ہزار فوج سے سکیورٹی کی صورتحال بہتر نہیں ہو سکتی بلکہ امریکیوں کی اموات میں اضافہ اور اقتصادیات پر دبائو ناقابل برداشت ہوجائیگا۔ دنیا بھر کے ماہرین حرب کا خیال ہے کہ افعانستان میں کامیابی کیلئے پانچ لاکھ فوجی درکار ہونگے‘ تب فتح کے امکانات ہو سکتے ہیں لیکن امریکہ کے پاس افغانستان بھیجنے کیلئے پانچ لاکھ فوج ہے نہ ہی اسکے اخراجات برداشت کرنے کی سکت۔ 30 ہزار اضافی فوج کی تعیناتی اور واپسی کا اعلان ایک ساتھ کر دیا گیا ہے‘ جولائی 2010ء تک یہ فوج افغانستان پہنچے گی اور ٹھیک ایک سال بعد اس کا انخلاء شروع ہوجائیگا‘ فوج کے وہاں جانے سے چھ ماہ پہلے ہی اسکی واپسی کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے۔ یہ فوج دل جمعی سے لڑنے کی بجائے واپسی کیلئے دن گنے گی اور مجاہدین اس سے ہرگز مرعوب نہیں ہونگے جن کو پتہ ہے کہ ہاری فوج کی آخری کوشش ہے وہ پامردی سے اس کا سامنا کرنے کو تیار ہوں گے ‘ ان کو اپنی فتح کا یقین دلا دیا گیا ہے ‘ انکے تیور جارحانہ اور حوصلے بلند کر دیئے گئے ہیں۔اوبامہ کی اس حکمت عملی پر اس کے مخالف صدارتی امیدوار جان مکین نے بڑے بنیادی سوالات اٹھائے ہیں‘ وہ کہتے ہیں:
1) افغانستان میں کامیابی نہ ملی تو بھی فوج واپس بلا لی جائے گی۔ 2) کیا کامیابی کیلئے روڈ میپ بنایا گیا۔ 3 ) ناکامی کی صورت میں پلان کیا ہے؟ اس میں تیسرا سوال سب سے اہم ہے کہ ناکامی کی صورت میں ڈیڑھ لاکھ فوج کو سلامتی سے نکالنے کی تدبیر کیا ہوگی؟ جو فوج بھاگنے کے راستوں کو محفوظ بنانے کی فکر میں ہے اسکی کامیابی کا تصور ہی احمقوں کی جنت ہے۔
بہتر اور جدید ترین ہتھیاروں کے باوجود امریکی فوج کی حالت اچھی نہیں ہے‘ گزشتہ رات ’’وائس آف امریکہ‘‘ کے پروگرام میں بتایا جا رہا تھا کہ ’’افغانستان میں لڑنے والی امریکی فوج میں خودکشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے‘ موجودہ سال کے گیارہ مہینوں میں 211 فوجی جوان خودکشی کر چکے ہیں‘ جنگ لڑتے ہوئے 200 فوجی جوانوں کی موت اتنا اہم واقعہ نہیں جتنا اہم اتنی بڑی تعداد میں جوانوں کا خودکشی کر لینا ہے۔ یہ جوانوں کی مایوسی اور مورال کی انتہائی پست سطح کو ظاہر کرتی ہے‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فوج کے ہر طبقہ‘ یونٹ اور گروپ میں مایوسی‘ ناکامی‘ بے مقصدیت کتنا گہرا اثر چھوڑ رہی ہے۔ جنگجو فرسٹریشن میں تشدد کی طرف جاتا ہے لیکن یہاں انتشار‘ مایوسی اور بے بسی اتنی گہری اتر چکی ہے کہ خودکشی متعدی مرض کی طرح پھیل رہی ہے۔ اس رپورٹ سے افغانستان میں لڑنے والی امریکی فوج کی کامیابی کے امکانات کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جا سکتا ہے‘ پھر بھی ایک شکست سے امریکیوں کو خاص فرق نہیں پڑتا‘ ان کی جنگوں میں کامیابی کی شرح صفر فی صد رہی ہے۔ ایک جنگ ہارنے یا ادھوری چھوڑنے سے انکی شرح فی صد میں کوئی تبدیلی نہیں آئیگی۔