مسئلہ کشمیر اور ضیاء الحق شہید

آج مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے قانون آرٹیکل370 کے خاتمے کے چار سال مکمل ہوجائیں گے،مودی سرکار نے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ؎سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کوختم کردیا جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی علاقہ کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں بھی تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لداخ یونین کے زیرِ انتظام علاقہ ہوگابھارتی پارلیمنٹ راجیہ سبھا میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرنے کا بل بھی پیش کیا گیا تھا، اس اقدام کے خلاف بھر پور مزاحمت جاری ہے اس دفعہ کشمیری عوام 05اگست کو یوم استحصال، یوم سوگ اور یوم سیاہ کے طور پر منائیں گے یہ فیصلہ کل جماعتی حریت کانفرنس کا ہے جس نے دنیا بھر میںمقیم کشمیریوں پر زور دیا ہے کہ وہ 5 اگست کو بھارتی جارحیت کے خلاف احتجاج کریں اور تحریک آزادی کو اجاگر کریں اورمقبوضہ کشمیرمیں بھارتی جرائم کو بے نقاب کریں۔ حریت کانفرنس نے کشمیریوں سے یہ بھی اپیل کی کہ وہ اس دن احتجاجی مظاہرے کریں اور دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی حالت زار کی طرف مبذول کرائیں تاہم پاکستان میں مسلم لیگ( ضیاء الحق شہید) کا ایک ایک کارکن اس ا پیل پر لبیک کہہ رہا ہے اور اپنی اپنی جگہ پر جہاں بھی وہ ہے ۔ اپنے دستیاب وسائل کے ساتھ کشمیری عوام کی آواز میں آواز ملائے گا، پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کی منصفانہ جدوجہد آزادی کی مسلسل سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کی ہے اور کر رہا ہے، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورم پرکشمیر کاز کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو مزید تیز کرے گا۔ بھارتی فورسز کی کارروائیوں میں 5اگست کے بعدسے خواتین اور بچوں سمیت چھ سو سے زائد کشمیری شہید ہوئے، اشرف صحرائی جیل میں شہید ہوئے، ممتاز کشمیری راہ نماء سید علی گیلانی بھی زیر حراست علاج کی مناسب سہولت نہ ملنے پر انتقال کرگئے اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کے قافلے میں جاملے، مقبوضہ کشمیر میں ہندوتوا دہشت گردی کی شدت بڑھ رہی ہے ہندوتوا طاقتوں نے متنازعہ علاقے میں انتظامی تبدیلیاں لا کر نئی آبادکاری کا منصوبہ شروع کردیا ہے جس کا آغاز نئے ڈومیسائل قانون کے نفاذ کے ذریعے کیاگیا ہے، نئے ڈومیسائل قانون کے نفاذ کے بعد بھارت نے مقبوضہ علاقے میں 20لاکھ بھارتی شہریوں کی آباد کاری کی راہ ہموار کرکے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں مختلف قوانین کے تحت کشمیریوں کو ان کی آبائی زمین سے بے دخلی پر مجبور کیا جا رہا ہے، مودی سرکار کا اپنے ہی آئین پر شب خون مارتے ہوئے مسلم آبادی کا توازن بگاڑنے کیلئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے، اس فیصلے کے بعد پاکستان میں اس وقت کی حکومت کے سربراہ عمران خان نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا اور اس عزم کاا ظہار کیا کہ پاکستان کبھی کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔
کشمیریوں کی سفارتی اور اخلاقی مدد جاری رکھی جائے گی اور بھارت کی کسی بھی مہم جوئی اور جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ شدت پسند ہندو لیڈر شپ کا خواب رہا ہے جسے آج شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش میں ہے، بھارت اس کوشش میں کبھی کامیاب نہیں ہوگا، کیونکہ پاکستان میں ہر محب وطن شہری جنرل محمد ضیاء الحق کی طرح سوچتا ہے اور اسی زبان میں بات کرتا ہے جس زبان میں انہوں نے راجیو گاندھی سے کی تھی۔
بلاشبہ جنرل ضیاء کا دور قومی امنگوں کے مطابق قوم کی تعمیر اور استحکام کا دور تھا جب سے وہ دنیا سے رخصت ہوئے وطن عزیز افسوسناک صورت حال سے دو چار ہے،اس جرأت مند قیادت کی خوبیاں بیان کرنے کے لیے کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔
صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید نے ملک کو تمام مشکلات اور برائیوں سے پاک کرنے کے لیے ہر سطح پر فول پروف اقدامات کیے تھے، ان کے زمانے میں بھارت میں سکھوں کی بغاوت کا دور تھا،راجیو گاندھی نے یہ پٹی پڑھ رکھی تھی کہ پاکستان سکھوں کی بغاوت اور اسکے نتیجے میں ان کی والدہ اندرا گاندھی کے قتل کے پیچھے اور ذمہ دار ہے۔ اپنے ہندو افسانے سے اندھا ہو کر اس نے پاکستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنی افواج کو ہر طرح سے متحرک کرنے اور دھمکی آمیز انداز میں بھارتی افواج کی مکمل تعیناتی کا حکم دیا تھا۔ ہندوستان نے اپنی پوری فوج سرحدوں پر تعینات کر دی تھی اوربھارتی افواج اپنے وزیراعظم کے حکم کی منتظر تھیں، اس ماحول میں صدر ضیاء الحق شہید بھارت کے دورے پر پہنچے اور اپنی ذہنی کیفیت کے باعث راجیو ذاتی طور پر اس کا خیرمقدم کرنے پر آمادہ تھا لیکن اس کے پاس دوسرا کوئی چارہ بھی نہیں تھا اسے ایئرپورٹ جانا ہی پڑا، اس نے اپنے اندر کے گندے بغض کے ساتھ مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا اس کے باوجود صدر جنرل ضیاء الحق نے اس قدر مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کیا اتنی ناخوشگوار ماحول کے باوجود ان کے چہرے پر ایک واضح مسکراہٹ تھی،راجیو سے روانگی کے وقت کہا، ''مسٹر۔ راجیو تم پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہو؟ ٹھیک ہے آگے بڑھو! لیکن ایک بات یاد رکھناکہ اس کے بعد لوگ چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائیں گے اور صرف ضیاء اور راجیو گاندھی کو ہی یاد رکھیں گے کیونکہ یہ روایتی جنگ نہیں ہوگی۔ پاکستان ممکنہ طور پر فنا ہو سکتا ہے لیکن مسلمان پھر بھی زندہ رہیں گے کیونکہ دنیا میں کئی مسلم ممالک ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ صرف ایک ہندوستان ہے اور میں ہندو مذہب اور ہندو مذہب کو روئے زمین سے مٹا دوں گا! اور اگر آپ میری پاکستان واپسی سے پہلے مکمل طور پر ڈی ایسکلیشن اور ڈیموبلائزیشن کا حکم نہیں دیتے ہیں، تو میں منہ سے پہلا لفظ بولوں گا ''فائر''! یہ بات سنتے ہی راجیو گاندھی کے ماتھے پر پسینہ آنے لگا، اور اس کی ریڑھ کی ہڈی جواب دینے لگی تھی، مکمل سنسناہٹ تھی اور اس کا چہرہ ذرد، اس کے بعد یہ ہوا کہ بھارتی فوج پاکستان کی سرحدوں پر نظر نہیں آئی، وہ راجیو کے بہنے والے پسینے میں ہی بہہ گئی، آج بھی پاکستان کو جنرل محمد ضیاء الحق جیسے راہ نماء کی ضرورت ہے، وہ آج حیات ہوتے تو سری نگر میں پاکستان کا پرچم لہرا رہا ہوتا، اور بھارت کے آئین میں مقبوضہ کشمیر کا ذکر تک نہ ہوتا، پانچ اگست کو بھارت نے جو فیصلہ کیا در اصل یہ فیصلہ 17 اگست 1988 ء کو ہی لکھ لیا گیا تھا، لیکن پاکستان مسلم لیگ( ضیاء الحق شہید) کا ایک ایک کارکن پاکستانی عوام کے ساتھ مل کر بھارت کی اس مکروہ منصوبہ بندی کو ناکام بنائے گا۔
٭…٭…٭