ملکی معیشت میں بہتری کے آثاراور اہل سیاست کی ذمہ داری
مقام َ شکر ہے کہ پاکستان کی بدحال معیشت میں بہتری کے آثار پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں اور دیوالیہ ہونے کی جو تلوار سر پر لٹکی ہوئی تھی‘ وہ اب ہٹتی دکھائی دے رہی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے 2019ء میں منظور کردہ 6 ارب ڈالر قرض کی نئی قسط کی فراہمی سے قبل پاکستان کو 4 ارب ڈالرز کی فنڈنگ کی جو شرط عائد کر رکھی ہے‘ اس میں پیش رفت ہونا شروع ہو گئی ہے۔ حکومت پاکستان نے مذکورہ چار ارب ڈالرز کی فنڈنگ کیلئے سعودی عرب‘ یو اے ای‘ قطر اور چین سے درخواست کر رکھی تھی جس پر چین کی طرف سے سیف ڈیپازٹ کی مد میں 2 ارب ڈالرز دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت 50 کروڑ ڈالرز مالیت کا پہلا سیف ڈیپازٹ 27 جون‘ دوسرا اتنے ہی حجم کا سیف ڈیپازٹ 29 جون2022ء اور تیسرا ایک ارب ڈالرز مالیت کا سیف ڈیپازٹ 23 جولائی کو ملنا تھا۔ مذکورہ سیف ڈیپازٹ ایک سال کی مدت کیلئے ہونگے جبکہ دیگر دوست ممالک کی طرف سے مالی معاونت کا انتظار ہے۔ ان ممالک کی طرف سے مناسب فنڈنگ کی یقین دہانی ملنے کے بعد آئی ایم ایف بورڈ قسط کی ادائیگی کی باضابطہ منظوری دیگا ۔ بورڈ کا اجلاس ماہ رواں میں منعقد ہونے کی امید ہے۔ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے ملنے والی ایک ارب 17 کروڑ ڈالرز کی قسط کے حصول کیلئے تمام پیشگی شرائط پوری کر دی ہیں۔
دوسری طرف خوش آئند بات یہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی بھی قدرے مستحکم ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ روز ڈالر کی قدر میں 13.50 روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ جس کے مطابق انٹرابنک میں ڈالر 12.50 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 13.50 روپے سستا ہو گیا۔ علاوہ ازیں سونے کی قیمت میں 8600 روپے فی تولہ کے حساب سے کمی ہوئی ہے جبکہ سٹاک مارکیٹ 87 پوائنٹ بڑھ گئی۔ چاندی کی قیمت بھی 20 روپے فی تولہ گھٹ گئی۔ ڈالرز اور سونے کے نرخوں میں کمی اس حقیقت کی غماز ہے کہ پاکستانی معیشت کا پہیہ اب چلنا شروع ہو گیا ہے اور اسکی سمت بھی اب درست ہو گئی ہے۔
قبل ازیں ڈالر کی اڑان اور پاکستانی کرنسی کی بے قدری نے ملکی معیشت کو جس زبوں حالی سے دوچار کر دیا تھا اس سے بہت سے خدشات جنم لینے لگے تھے۔ گو کہ اسکی بنیادی وجوہ عالمی سطح پر ہونیوالی کساد بازاری‘ روس یو کرائن جنگ قرار دی جا رہی ہے۔علاوہ ازیں امپورٹ پر پابندی ،بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی اور آئی ایم ایف کی طرف سے 1.17 ارب ڈالرز کی قسط کی ادائیگی کے حوالے سے مثبت بیانات بھی ڈالر کی قیمت میں کمی کا باعث بنے ہیں۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کی اپنی بھی ناقص حکمت عملی، غلط پالیسیوں اور کمزور انتظامی گرفت کا بھی عمل دخل تھا۔ افغانستان جو پہلے ہی روز سے اقتصادی حوالے سے دبائو کا شکار ہے‘ امریکی انتظامیہ نے اسکی بھاری رقوم اور مالیاتی اثاثے ضبط کر رکھے ہیں۔ وہاں مالیاتی استحکام کیلئے پاکستان سے لاکھوں ڈالرز سمگل ہوتے رہے۔ پاکستان میں مناسب مانیٹرنگ کا انتظام نہ ہونے اور چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم فعال نہ ہونے کے باعث یہاں سے افغانستان ڈالرز کی سمگلنگ کا دھندہ عروج پر رہا۔ نتیجے کے طور پر ملک میں ڈالرز کی قلت پیدا ہوتی چلی گئی اور یوں اسکے نرخ پاکستانی روپے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھتے چلے گئے۔
علاوہ ازیں یہاں پر سٹہ بازی کا دھندہ بھی ڈالرز کی بلند پرواز کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے اب اس کا نوٹس لیتے ہوئے متعدد اقدامات کئے ہیں۔ بنک نے ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنے کیلئے ایکسچینج کمپنیوں اور بنکوں کے فارن ایکسچینج آپریشنز کی نگرانی سخت کرتے ہوئے کرنسی کمپنیوں کیخلاف کریک ڈائون شروع کر دیا ہے۔ بنک نے متعدد ایکسچینج کمپنیوں اور بنکوں کے معائنے کے دوران ضوابط کی خلاف ورزی پر دو ایکسچینج کمپنیوں کی چار برانچوں کے آپریشنز معطل کر دیئے جبکہ 13 فرنچائزز کے انتظامات بھی ختم کر دیئے گئے۔
مرکزی بنک کی طرف سے مذکورہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ اس نے ڈالرز کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ اگر اس نوع کے اقدامات 2 ماہ پہلے اٹھائے جاتے تو ڈالرز کی اڑان کا سلسلہ یوں جاری نہ رہتا۔ بہرحال یہ کوششیں لائق تحسین بھی ہیں اور اطمنان بخش بھی۔ امپورٹ پر پابندی انٹرنیشنل مارکیٹ میں آئل کی قیمت میں کمی اور آئی ایم ایف کی طرف سے 1.17 ارب ڈالر کی قسط کی ادائیگی کے حوالے سے مثبت بیانات بھی ڈالر کی قیمت میں کمی کا باعث بنے ہیں۔ اگر حکومت کی طرف سے چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم فعال رہا اور سٹہ بازوں کو کنٹرول کرنے کی کوششیں بارآور ہوئیں تو ڈالر کی قیمت میں مزید کمی واقع ہو سکے گی۔ ایسی صورت میں ملک میں جاری مہنگائی کے نہ ختم ہونیوالے طوفان میں بھی کمی آئیگی۔
اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ ملک میں سیاسی طور پر عدم استحکام معاشی استحکام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اہل سیاست اس ضمن میں کسی ذمہ داری کے احساس سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔ وہ معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھاتے چلے جا رہے ہیں۔ اس سیاسی افراتفری کے نتیجے میں جہاں معیشت تباہی سے دوچار ہو رہی ہے وہیں عوام الناس پر بھی اسکے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ہمارے سیاسی قائدین کو خوداحتسابی کی ضرورت ہے۔ اگر وہ یہ احساس پیدا کرلیں کہ اس ملک ہی سے انکی شناخت ہے۔ اگر وہ اس ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچاتے ہیں تو اس سے ملک ہی کا نہیں خود ان کا بھی نقصان ہوگا۔ انہیں جو عزت‘ جو عہدہ اور منصب حاصل ہے وہ اس ملک ہی کی دین ہے اور اس ملک کے عوام نے ہی انہیں اپنے ووٹوں سے اس مقام تک پہنچایا ہے۔ وہ بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے سیاست دان اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو ملک و قوم کی فلاح کیلئے وقف کریں گے۔ باہمی جھگڑوں اور سر پھٹول سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا اس لئے وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس و ادراک کرتے ہوئے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کیلئے اخلاص نیت کے ساتھ کوشش کریں اور ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دیں۔ ملک میں امن و امان کی فضا قائم ہوگی تو معیشت کو بھی استحکام ملے گا اور وہ قرضوں کے شرمناک عمل سے باہر آکر دنیا کی اقوام میں باوقار قوم کی حیثیت سے خود کو منوا سکیں گے۔