حکومت کا نیب کو قطعی غیرمؤثر بنانے کا اقدام
قومی اسمبلی نے قومی احتساب آرڈیننس مجریہ 1999ء میں مزید ترمیم کا بل گزشتہ روز منظور کرلیا۔ کثرتِ رائے سے منظور کئے گئے اس مسودۂ قانون میں احتساب عدالتوں کے ججوں کے تقرر کا اختیار صدر مملکت سے واپس لے کر حکومت کو تفویض کر دیا گیا ہے جبکہ نیب اب پچاس کروڑ روپے سے کم کی کرپشن کے کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکے گا۔ ترمیمی آرڈیننس کے تحت کسی بھی ملزم کیخلاف اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکے گا جہاں جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو۔ اسی طرح نیب کو ہائیکورٹ کی مدد سے نگرانی کی اجازت دینے کا اختیار بھی واپس لے لیا گیا ہے جبکہ ملزمان کیخلاف تحقیقات کیلئے کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جا سکے گی۔ بدقسمتی سے حقیقی اور بے لاگ احتساب کسی بھی حکومت کا مطمح نظر نہیں رہا۔ 18ویں آئینی ترمیم سے پہلے احتساب کا ادارہ سراسر حکومت کے تابع ہوتا تھا اور احتساب کمشنر کا تقرر بھی وزیراعظم کے صوابدیدی اختیار میں شامل تھا چنانچہ حکومت جیسے چاہتی احتساب کے ادارے کو اپنے سیاسی مخالفین کیخلاف استعمال کرتی۔ اس طرح احتساب سے زیادہ سیاسی انتقامی کارروائیوں کیلئے احتساب کے ادارے کا استعمال ہوتا رہا۔ پھر 2008ء کی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن نے اتفاق رائے سے 18ویں آئینی ترمیم منظور کی جس کے تحت نیب کو بھی خودمختار ادارہ بنا دیا گیا اور اسکے چیئرمین کا تقرر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت سے عمل میں لانا طے ہوا۔ چنانچہ احتساب کے نئے قانون کے تحت وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے اب تک تین چیئرمین نیب تقرر پا چکے ہیں۔ ان میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کا تقرر مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں عمل میں آیا جو پی ٹی آئی حکومت کے دوران بھی اس منصب پر فائز رہے۔ چونکہ عمران خان نے بے لاگ احتساب اور کرپشن فری سوسائٹی کے نعرے کی بنیاد پر 2018ء کے انتخابات میں اقتدار کا مینڈیٹ حاصل کیا تھا اس لئے ان سے قوم نے اسی تناظر میں توقعات وابستہ کیں مگر ان کا بے لاگ احتساب کا دائرہ بھی صرف اپوزیشن لیڈران کے گرد گھومتا رہا جنہیں چور ڈاکو کا خطاب دیتے ہوئے وہ نیب کو متحرک کرتے رہے۔ اسی دوران چیئرمین نیب کا ایک خاتون کے ساتھ سکینڈل سامنے آیا جس کے بقول پی ٹی آئی حکومت نے اسے ڈیڑھ ماہ تک وزیراعظم ہائوس میں محبوس رکھ کر اسے چیئرمین نیب کیخلاف استعمال کیا اور اسی کمزوری کی بنیاد پر جسٹس (ر) جاوید اقبال بھی بے لاگ احتساب کے معاملہ میں متنازعہ ہو گئے۔ اس وقت بادی النظر میں نیب کی حیثیت محض ایک ’’شوپیس‘‘ کی رہ گئی ہے جس سے بے لاگ احتساب کے معاملہ میں اہل اقتدار کی نیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں تو کرپشن فری سوسائٹی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا جبکہ کا ملبہ بالآخر منتخب جمہوری نظام پر ہی گرے گا۔