جمعۃ المبارک، 6 محرم الحرام، 1444ھ، 5اگست 2022 ء

پنجاب میں ٹرانسپورٹروں کی ہڑتال سے شہری پریشان
ٹوکن ٹیکس اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ سے تنگ ٹرانسپورٹروں بالاخر جنگ پر اتر آئے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ دو روز ہو چکے پنجاب کے بڑے چھوٹے شہروں میں انٹرسٹی ٹرانسپورٹ بند ہے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے والے پریشان ہیں۔ ٹرینوں پر رش کا یہ عالم ہے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں رہی۔ لوگ چھتوں پر سفر کر ہے ہیں۔ اب تو ٹرانسپورٹر جو پہلے لاہور میں دھرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ مزید بپھر گئے ہیں اور انہوں نے اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ شہر اقتدار اسلام آباد کو نجانے کس دشمن کی نظر لگ گئی ہے کہ جنرل ضیاء کے دور میں ایک مذہبی تنظیم کی طرف سے دھرنے کے بعد اب ہر جماعت نے تنظیم نے وتیرہ بنا لیا ہے کہ وہ اپنے ہر مطالبے کے لئے اسلام آباد میں چڑھ دوڑنے کا اعلان کرتی ہے اور دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا کے نعروں کی گونج میں ایسے نکل پڑتے ہیں جس طرح چونٹیاں اپنے بلوں سے نکل پڑتی ہیں۔ اب حکومت ہی ذرا پیار سے کام لے۔ ٹرانسپورٹروں کے جائز مطالبات پر ہمدردانہ غور فرمائے۔ تاکہ وہ بھی راضی ہوں اور عوام کی سفری مشکلات میں بھی کمی آئے۔ اس طرح ہزاروں شہری جو دوسرے علاقوں میں شہروں میں کام کاج کرتے ہیں ملازمت کرتے ہیں۔ اس وقت پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ان کے کام کاج اور روزگار میں حرج ہو رہا ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا رحجان غالب ہے تو حکومت بھی میر کی غزل کی طرح اس کے خوبصورت اثرات عوام تک پہنچانے میں تو دیر نہ کرے۔
٭٭٭٭
کامن ویلتھ گیمز میں تین ٹائٹل پاکستان نے جیت لئے
شکر ہے یہ اچھی خبر بھی سننے کو ملی ورنہ یوں لگ رہا تھا کہ دولت مشترکہ کھیلوں کے ان مقابلوں میں ہم جیسے گئے تھے ویسے ہی واپس آئیں گے۔ مگر خدا کا شکر ہے۔ ویٹ لفٹرنوح دستگیر بٹ اور باکسر تیمور خان اور شہیر آفریدی نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے ایونٹ میں سونے کے تمغے جیت لیتے۔ دونوں باکسروں نے جس طرح رنگ میں آتے ہی بھارت اور تھائی لینڈ کے باکسروں پر مکوں کی برسات کی وہ دیکھنے والی تھی اور چند ہی منٹوں میں باکسر تیمور خان نے ہوی ویٹ ٹائٹل بھارتی باکسر ویدانت اگر وال کو دھول چٹا دی۔ جبکہ شہیر آفریدی نے مڈل ویٹ ٹائٹل میں پہلے راؤنڈ میں بھارتی باکسر کو ناک آؤٹ کر دیا۔ اس طرح باکسر نادر بلوچ نے تھائی لینڈ کے باکسر کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔ ویٹ لفٹنگ کے مقابلے میں نوح دستگیر بٹ نے 405 کلو گرام وزنی اٹھا کر گولڈ میڈل حاصل کیا۔ ان کامیابیوں سے پاکستانیوں کے چہرے کھل اٹھے ہیں ورنہ سب پریشان تھے کہ خالی ہاتھ ہی اگر واپس آنا تھا تو گئے کیوں تھے۔ اب چلیں کم از کم 3 گولڈ میڈل اب تک مل گئے آئندہ بھی اچھی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ جوڈو کے مقابلے میں شاہ حسین نے جنوبی افریقہ کے حریف کو ہرا کر کانسی کا میڈل جیتا ہے۔
اگر چند اور گولڈ سلور مڈل مل جاتے ہیں تو محکمہ کھیل والوں کی بلے بلے ہو جائے گی اور وہ کرکٹ کے ساتھ ساتھ دیگر کھیلوں پر بھی توجہ دیں گے جس کی وجہ سے مختلف کھیلوں میں نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا۔ ویسے آپس کی بات ہے کسی میڈل کی بات نہیں کرتے مگر جس طرح ہمارے باکسروں نے بھارتی باکسروں کو دھو ڈالا اس کا مزہ اور نشہ دیر تک ہمیں مسرور کئے رہے گا۔
٭٭٭٭
600 سے زیادہ بند ڈاک خانے کھل گئے۔ 4 ہزار آسامیوں پر بھرتی ہوگی
وفاقی وزیر مواصلات و پوسٹل سروسز مولاناا سعد محمود نے یہ کیا کر دیا ایک بھولا بسرا دور پھر یاد کرا دیا۔ اب تو ڈاک خانے نئی نسل کی یادداشت سے مٹ چکے ہیں۔ ڈاکیے کا تصور ان کے لئے اجنبی ہے۔ جبکہ دنیا بھر میں آج بھی یہ دونوں ہر معاشرے میں لازم و ملزوم ہیں۔ مگر ہم انہیں آہستہ آہستہ فراموش کر رہے ہیں۔ سابق حکومتوں نے شاید جان بوجھ کر ڈاک کے اخراجات بڑھا کر اس محکمہ کی لٹیا ڈبونے کی بھرپور کوشش کی تاکہ نجی پوسٹل سروس فراہم کرنے والے مہنگے اداروں کا کاروبار چمکتا رہے۔ مگر آج بھی پاکستان پوسٹ سب سے سستا ہے۔ خاص طور پر پارسلوں ارجنٹ مواد اور بک سروس کی فراہمی میں یہ بہت کم چارج کرتا ہے۔ اب اگر اور کچھ نہیں تو ڈاکخانوں کو بحال کرکے ان کا ایک حصہ یوٹیلٹی بلوں کی وصولی اور سرکاری واجبات کے لئے مختص کیا جائے تو یہ ڈاک خانے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس طرح بنکوں کے باہر لگے رش کا بھی خاتمہ ہوگا۔ یہ تو انٹر نیٹ اور موبائل کا برا ہو جس نے ڈاک خانے۔ ڈاکیے اور خطوط سے وابستہ ساری خوبصورت یادوں کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ اب اگر موجودہ وزیر مولانا اسعد محمود اس محکمے کو دوبارہ فعال بنا رہتے ہیں تو یقین کریں ۔ ایک بار پھر
ہم لکھیں گے خط تمہیں گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو ہیں عاشق تمہارے نام کے
یا اس کے برعکس
نامہ بر تو ہی بتا تونے تو دیکھیں ہوں گے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں۔
خط لکھنے اور خط پڑھنے والوں کا رشتہ ایک بار پھر بحال ہوگا اور سب آدھی ملاقات کا مزہ لیتے نظر آئیں۔
٭٭٭٭
آزاد کشمیر کے وزیر ہائیر ایجوکیشن کو قتل کے مقدمہ میں 14 سال قید
ایسے ہی فیصلے ہوتے ہیں جو خود بتاتے ہیں کہ ابھی عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ قانون پوری توانائی کے ساتھ زندہ ہے۔ انصاف کی بے آواز لاٹھی برقی حاطف بن کر ظالموں پر گرتی ہے۔ مظلوموں کی آہ رنگ لاتی ہے اور ظالموں کو جزا و سزا کے عمل سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ یہی کچھ لگتا ہے آزادکشمیر میں ہوا اور ایک بااثر وزیر کو جوکل تک کابینہ میں بیٹھ کر صاحب اقتدار تھا آج عدالت نے اسے قتل کے مقدمے میں عمر قید یعنی 14 سال قید اور اور 10 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔ سچ کہتے ہیں ’’خون پھر خون سے ٹپکے گا تو جم جائے گا‘‘ اور اگر یہ خون بے گناہ کا ہو تو ہر صورت رنگ لائے ہے۔ تاخیر سے ہی سہی ۔ اب خدا کرے یہ مقدمہ سچا ہو اس میں کسی بے گناہ کو سزا نہ ہوئی ہوئی ہو۔ رہی بات وزیر کی تو جس ملک میں وزیراعظم پھانسی چڑھ جاتا ہوں وہاں ایک وزیر شزیر کی کیا حیثیت۔ لوگ عدالت کے اس فیصلے سے خوش ہیں۔ جس میں ایک طاقتور وزیر کو سزا ملی اور خون رائیگاں نہیں گیا۔