کشمیر کا بحران اور امن کو لاحق خطرات
5 اگست 2019ء کو بھارت نے انتخابی جارحانہ قدم اٹھاتے ہوئے کشمیر کی بھارت میں دگی گئی آئینی حیثیت کو ختم کر کے وہاں ہندوئوں کو بسانے کا جو عمل شروع کیا ہے، وہ نہایت خطرناک عمل تھا آج دو برس گزرنے کے باوجود کشمیر مسلسل محاصرہ اور کرفیو کی زد میں ہے۔ کشمیر 1846 تک سکھ سلطنت کا حصہ تھا جب انگریزوں نے سکھوں کو شکست دیکر کشمیر کو گلاب سنگھ کے ہاتھ امرتسر معاہدے کے تحت فروخت کر دیا۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے انگریز سرکار کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس نے کشمیر کو'' آزاد'' حیثیت دے دی۔ اسکے جانشینوں نے 80 فیصد مسلمان آبادی رکھنے والے کشمیر پر آہنی ہاتھوں سے اپنا تسلط جمائے رکھا۔ وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ ہندوستان سے انگریز راج تمام ہوا۔ تقسیم ہند کے قوانین کے تحت نوابی ریاستوں کو آزادی دی جانی تھی کہ وہ چاہے تو انڈیا کے ساتھ مل جائیں یا پاکستان کے ساتھ یا آزاد رہیں ہیں تاہم انہیں مشورہ دیا گیا کہ بہتر ہوگا اگر وہ اپنی قریبی ریاست کے ساتھ الحاق کریں تاکہ مزید مسائل پیدا نہ ہوں۔ تاہم مہاراجہ نے ایسا نہ کیا۔ کشمیر کی مسلمان آبادی پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتی تھی۔ مقامی آبادی اور مجاہدین نے کشمیر کو آزاد کرنے کیلئے ہتھیار اٹھا لیے اور یلغار شروع کردی۔ سری نگر قریب تھا جب مہاراجہ نے بھارتی دستوں کو کشمیر میں اترنے کی دعوت دی اور نہرو سلامتی کونسل میں چلا گیا اور کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ کیا۔ اس بات کو سات عشرے بیت چکے ہیں ، ابھی وعدہ پورا نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔ دنیا چھوٹی بڑی 190 ریاستوں میں تقسیم ہے۔ یہ حیرانی کی بات نہیں ہے کہ انکے درمیان کئی ایک سرحدی تنازعات پائے جاتے ہیں۔ بہت سی اقوام نے ان تنازعات پر خوفناک عالمی جنگیں لڑی ہیں، لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے ہیں ، کئی تہذیبں تباہ ہوگئی ہیں۔ تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد ایسے زیادہ تر جھگڑے طے ہوتے گئے جب کہ کچھ پیچیدہ مسائل اسی طرح رہنے دیئے گئے ۔ سوچ یہ تھی کہ مستقبل کی جنگوں سے بچنا ہو گا ، خاص طور پر جب انسان نے ایٹمی ہتھیار ایجاد کر لیے تھے۔ ایٹمی تباہی کا خطرہ سر پر منڈلا نے لگا تھا۔ زیادہ تر اقوام نے جذبات پر عقل کو ترجیح دی اور ان مسائل سے چشم پوشی کرنا سیکھ لیا۔دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے مسائل نہ ختم نہ ہو سکے، نہ بھلائے جاسکے ، اور نہ ہی نظر انداز کیے گئے۔ ان میں سے ایک’’مسئلہ کشمیر‘‘ ہے۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ضرور ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کا حل موجود ہے اور دنیا کی بڑی طاقتیں، انکے نمائندے ایک معزز پلیٹ فورم سے اس پر اتفاق کر چکے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ سیاسی مفاد پرستی کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے جبکہ دنیا اس پر توجہ دینے اور اس کا عملی حل نکلانے کیلئے تیار نہیں۔اس مسئلے پر پاکستان اور انڈیا تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ چھوٹی بڑی لیکن خونی جھڑپیں جاری رہتی ہیں ، خون بہتا رہتا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے معاہدے کے باوجود فائرنگ سے شہری آبادی کا جانی نقصان ہوتا رہا ہے۔ دونوں ملک عصاب شکن اسلحے کی دوڑ میں شریک ہو چکے ہیں ، جس نے خطے کی معیشت اور سیاسی استحکام کو نقصان پہنچایا ہے۔ دوسری طرف جب سرد جنگ کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں عوامی احتجاج شروع ہو گیا تو بھارتی فوج کے جبر کی وجہ سے وہ احتجاج مسلح بغاوت میں بدل گیا۔ یہ ایک مکمل طور پر پر مقامی بغاوت تھی لیکن بھارت نے پاکستان پر سرحد پار پر دہشتگردی کا الزام لگایا۔ پاکستان نے ہمیشہ اس کی تردید کی۔ بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد امریکا اور اور مغربی طاقتوں نے بھارت کے موقف کو تسلیم کرنا شروع کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اب بھارت کی اہمیت بڑھ رہی تھی۔ امریکا کو چین کو کنٹرول کرنے کیلئے انڈیا کی ضرورت تھی۔ اس نے انڈیا کو کشمیریوں کو مزید دبانے کا موقع دے دیا۔ اس دوران انڈیا نے بار ہا جارحیت کی کوشش کی لیکن ہمیشہ منہ کی کھائی۔ہندوتوا اور وسیع تر انڈیا پر یقین رکھنے والے موجودہ بھارتی لیڈر اکثر کولڈ سٹارٹ اور سرحد پار حملوں کی دھمکی دیتے ہیں۔ دو ہزار سولہ میں میں انڈیا نے پاکستان پر پر سرجیکل اسٹرائیک کا دعوی کیا تھا ، لیکن دنیا نے دیکھا کہ یہ ایک ڈرامہ تھا تاہم پاکستان نے خبردار کیا کہ وہ اس جارحیت کا جواب دے گا۔ جگہ اور وقت کا انتخاب ہم خود کریں گے۔ ستائیس فروری 2019 کو پاک فضائیہ نے لائن آف کنٹرول کے پار چھے اہداف کو لاک کیا جب کہ دو مگ طیاروں کو مار گرایا۔تاہم مودی سرکار کے ابھی ہوش ٹھکانے نہیں آئے۔ اس نے پانچ اگست 2019 کو انتہائی جارحانہ قدم اٹھاتے ہوئے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل ختم کردیا اور کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کیلئے ہندووں کی آباد کاری شروع کردی۔اس وقت کشمیر ایک وسیع انسانی جیل کا منظر پیش کرتا ہے۔ وہاں بھاری تعداد میں فوجی دستے تعینات ہیں۔ یہ ایک انسانی المیہ ہے جو انسانیت کیلئے باعث شرم ہے۔ تاہم عالمی طاقتوں کے احساسات ’’محدود‘‘ ہوتے ہیں۔عالمی برادری کیلئے بہتر ہے کہ ابھی وقت ہے ، عقل اور معقولیت کا دامن تھام کر کشمیریوں کی آواز سنے ورنہ بہت دیر ہوجائیگی۔