پاکستان ہر لحاظ سے زرخیز ہے، یہاں باصلاحیت، بہادر، محنتی، جفاکش، ایماندار، خلوص، جذبہ ایمانی سے سرشار، وطن سے محبت کرنے والے، وطن پر جان قربان کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اندرونی و بیرونی دشمنوں کے سازشوں اور بے پناہ لوٹ مار کے باوجود پاکستان آج بھی قائم و دائم ہے اور اللہ کی رحمت سے تاقیامت قائم و دائم رہے گا۔ جہاں ملک کی حفاظت کرنے والوں کی کمی نہیں، بین الاقوامی سطح پر ملک کس خوش کن تاثر ابھارنے والوں کی کمی نہیں، ایمانداروں کی کمی نہیں، وہیں ملک کو لوٹنے والوں نے بھی دل کھول کر ملک کو لوٹا ہے۔ کئی ایک شعبوں میں ملک کی خدمت کرنے والوں کی صلاحیتوں کا بین الاقوامی سطح پر بھی اعتراف کیا گیا ہے۔ جہاں ملک میں اچھے لوگ موجود ہیں، ایسے لوگ جو برائی کا مقابلہ اچھائی سے کر رہے ہیں اور ملک و قوم کا نام بھی روشن کر رہے ہیں وہیں ملک کو نقصان پہنچانے والے مفاد پرست بھی بین الاقوامی سطح پر بے نقاب ہوئے ہیں۔ بہرحال یہ ہماری تاریخ ہے، یہ ملک ہمارے بزرگوں کی قربانیوں سے معرض وجود میں آیا ہے اس کی بنیادوں میں لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ کا نعرہ لگانے والوں کا خون ہے۔ اس لیے دشمنوں کی سازشوں کے باوجود پاکستان چمکتا دمکتا رہے گا۔
اس ملک پر جان و مال قربان کرنے والوں کو ہم آج بھی یاد کرتے ہیں جب کہ نقصان پہنچانے والوں کا انجام بھی عبرتناک ہوا ہے۔
پاکستان کے لیے جان و مال قربان کرنے والوں میں قائد ملت، شہید ملت لیاقت علی خان کا نام بھی شامل ہے وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے۔ انہوں نے اپنا سب کچھ پاکستان پر قربان کیا کاش بعد میں آنے والے حکمران بھی ملک پر جان و مال قربان کرنے والے ہوتے تو آج اجتماعی طور پر ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے یقیناً ہم ان مسائل کا شکار نہ ہوتے اور ملک کی حالت مختلف ہوتی، ایک وزیراعظم وہ تھے جن کی اچکن کے نیچے بنیان میں بھی سوراخ تھے، ایک وزیراعظم وہ تھے جن کی اولاد کے پاس آج اپنے علاج کے لیے بھی وسائل نہیں ہیں یہ پاکستان بنانے والے تھے۔ جن کے لیے پاکستان بنایا گیا آج وہ ملک میں لوٹ مار مچا تہے ہیں، کچھ خود بھی باہر ہیں اولادیں بھی باہر ہیں، کروڑوں اربوں لوٹ کر ملک سے باہر لے گئے ہیں، وسائل کی کوئی نہیں ہے، سہولیات کی کوئی کمی نہیں ہے، بے پناہ دولت اکٹھی کر رکھی ہے لیکن اپنے ملک میں نہیں ہیں، دولت کی کمی نہیں لیکن مزید دولت اکٹھا کرنے کی ہوس میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ آج ملک کے مسائل کی بڑی وجہ یہ سوچ، یہ طرز زندگی ہے کہ آپ ہر سطح پر ملک کو لوٹنے، جھوٹ بولنے، خزانے کو نقصان پہنچانے کا پیغام دے رہے ہیں۔ کیا گذشتہ پینتیس، چالیس برس میں پاکستان کے منتخب وزرائے اعظم میں سے کوئی ایسا ہے کہ خدانخواستہ اس کے پاس یا اس کی اولاد کے پاس صرف دو لاکھ روپے ماہانہ علاج کے لیے نہ ہوں، یقیناً ایسا کوئی نہیں ہے۔ سب کے پاس بیپناہ دولت ہے وہ ناصرف ضرورت پڑنے پر دنیا کے کسی بھی ملک میں ناصرف اپنا علاج کروا سکتے ہیں بلکہ کئی ضرورت مندوں پر بھی خرچ کر سکتے ہیں۔ اب ان سب کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی ہے اس کے لیے کچھ زیادہ تگ و دو کی ضرورت نہیں ہے۔ عدالتوں میں موجود مختلف نوعیت کے کیسز کچھ ضرور بتا رہے ہیں کہ گذشتہ تین چار دہائیوں میں حکمرانوں، منتخب وزرائے اعظم، ان کے قریبی رفقاء اور اولادوں نے جو کچھ کیا ہے اس کا بوجھ عام آدمی اٹھا رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں سب کچھ اس ملک نے دیا ہے۔ تصویر کا رخ وہ ہے کہ جنہوں نے ہمیں یہ ملک دیا ان کی اولادیں کس حال میں ہیں۔
قارئین کرام پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ قائد ملت، شہید ملت لیاقت علی خان کے بیٹے اکبر لیاقت علی خان علیل ہیں اور بیماری کی حالت میں ان کے پاس علاج کے لیے مطلوبہ رقم موجود نہیں ہے۔ ان کی اہلیہ در لیاقت علی خان نے سندھ حکومت سے مدد کی اپیل کی ہے۔ دو روز قبل میرے پاس قائد ملت کی بہو کا وزیر اعلیٰ سندھ کو لکھا گیا خط پہنچا جو کہ گذشتہ روز نوائے وقت کے صفحہ اوّل پر شائع بھی ہوا یہ خط پڑھ کر جہاں بیانتہا تکلیف اور دکھ ہوا ہے وہیں اپنی بے حسی پر بھی رونا آیا ہے۔ شاید ہم ایسے لوگوں کے قابل ہی نہیں تھے جنہوں نے پاکستان کو لوٹا ہے، جب ہم محسنوں کو نظر انداز کرتے ہیں تو پھر محسن بھی روٹھ جاتے ہیںز جب ہم رہبروں کی بے قدری کرتے ہیں تو پھر رہزنوں کے ہتھے چڑھتے ہیں۔ اگر ہم اپنے محسنوں کے محسن ہوتے تو قائد ملت کے بیٹے کو علاج کے لیے سندھ حکومت کو خط نہ لکھنا پڑتا۔ انہیں وزیراعظم پاکستان یا وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو یہ یاد دلانے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ وہ لیاقت علی خان جنہوں نے اپنا سب کچھ اس ملک پر قربان کیا ان کے بیٹے کو مشکل وقت میں کسی مدد کی ضرورت ہے۔شہید ملت لیاقت علی خان کے بیٹے اکبر لیاقت علی خان کی اہلیہ در لیاقت علی خان نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو خط لکھ کر مالی مدد کی اپیل کی ہے۔ اکبر لیاقت علی خان گذشتہ تین برس سے علیل اور گردوں کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ اس دوران وہ ہسپتال میں داخل بھی رہے ان کے کئی آپریشن بھی ہو چکے ہیں۔ شہید ملت کی بہو کے مطابق اکبر لیاقت علی خان کو ماہانہ چیک اپ کے لیے مختلف ڈاکٹرز کے پاس جانا پڑتا ہے صحت کے شدید مسائل کی وجہ سے ان کے بلڈ ٹیسٹ اور ادویات پر بھی بھاری اخراجات آتے ہیں۔
شہید ملت لیاقت علی خان کی بہو نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو لکھا ہے کہ ان کے خاوند نے جمع پونجی انویسٹ کر رکھی ہے جہاں سے ملنے والے پیسوں سے وہ گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ در لیاقت علی خان نے لکھا ہے کہ اکبر لیاقت علی خان کے علاج پر ماہانہ لگ بھگ ایک لاکھ پچھتر ہزار خرچ ہوتے ہیں یہ رقم ہسپتال میں داخل علاج سے الگ ہے۔ انہوں نے وزیر اعلی سندھ کو شہید ملت کے صاحبزادے کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات کی تفصیل بھی لکھی ہے تاکہ کوئی ابہام نہ رہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے صاحبزادے اکبر لیاقت علی خان کے علاج کے لیے دو لاکھ روپے ماہانہ کی منظوری دے دی ہے۔ اکبر لیاقت علی خان دو مرتبہ ہسپتال داخل ہوئے تو ان کے علاج پر لگ بھگ بارہ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔
قارئین کرام یہ کہانی ہے۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے آپکو کیسے حکمرانوں کی ضرورت ہے۔ آپ کیسے حکمران چاہتے ہیں وہ جو ملک کو سنواریں یا وہ جو لوٹ لوٹ کر ملک کی بنیادیں کو کمزور کرتے چلے جائیں اور پھر ملک سے بھی بھاگ جائیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024